بچوں کو کھیلنے دو

ظہیر اختر بیدری  پير 30 دسمبر 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ویسے تو پاکستان میں احتساب کا سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے لیکن سردیوں کی لہر کی طرح کبھی کبھی یہ سلسلہ لہر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ موجودہ سردیوں کے موسم میں بھی سردیوں کی لہر کی طرح احتساب کی لہر آئی ہوئی ہے۔ اس تازہ لہر کی زد میں ایسے ایسے ’’بزرگ‘‘ آرہے ہیں جن سے احتساب ہمیشہ خوفزدہ رہتا تھا اور دور بھاگتا تھا۔ ان احتساب زدگان میں پاکستان کی دو نامور ہستیاں بھی شامل ہیں۔ ایک سابق صدر آصف علی زرداری، دوسرے وزیراعظم میاں نواز شریف ہیں۔ ان پر بعض اہم کیسوں کا سلسلہ بیسویں صدی میں شروع ہوا تھا اور اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اس سلسلے کا اختتام ہوا کہ آصف علی زرداری کے کیسوں کے حوالے سے یہ فتویٰ جاری ہوا کہ ان کے خلاف سوئس کیس ’’ٹائم بار‘‘ ہوگیا ہے اب اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ میاں نواز شریف اینڈ فیملی کے حوالے سے جوکیس چل رہے تھے اس کے حوالے سے بھی میڈیا میں یہ خبر آئی ہے کہ یہ بھی ’’ٹائم بار‘‘ ہوگئے ہیں۔

آصف علی زرداری کے خلاف سوئس کیس تو ہمارے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں اس خوفناک طریقے سے چلا کہ اس کی وجہ سے اس وقت کے وزیراعظم کی وزارت عظمیٰ ماری گئی اور ان کی جگہ لینے والے دوسرے وزیراعظم کی وزارت عظمیٰ پر بھی اس کیس کی تلوار لٹکتی رہی۔ بہر حال قابل اطمینان بات یہ ہے کہ ایک صدر اور ایک وزیراعظم ’’ٹائم بار‘‘ سے مستفید ہوگئے لیکن یہ ٹائم بار کیوں ہوا؟ اس کی ذمے داری کس پر آتی ہے یہ موضوع زیر بحث ہے اور رہے گا۔ لیکن ان دو ٹائم بار کیسوں سے نجات کے باوجود مزید کیس منہ کھولے کھڑے ہیں۔دوسری خبر کے مطابق ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں فراڈ کی تحقیق کے دوران ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ ایف آئی اے نے یوسف رضا گیلانی اور سابق سینئر وزیر امین فہیم کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم جنھیں عوام راجہ جی کے نام سے جانتے ہیں کرپشن کے الزام میں زیر تحقیق ہیں۔ ایک سابق بیورو کریٹ کرپشن کے الزام میں زیر حراست ہیں۔ ایک اور تازہ خبر کے مطابق نیب نے 300 سے زاید ہائی پروفائل کیسز کھول دیے ہیں‘ ان ہائی پروفائلز یعنی بڑے لیڈروں میں مبینہ طور پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، (ق) اور متحدہ کے رہنما شامل ہیں۔

یوسف رضاگیلانی نے اپنے کیسوں کے حوالے سے بڑی دلچسپ بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کے جتنے کیسز ہیں ان سب کی تفتیش بھی مجھ سے کرالیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ سابق وزیر اعظم نے یہ مزاحیہ بات بھی کی ہے کہ ’’بچوں کو یہ کھیل کھیلنے دیں‘‘ ۔ اس بیان سے ہائی پروفائل کیسوں کی اہمیت ہی کا نہیں ان کے ممکنہ انجام کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جن میں اہم شخصیات ملوث ہیں پاکستان کے درجنوں قومی اداروں میں اربوں روپوں کی کرپشن کے کیس اس کے علاوہ ہیں۔ بھارت میں ایک پوسٹ مین پر منی آرڈر میں تھوڑی سی رقم کی خردبرد کے کیس کا فیصلہ غالباً 42 سال بعد سنایا گیا جی چند سو سے کم کا فیصلہ آنے میں 42 سال لگے بھارت اور پاکستان نہ صرف پڑوسی ملک ہیں بلکہ ہزاروں سال پر مشتمل ان کی مشترکہ تاریخ بھی ہے کیا دونوں ملکوں کے انصاف کی تاریخ بھی مشترکہ نہیں ہوسکتی؟ اگر بھارت میں ایک پوسٹ مین کو انصاف ملنے میں 42 سال لگ سکتے ہیں تو ہمارے ہائی پروفائل حضرات کو اربوں کی کرپشن میں انصاف کا انتظار صدیوں تک کرنا غیر منطقی ہے۔

کرپشن ایک عالمگیر بیماری ہے دنیا کے بیشتر ملکوں میں کرپشن کے بڑے بڑے کیس منظر عام پر آتے رہے ہیں پاکستان اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی نیک نام ہے جس طرح مچھر گندگی سے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح کرپشن سرمایہ دارانہ جمہوریت سے پیدا ہوتی ہے پھلتی پھولتی ہے کرپشن کو 90 دن میں ختم کرنے کے دعوؤں کا مطلب صرف عوام کو بے وقوف بنانا ہے اور جمہوریت کی ایک بڑی پہچان جھوٹ بولنا ہے کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو مریض کے ساتھ اس وقت تک رہتا ہے جب تک مریض سانس لے رہا ہو۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا مطلب اشرافیہ کی حکومت ہوتا ہے اور کرپشن اشرافیہ کی گھٹی میں ڈالی جاتی ہے۔

احتساب کا ڈرامہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا حصہ ہے چونکہ اس جمہوریت میں خاص طور پر وڈیرہ شاہی جمہوریت میں قانون اور انصاف کے ادارے بے دست و پا ہوتے ہیں لہٰذا برسر اقتدار اور سابق اشرافیہ احتساب کے خوف سے آزاد ہوتی ہے ہماری حالیہ احتسابی تاریخ میں ہر اس احتسابی سربراہ کو نکال کر باہر پھینک دیا گیا جو اشرافیہ کے لیے خطرہ بنا اس حوالے سے نیب میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ ہمارے سامنے ہے۔ اگر بفرض محال چند ہائی پروفائلز کو کرپشن کیسوں میں سزا ہو بھی جاتی ہے تو اس سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ کرپشن کسی فرد یا افراد تک پھیلی ہوئی نہیں بلکہ اس میں پوری اشرافیہ ملوث ہے حتیٰ کہ یہ وبا چھوٹے پیمانے پر نچلی سطح تک آجاتی ہے۔ منافع سرمایہ دارانہ نظام کا ایک متحرک عنصر ہے اور منافع کا لالچ سبزی فروشوں، پھل فروشوں، کریانہ فروشوں میں بھی موجود ہوتا ہے منافع خوری بھی خواہ وہ بڑے پیمانے کی ہو یا چھوٹے پیمانے کی کرپشن ہی کا حصہ ہے جو اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک یہ کرپٹ نظام ختم نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے ایک تازہ مثال دی جاسکتی ہے سابقہ حکومت کے ایک وزیر باتدبیر پر یہ کھلا الزام میڈیا میں رپورٹ ہوتا رہا کہ موصوف نے نوکریاں بیچنے کا کاروبار اتنے بڑے پیمانے پر کیا کہ کروڑوں نہیں اربوں روپے کما لیے اور بہت سارے غریب اب تک نوکریاں کر رہے ہیں لیکن تنخواہوں سے محروم ہیں۔

جیساکہ ہم نے بتا دیا ہے کرپشن کا مکمل خاتمہ تو ممکن ہی نہیں لیکن اعلیٰ سطح کرپشن کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ احتساب چند افراد تک محدود نہ ہو بلکہ اس کا دائرہ پوری اشرافیہ تک وسیع کیا جائے اس کے لیے عدالتی نظام کے گواہ ثبوت کام نہیں دے سکتے بلکہ اس کے لیے ایک عمومی فارمولے پر عملدرآمد کرنا پڑے گا اور وہ فارمولا یہ ہوسکتا ہے کہ حال اور سابق حکمران طبقات کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کسی آزاد اور غیر جانبدار احتسابی ادارے سے کرائی جائے اور چھان بین کے بعد اگر ڈکلیئرڈ اثاثوں میں غلط بیانی کا پتہ چلتا ہے تو اس کی سخت سزا مقرر کی جائے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیک کام انجام کون دے گا کیونکہ اس نظام میں اینٹی کرپشن کے ادارے سب سے زیادہ کرپٹ سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے سابق وزیر اعظم کے اس فرمان پر نظر ڈالنے سے ان کی خود اعتمادی کا اندازہ ہوسکتا ہے جس میں احتساب کے کام کو انھوں نے ’’بچوں کا کھیل‘‘ کہا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ ’’بچوں کو کھیلنے دو‘‘۔ یہ اعتماد ایک فرد واحد کا نہیں ایک پورے طبقے کا ہے اور اس اعتماد کو کوئی ایسی ہی جمہوری حکومت ختم کرسکتی ہے جو جمہوریت کی اس تعریف پر پوری اترتی ہو ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے ، عوام کے ذریعے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔