2020 عالمی معیشت اور پاکستان

ایم آئی خلیل  جمعرات 7 جنوری 2021

2021 کے آغازکے ساتھ ہی عالمی معیشت کے خطرات میں مزید اضافے کی باتیں اس وقت کی جانے لگیں جب کورونا کی نئی لہر نے یورپ کے کئی ملکوں کو جکڑ لیا۔ اس سے قبل آئی ایم ایف اس بات کی پیش گوئی کر رہا تھا کہ 2021 میں عالمی معیشت کی جزوی بحالی کی امید ہے۔

عالمی ادارے کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا کو لاک ڈاؤن کے باعث 1930 کے گریٹ ڈپریشن سے بھی زیادہ کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 2020 کے لیے یہ اندازہ بھی لگایا گیا کہ عالمی معیشت کو 9 ہزار ارب ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔ آئی ایم ایف والے اس وقت حیران رہ گئے جب توقع کے برعکس چین کی معاشی صورتحال بہتر ہوگئی۔

پاکستان جو کہ سی پیک کے ذریعے بھی چین سے جڑا ہوا ہے۔ حکومتی کوششوں سے یہاں کے معاشی اعشاریوں میں بہتری آئی ہے، چونکہ پاکستان ایک کثیر آبادی والا ملک ہے لہٰذا قیام کے وقت سے ہی غربت اور بے روزگاری سے نبرد آزما ہے۔ لاکھوں پاکستانی جوکہ مشرق وسطیٰ  کے ملکوں میں برسر روزگار ہیں۔ گزشتہ سال کورونا کے آغازکے چند ہفتوں بعد ہی تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کے باعث ان ملکوں کو زبردست خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ جن کی آمدنی کا انحصار تیل کی برآمدات پر تھا۔

لہٰذا اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں نے ٹیکسوں میں اضافہ کیا اور اپنے ہاں مقیم غیر ملکی ملازمین کو نکالنے کا آغاز کردیا۔ جس کی وجہ سے پاکستانی بھی شدید متاثر ہوئے۔ دنیا بھرکی ترقی یافتہ معیشتوں کو ایک طویل لاک ڈاؤن سے گزرنا پڑا جس کی وجہ سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 1930 کے بد ترین کساد بازاری کو  بھول کر اب دنیا2020 کو یاد رکھے گی۔ جس نے عالمی معیشت کو بے دست و پا کرکے رکھ دیا ہے۔

تیل کے بحران نے تیل کے اہم ترین برآمدی ملکوں علاوہ صنعتی ملکوں کے ان کی معیشت کو زمیں بوس کردیا اور صنعتی ممالک کی حالت یہ رہی کہ صنعتیں بند، کاروبار بند اور ہر طرح کی خرید و فروخت میں زبردست کمی نے لوگوں کی آمدن کے ذرائع کو انتہائی کم ترین سطح پر پہنچا دیا۔پاکستان میں بھی ابتدائی مہینوں میں لاک ڈاؤن کیا گیا اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے احساس پروگرام کے تحت 144 ارب روپے فی خاندان 12 ہزار روپے کے حساب سے تقسیم کیے گئے۔

اس طرح معیشت میں 144 ارب روپے کے سرایت کر جانے کے باعث مارکیٹ میں اشیائے خورونوش سے لے کر دیگر ضروری اشیا کی طلب میں اضافہ ہوا۔ جلد ہی لاک ڈاؤن کی نرمی کے باعث کارخانوں، ملوں میں کام شروع ہوا۔ انھی دنوں خطے کے دیگر ممالک سخت لاک ڈاؤن میں تھے لہٰذا ایسے میں پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کو پنپنے کا موقعہ ملا اور کروڑوں ڈالرزکے آرڈرز پاکستان شفٹ  ہوئے۔ جس کے باعث دنیا کے دیگر ملکوں کے برعکس پاکستان کی برآمدات میں توقع کے برعکس اضافہ ہوا۔

آئی ایم ایف جوکہ نئی قسطوں کے اجرا کے سلسلے میں جلد ہی مذاکرات شروع کرنے والا ہے۔ اس کی سخت ترین شرائط کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ جو 2020 کی سنبھلتی ہوئی معیشت کے قدم ڈگمگا سکتی ہے۔ کیونکہ بجلی کے نرخ کم سہی لیکن بڑھائے گئے ہیں اور اس ماہ کے آغاز کے ساتھ ہی پٹرول کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یعنی پٹرول 2.31، ڈیزل 1.80، مٹی کا تیل 3.36، ایل پی جی 15 روپے مہنگی کردی گئی ہے۔ اس طرح پٹرول اب 106 روپے، ڈیزل 110.24 روپے لیٹر ہو گیا ہے۔

بتایا یہ جا رہا ہے کہ اوگرا نے تو زیادہ اضافے کا کہا تھا لیکن  وزیراعظم عمران خان نے کم سے کم اضافے کی منظوری دی ہے۔ یہی صورت حال بجلی کے نرخوں کے سلسلے میں رہی کہ زیادہ کے بجائے نرخ کم سے کم بڑھائے گئے ہیں۔ پاکستان  میں صورتحال یہ ہے کہ بڑھائے گئے نرخ کے مطابق کبھی بھی کسی شے کی لاگت میں یا کرایوں میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اضافے کی شرح بہت ہی زیادہ ہوتی ہے۔

مثلاً معمولی اضافے پر بھی ٹرانسپورٹرز یہ کہہ کر زیادہ کرایہ وصول کرتے ہیں کہ پٹرول، ڈیزل کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ملک میں گیس کی قلت کے باعث ایل پی جی، گھریلو سلنڈر 180 روپے اور کمرشل سلنڈر 692 روپے مہنگا ہو گیا ہے۔ یہ باتیں معیشت پر آنے والے مثبت اثرات کو متاثر کرتی ہیں اور سست رفتاری سے چلنے والی معیشت کے لیے سنبھلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

آئی ایم ایف جوکہ دنیا بھرکی امیر معیشتوں کے لیے کھربوں ڈالر امداد لیے ان کی مدد کو پہنچا ہوا ہے لیکن جب ترقی پذیر ممالک ہوں یا پھر پاکستان تو صرف چند ارب ڈالر میں سے اس کی چھوٹی چھوٹی قسطوں کے اجرا سے قبل اس کا ہمیشہ یہ وتیرہ رہا ہے کہ سخت کڑی شرائط عائد کردی جاتی ہیں۔ 2020 کے دوران پاکستان کو اپنے ایکسپورٹ کے حوالے سے ریجن میں بہتر کارکردگی دکھانے کا موقعہ ملا۔ صرف ماہ نومبر میں پچھلے سال 9 سال کاریکارڈ توڑتے ہوئے ٹیکسٹائل برآمدات ہوئیں جب کہ حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ 6 ماہ میں پاکستان کی برآمدات میں 4.6 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ ماہ دسمبر میں برآمدات کی بلند ترین شرح حاصل ہوئی جوکہ 18.3 فیصد تھی۔

اس طرح ٹیکسٹائل برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کو اپنی ٹیکسٹائل برآمدات کے سلسلے میں اکتوبر میں 5 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ اکتوبر میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں 7 فیصد اضافہ ہوا۔ اس دوران پاکستان نے برآمدات کے سلسلے میں دنیا کے 30 ممالک میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ ٹیکسٹائل برآمدات کی بات کریں تو 20 فیصد مال امریکا 12 فیصد فرانس، 12 فیصد مڈل ایسٹ اور برطانیہ کے لیے 10 فیصد، چین کو 8.6 فیصد بھیجا جاتا ہے۔ معاشی اعشاریوں کی بات کریں تو  اس دوران ترسیلات زر 26.5 فیصد اضافہ اور ڈائریکٹ فارن انوسٹمنٹ میں 9.7 فیصد اضافہ ٹیکس کلیکشن میں 4.5 فیصد اضافہ، سیمنٹ سیکٹر کی پیداواری کھپت میں بہت زیادہ اضافہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تعمیراتی شعبے کی شرح افزائش نمایاں رہی ہے۔

لہٰذا ہم کہہ سکتے  ہیں کہ عالمی معیشت جوکہ 2020 کے دوران سخت ترین زبوں حالی، بدحالی اور جمود کا شکار رہی ہے اور جہاں چین نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہیں پاکستان کی معیشت میں بھی دنیا کے مقابلے میں قدرے بہتری آئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔