صاف پانی تک رسائی

شکیل فاروقی  پير 30 دسمبر 2013
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ ’’وہ بچے جو پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، وہ خواتین جنھیں اپنے تحفظ کا خوف ہے اور وہ نوجوان جنھیں بہترین تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں بہتر زندگی گزارنے کے حقدار ہیں اور ان کی بہتری کی ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ تمام لوگ پینے کے صاف پانی، صفائی ستھرائی، سر چھپانے کے لیے سائبان اور بنیادی خدمات کی فراہمی کا حق رکھتے ہیں‘‘۔ بلاشبہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہر شہری کا پیدائشی حق ہے۔ زندگی کی دیگر تمام بنیادی سہولتوں میں پینے کے پانی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ پانی ہر انسان کی سب سے بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔

یہ بات انتہائی قابل ستائش ہے کہ پانی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ سندھ کی حکومت ایک عرصہ دراز سے پینے کے صاف پانی کی باآسانی فراہمی کے منصوبوں کو بڑی شدو مد کے ساتھ عملی جامہ پہنانے میںمصروف ہے۔ ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب اندرون سندھ کے باسی پینے کے پانی کی ایک ایک بوند کے لیے ترسا کرتے تھے اور اس کے حصول کے لیے انھیں میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ یہ سفر طویل ہونے کے علاوہ بے حد دشوار اور انتہائی غیر محفوظ بھی ہوا کرتا تھا۔ اسی سلسلے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کسی بھی خاندان کی خواتین کو ہوتا تھا جنھیں اپنی گھریلو ذمے داریوں کے علاوہ دور دراز سے پانی ڈھو ڈھو کر لانے کا تکلیف دہ فریضہ بھی ادا کرنا ہوتا تھا۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے ان بے چاریوں کو اپنے سروں پر پانی کے بڑے بڑے اور بھاری بھاری برتن لاتے ہوئے دیکھا تھا۔

پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی نہ صرف صحت بلکہ مالی مسائل کو بھی جنم دیتی ہے۔ مثلاً اگر کسی غریب اور نادار خاندان کا کوئی فرد آلودہ پانی کے استعمال کے باعث بیماری کا شکار ہوجائے تو اس کے ساتھ مفلسی اور آٹا گیلا والا معاملہ پیش آتا ہے کیونکہ ہیضے اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض کے مہنگے علاج معالجے کے نتیجے میں نہ صرف اس کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کا دیوالہ بھی نکل جاتا ہے اور اس کی خون پسینے کی کمائی اور عمر بھر کی جمع پونجی علاج معالجے کے اخراجات کی نذر ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹروں کی فیسوں اور دواؤں کی خریداری پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اسے قرض کی بیڑیوں میں جکڑ دیتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں پانی سے پیدا ہونے والے امراض کے باعث ہلاک ہونے والے بچوں کی شرح تقریباً ساٹھ فیصد ہے۔ ملک میں اوسطاً 630 بچے ہر روز بدہضمی کا شکار ہو کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 1.2 ملین لوگ آلودہ پانی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ در حقیقت آلودہ پانی بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے جس میں ہیپاٹائٹس سے لے کر گیسٹرو سمیت متعدد بیماریاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دماغ کو کھا جانے والی انتہائی خطرناک بیماری اموئبا بھی آلودہ پانی کے استعمال سے ہی لاحق ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پینے کے صاف پانی تک رسائی کو بنیادی حق قرار دیا ہے لیکن وطن عزیز جیسے ملک میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کی صورت حال مثالی نہیں ہے صوبہ سندھ کی حکومت اس بنیادی حق کی عوامی سطح تک دستیابی کے لیے بھرپور جدوجہد کر رہی ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ ہمیں اندرون سندھ کے اپنے حالیہ دور کے دوران ہوا۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں قائم کیے جانے والے سیکڑوں واٹر فلٹریشن پلانٹس نے وہاں کے رہائشیوں کے لیے بڑی آسانیاں پیدا کردی ہیں ۔ فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ ’’شنیدن کے بود مانند دیدن‘‘۔ اس کا آسان اردو ترجمہ یہ ہے کہ آنکھوں دیکھی کا سنی سنائی باتوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔ اسی مفہوم کو انگریزی زبان میں Seeing is Believing کے الفاظ کے ذریعے ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلام کوٹ کے ہمارے حالیہ دورے میں ہمارے ساتھ بس یہی کچھ پیش آیا۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں پر نصب واٹر پلانٹس نے اس پورے علاقے کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔ لگتا ہی نہ تھا کہ یہ علاقہ کبھی اس انداز میں تبدیل ہوکر اتنا اچھا ہوجائے گا۔ یہاں پینے کے لیے قطعی ناقابل استعمال کڑوے پانی کو اس قدر بہترین انداز میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے میٹھے پانی میں تبدیل کیا جارہا ہے کہ دیکھنے والے کو خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ یہاں پر میٹھے پانی کی فراہمی بلاتعطل اور Non-Stop کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ پینے کا یہ صاف و شفاف پانی جسے آب حیات کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا، انتہائی سستے نرخوں یعنی صرف 16 پیسے فی گیلن کے حساب سے مہیا کیا جارہا ہے جسے کار ثواب ہی کہا جاسکتا ہے۔

اتنے باکفایت نرخوں پر پانی کی یہ فراہمی دراصل ایک بہت بڑی قومی اور انسانی خدمت ہے۔ صوبہ سندھ کی حکومت ریورس آسموسس پلانٹس کے 100 سے زائد منصوبوں پر روز و شب نہایت تندہی کے ساتھ جذبہ خدمت کے تحت کام کر رہی ہے جو یقینا قابل ستائش اور لائق تحسین ہے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا کار خیر اور عوامی خدمت کا جیتا جاگتا مظاہرہ ہے۔ ان منصوبوں کی بدولت عوام کو نہ صرف پینے کا صاف اور صحت بخش پانی میسر آ رہا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آ رہے ہیں۔ ان منصوبوں کی کامیابی کے دو نتیجے بالکل نمایاں ہیں۔ اول یہ کہ علاقے کے اسپتالوں میں آلودہ پانی پینے کے باعث داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ جب کہ دوسری جانب آلودہ پانی پی کر بیمار ہونے والے اسکول کے طلبہ کی غیر حاضریاں بھی رفتہ رفتہ کم سے کم ہو رہی ہیں۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے یہ منصوبے قطعی ناکافی ہیں۔ اس لیے ہماری حکومت سندھ سے اپیل ہے کہ اس طرح کے منصوبے بلاتاخیر ان دیگر علاقوں میں بھی جلد از جلد شروع کیے جائیں جہاں کے رہائشی بڑی شدت سے اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔