کورونا کی دوسری لہر سے عوام خوفزدہ کیوں نہیں؟

جاوید نذیر  جمعـء 8 جنوری 2021
عوام احتیاطی تدابیر کو نظر انداز اور لاپرواہی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

عوام احتیاطی تدابیر کو نظر انداز اور لاپرواہی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کورونا کی تباہ کاری دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی متاثر کررہی ہے اور جس شدت کے ساتھ کورونا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اس سے دنیا یقیناً خوف میں مبتلا ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی کورونا کی شدت کے باوجود عام مشاہدہ ہے کہ کورونا کی پہلی لہر کی نسبت دوسری لہر سے عوام نسبتاً کم خوفزدہ ہیں۔

تاسف کی بات ہے کہ کورونا سے بچاؤ کےلیے جو عالمی معیارات دنیا بھر اور ہمارے ملک نے طے کیے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ عوام نے انہیں یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ حالانکہ آپ کسی بھی چھوٹے بڑے بازار، شاپنگ مال، بینک، ہوٹل، دفاتر یا کسی بھی ادارے میں چلے جائیں آپ کو یہ لکھا تو ضرور نظر آئے گا کہ ’’نو ماسک، نو انٹری‘‘ یا ’’نو ماسک، نو سروس‘‘ لیکن آپ مشاہدہ کرلیجئے تو اس دکان، دفتر یا شاپنگ مال میں کسی کسی نے ہی کوئی ماسک لگایا ہو۔ کوئی بھی ان عالمی معیارات (ایس او پیز) پر عمل پیرا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام میں قوت مدافعت بہت زیادہ ہے۔ حالانکہ آپ دیکھیں کہ عوام کو کھانے پینے کی اشیا ملاوٹ شدہ ہی ملتی ہیں۔ آئے دن ملاوٹ شدہ اشیا کو حکومتی مقرر کردہ ادارے کی طرف سے تلف کرنے کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ موجودہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر قابو پانے کےلیے مصالحہ جات کو پیکٹوں میں فروخت کیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور پابند کیا گیا ہے کہ جو اس کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اب سوال یہ کہ پیکٹوں کے اندر ان مصالحہ جات کا کیا معیار ہے، یہ ایک اور مسئلہ ہے۔

پوری دنیا نے کورونا کی دوسری لہر کے پیش نظر لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کیا۔ لیکن ہمارے عوام نے لاک ڈاؤن کی سختی سے تردید کی اور حکومت کو یہ باور کروایا کہ وہ کسی بھی قیمت پر لاک ڈاؤن پر عمل نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کورونا کے متاثرین کی تعداد اور اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ سلسلہ بتدریج جاری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب تک دس ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں اور پندرہ لاکھ سے زیادہ متاثرین ہیں۔ گو کہ کورونا کی دوسری لہر کے پیش نظر اسکولوں، کالجوں اور یونیوسٹیوں کو دس جنوری تک بند کردیا گیا، لیکن دیگر شعبہ ہائے زندگی کے معمولات چل رہے ہیں۔

حکومت کی یہ بات درست ہے کہ سارے عوام کو گھر بٹھا کر نہیں کھلا سکتے اور جس قدر ان سے بن پایا انہوں نے کیا۔ لیکن عام آدمی تاحال پریشان ہے۔ کیونکہ حکومت نے کورونا کے پیش نظر جو فنڈ مقرر کیا تھا اس میں سے شاید ہی اکثریتی عوام کو کچھ ملا ہو۔

ایک سروے کے مطابق کورونا کی وجہ سے ہمارے ملک میں 11 فیصد عوام بیروزگار ہوئے اور وہ اپنے بہن بھائیوں، رشتے داروں اور دوستوں سے قرض لے کر زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کررہے ہیں۔ آپ مشاہدہ کیجئے کہ ہوٹل انڈسٹری اور ریسٹورنٹس سے جڑا مزدور طبقہ بیروزگار ہوچکا ہے، تعلیم کے شعبے سے جڑا طبقہ بھی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ کرائے کی عمارتوں میں بنائے گئے اسکول، کالجز بند ہوچکے ہیں اور ان کے اساتذہ اور اسٹاف تاحال بے روز گار ہیں۔ حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں کی بندش کا وقت دس جنوری کو ختم ہوجائے گا۔ اس کے بعد حکومت کیا فیصلہ لیتی ہے، یہ آنے والے حالات پر منحصر ہے۔

اگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان خلیج دیکھیں تو کورونا کی دوسری لہر میں اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا پی ڈی ایم کے نام سے بننے والے اتحاد نے کورونا کی دوسری لہر میں ہی اپنے احتجاج کا سلسلہ جلسوں کی شکل میں جاری رکھا اور نتیجے میں حکومت نے بھی جلسوں کا آغاز کیا۔ لیکن حکومت کو جلد ہی اپنی غلطی کا ادراک ہوا اور انہوں نے حکومتی جلسوں کو روک دیا اور اپوزیشن کو بھی کورونا کی شدت کے دوران جلسوں سے اجتناب کا مشورہ دیا۔ لیکن اپوزیشن نے سوال اٹھایا کہ جب حکومت نے جلسے کیے تب انہیں کورونا کا خیال کیوں نہیں آیا؟ انہوں نے ایس او پیز کے ساتھ جلسے کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن جلسوں میں اس کی خلاف ورزی معمول رہی۔ یوں کہنا بجا ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن کی ہٹ دھرمی کی وجہ بھی کورونا میں اضافے کا موجب بنی ہے۔ عوام کی شدید خواہش ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر کورونا کے معاملے پر حکمت عملی بنائیں اور عوام کو بچانے کےلیے ممکنہ جدوجہد کریں۔

سوال یہ ہے کہ عوام کورونا کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لے رہے۔ کیا انہیں کورونا کا خوف نہیں ہے؟ کیا انہیں کورونا سے متعلق آگاہی نہیں ہے؟ کیا انہیں حد سے زیادہ خود اعتمادی ہے؟ کوئی وجہ تو ہے جس کی بنا پر عوام کورونا کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے۔ گو کہ شادی ہالز میں مقررہ اوقات کار کے دوران ایس او پیز کے ساتھ فنکشنز کرنے کی اجازت ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کی ہدایت بھی ہے، لیکن اس کے باوجود شادیاں دھڑا دھڑ ہورہی ہیں۔ مسیحیوں کے مذہبی تہوار ’’کرسمس‘‘ کے دوران انہیں پابند کیا گیا کہ کرسمس کی عبادت کے دوران ایس او پیز کا خیال ضرور رکھیں اور اگر عوام زیادہ ہو تو ایک سے زائد مرتبہ عبادت کریں۔

دنیا کی احتیاطی تدابیر کے باوجود کورونا کے پھیلاؤ کا سلسلہ عالمی سطح پر تاحال جاری ہے اور اٹلی، ڈنمارک، نیدرلینڈ، آسٹریلیا اور بیلجیم میں کورونا کی نئی شکل سامنے آئی ہے جس سے دنیا ایک مرتبہ پھر خوف کے سائے میں چلی گئی ہے اور تشویش ابھری ہے کہ کیا کورونا کی ویکسین کورونا کی اس نئی شکل کےلیے بھی کارآمد ہوگی؟

یونیسف کی رپورٹ کے مطابق کورونا کی وجہ سے دنیا کے 140 ممالک کے 20 لاکھ بچوں کو خطرہ ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک بشمول گلف کے ممالک نے ایک مرتبہ پھر اپنے ملکوں میں غیر ملکی پروازوں کی آمد روک دی ہے۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی سطح پر دنیا اسے سنجیدگی کے ساتھ لے رہی ہے۔

کورونا کی ویکسین کی حوالے سے مثبت خبریں سامنے آرہی ہیں اور عالمی رپورٹوں کے مطابق مغرب میں اس کی ویکسین عام آدمی کےلیے دستیاب ہے، لیکن ہمارے ملک میں تاحال اس کی رسائی نہیں ہوسکی۔ امید ہے کہ ہمارے ملک میں بھی جلد ہی اس کی ترسیل شروع ہوجائے گی۔ لیکن اس وقت تک عوام کو ازسر نو ان تمام حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے جسے اپنا کر وہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو محفوظ بناسکتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق ویسے تو کورونا کا موسم سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن عام فہم بات ہے کہ کورونا صرف سردیوں کا وائرس ہے اور گرمیوں میں اس کا زور ختم ہوجاتا ہے، حالانکہ رواں سال میں گرمی کے موسم میں بھی کورونا کی تباہ کاری اس کا ثبوت ہے کہ کورونا کا سرد یا گرم موسم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس تمام بحث کے بعد ایک مرتبہ پھر عوام کو کورونا کی شدت کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے آپ اور دوسروں کو حتیٰ الوسع بچانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہمیں کورونا کی ویکسین نہیں مل جاتی تب تک اس سے احتیاط میں ہی عوام کی زندگی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔