- کنگنا رناوت کی بکواس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی؛ پریانکا گاندھی
- سائفر کیس میں وزارتِ خارجہ کے بجائے داخلہ مدعی کیوں بنی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
- اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان، انڈیکس 70 ہزار 333 پوائنٹس پر بند
- 19 ویں صدی کے قلعہ سے 100 برس پُرانی برطانوی ٹرین کار دریافت
- وزن کم کرنیوالی ادویات اور خودکشی کے خیالات میں تعلق کے متعلق اہم انکشاف
- مصنوعی ذہانت کے سبب توانائی کی کھپت میں اضافے کا خطرہ
- امریکا کی ایران کو نئی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی
- پاور پلانٹس کی امپورٹڈ کوئلے سے مقامی کوئلے پر منتقلی کیلیے شنگھائی الیکٹرک کو دعوت
- صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کو مریم نواز کے حکم پر جیل میں بند کیا گیا، یاسمین راشد
- ملت ایکسپریس خاتون ہلاکت کیس میں ایک اور ویڈیو سامنے آگئی
- اڈیالہ جیل کے کمرہ عدالت کی دیواریں مزید بلند، عمران خان سے سوال کرنے پر پابندی
- گوادر سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارش، سڑکیں بہہ گئیں
- جنگل کے قانون سے ملک کا مستقبل خطرے میں ڈالا جا رہا ہے، عمران خان
- تحریک انصاف کا سعودی عرب سے متعلق شیر افضل کے بیان سے اعلان لاتعلقی
- پاک ویسٹ انڈیز سیریز؛ ٹرافی کی رونمائی کردی گئی
- محسود قبائل کا جرگہ، اسٹریٹ کرائمز میں ملوث لوگوں کے جنازے کے بائیکاٹ کی تجویز
- ’’اللہ کے بعد مجھے شریف فیملی پر بھروسہ ہے‘‘
- بھارت میں باحجاب خواتین کے ریسٹورینٹ میں داخلے پر پابندی
- مشیر وزیراعلیٰ کے پی کیلیے ایک کروڑ 71لاکھ روپے کی گاڑی خریدنے کیلیے سمری تیار
- سندھ ہائی کورٹ : پی ٹی اے کو ایکس کی بندش کی معقول وجہ بتانے کا حکم
یہ مکڑی پتوں کی ’جعلی پناہ گاہ‘ بنا کر شکار کرتی ہے!
مڈغاسکر: جنگلی حیات کے ماہرین نے مڈغاسکر کے جنگل میں ایک مکڑی کو اپنے ریشمی لعاب سے پتّوں کو آپس میں جوڑ کر جعلی پناہ گاہ بناتے ہوئے اور مینڈک کا شکار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس عجیب و غریب منظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض مکڑیاں صرف اپنے جالے میں ہی شکار نہیں کرتیں بلکہ اسی جالے کو اچھوتی ’جعل سازی‘ کےلیے بھی استعمال کرسکتی ہیں۔
اس کا مکمل سائنسی نام Sparassidae, Damastes sp ہے لیکن عام زبان میں اسے ’’شکاری کی مکڑی‘‘ (ہنٹس مین اسپائیڈر) کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بہت تیزی سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
جسامت میں یہ عام مکڑیوں سے خاصی بڑی یعنی 4 سے 6 انچ جتنی ہوتی ہے۔ اس کی زیادہ تر اقسام مڈغاسکر کے گھنے اور بارانی جنگلات میں پائی جاتی ہیں جنہیں اب تک بڑے کیڑے مکوڑوں کا شکار کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
یہ کسی پودے یا درخت کے بڑے پتوں کو اپنے ریشمی لعاب (ریشے) کی مدد سے آپس میں اس طرح چپکاتی ہے کہ ایک طرف سے ان کے درمیان کا کچھ حصہ کھلا رہ جاتا ہے جبکہ یہ مکڑی اس کے اندر، ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ جاتی ہے۔
کیڑے مکوڑے ان پتوں کو محفوظ پناہ گاہ سمجھ کر اندر گھسے چلے آتے ہیں اور یہ مکڑی انہیں آرام سے شکار کرلیتی ہے۔
غیر فقاری (بغیر ریڑھ کی ہڈی والے) جانوروں کے ہاتھوں فقاری (ریڑھ کی ہڈی والے) جانوروں کا شکار بننا بہت کم مرتبہ ہی مشاہدے میں آیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ جب ’’شکاری کی مکڑی‘‘ کو اسی طریقے سے ایک مینڈک کا شکار کرتے دیکھا گیا ہے۔ البتہ یہ تصدیق ہونا ابھی باقی ہے کہ وہ مینڈک غلطی سے اس مکڑی کی ’’جعلی پناہ گاہ‘‘ میں گھس آیا تھا یا پھر اس قسم کی مکڑیوں کو بطورِ خاص مینڈکوں کا شکار کرنے کی عادت ہے۔
بہرحال، یہ جو کچھ بھی ہے، یقیناً بہت دلچسپ ہے جس کی مکمل سائنسی تفصیلات اوپن ایکسیس آن لائن ریسرچ جرنل ’’ایکولوجی اینڈ ایوولیوشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔