اب بھی سنبھل جائیے ورنہ!!

نجمہ عالم  پير 30 دسمبر 2013

پاکستان کی موجودہ ابترصورتحال کے ذمے دار محض ماضی وحال کے حکمران ہی نہیں بلکہ بڑی حد تک ہم خود (عوام) بھی ہیں جو سیاستدانوں کو اپنے ووٹوں سے برسر اقتدار لاکر دو چار ماہ بعد ہی اپنے منتخب کردہ لیڈروں کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اپنے انتخاب کو غلط قرار دیکر کسی کو مسترد کرنا الگ بات ہے مگر اس تجربے کے بعد بھی ان ہی سیاستدانوں کی چلائی کسی بھی تحریک، کسی بھی احتجاج کا حصہ بننے کے لیے پھر بے قرار ہوجاتے ہیں اور گزشتہ تجربے سے کوئی سبق حاصل کرنا گوارا نہیں کرتے جب کہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان ملکی ترقی و خوشحالی سے سروکار نہیں رکھتے، وہ تو صرف اپنے مفاد اور اپنے سیاسی ایجنڈے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم آئے دن نت نئے ریکارڈ قائم کرتے رہتے ہیں مثلاً گزشتہ دنوں ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ ریکارڈ قائم کیا کہ ملک کے تین صوبائی دارالحکومتوں میں بیک وقت صوبائی حکمرانوں کے خلاف احتجاجی جلسے اور ریلیاں منعقد کیں۔

سندھ کے صدر مقام کراچی میں حکمران جماعت کے بلدیاتی نظام کے ترمیمی آرڈیننس پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اپنے تحفظات پر احتجاج کیا۔ ادھر پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مہنگائی کے حوالے سے حکمرانوں کے خلاف پی ٹی آئی نے مظاہرہ کیا اور جو دعویٰ تھا کہ لاہور میں سونامی ایوان اقتدار کو بہالے جائے گا وہ صورتحال بہر طور پیدا نہ ہوسکی بلکہ اس سے پہلے مینار پاکستان پر ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسوں میں شرکت کرنیوالوں کے مقابلے میں تعداد کافی کم رہی جو یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ سونامی کو کتنے عوام کی حمایت حاصل رہی اور یہ کہ اب لوگوں کا اس تحریک کے لیے پہلے جیسا جوش و خرو ش ماند پڑچکا ہے۔ اس کی وجوہات یوں تو سب جانتے ہیں مگر اس پر اظہار خیال پھر کبھی سہی … لاہور میں مظاہرہ کرنیوالے کے خلاف ان کے صوبے یعنی کے پی کے میں ان ہی کے خلاف اے این پی (اسفند یار ولی) نے احتجاج ریکارڈ کرایا یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ تین صوبائی حکومتوں کے خلاف مظاہرہ اور احتجاج کیا گیا۔

اس صورتحال پر غور کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ ایک طرف تو عوام جمہوری طورپر زیادہ مضبوط اور با شعور ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری جانب یہ جاننے سے قاصر بھی کہ ہمارا یہ عمل ملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا یا نقصان دہ؟ اگر یہ سب کچھ واقعی اصلاح احوال کے لیے ہے تو بیحد قابل ستائش ہے کہ ہم غیر قانونی ہتھکنڈوں سے عوام کے حق پر کسی کو ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتے یا یہ کہ کمر توڑ مہنگائی سے پریشان عوام کو بچانا چاہتے ہیں اس لیے ان کے درد اور مسائل کی خاطر اتنے پاپڑ بیل رہے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ اپنی اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے (کیونکہ بلدیاتی انتخابات قریب ہیں لہٰذا عوام اس طرح بھی سوچنے پر مجبور ہیں) اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے ہے تو پھر اس ملک کا خدا حافظ۔ حق و انصاف کی سربلندی اور عوامی خدمت مطمع نظر ہو تو کیا کہنا اور جو صرف اور صرف حکمرانوں کو دباؤ میں مبتلا کرکے اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنا ہے تو قابل مذمت مگر اس کا فیصلہ کون اور کیسے کریگا کہ یہ محض سیاسی شعبدہ بازی ہے یا خدمت خلق؟

مشرقی پاکستان حق دار کو حق نہ دینے کے نتیجے میں بنگلہ دیش بن گیا۔ ذمے داروں کا تعین نہ ہوسکا کہ کون تھا؟ ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ اور ڈھاکہ میں اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ’’ٹانگیں توڑنے‘‘ والے فقروں کا اعادہ کرکے بھی در اصل اس سانحہ عظیم کے اصل کرداروں کی پردہ پوشی ہی کی جاتی رہی ہے۔جنرل یحییٰ خان کو عدالت نے غاصب قرار دیا مگر کوئی ان کا احتساب نہ کرسکا جب کہ وہ وہ لوگ جنھوںنے بنگالیوں کو خود سے کمتر، غیر مہذب اور نہ جانے کیا کیا سمجھا اور اپنی سمجھ کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کیا ان کی اکثریت کو تسلیم کیا گیا نہ ان کی زبان کو اہمیت دی گئی وہ لوگ کون تھے اور کیا چاہتے تھے۔؟ کیا پورے ملک میں بنگلہ دیش کے قیام سے آج تک کوئی نہیں جانتا؟ … خیر چلیے جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا یعنی ملک دو لخت ہوگیا ہمارے 90 ہزار فوجی جوان ہتھیار ڈال کر جنگی قیدی بنالیے گئے۔ بچے کچے پاکستان میں پی پی پی کی حکومت قائم ہوگئی، جنگی قیدی بھی باعزت طورپر واپس آگئے اسلامی سربراہ کانفرنسیں (لاہور) میں بنگلہ دیش منظور بھی کر لیا گیا … اتنا کچھ ہوجانے پر تو کم از کم ہمارے سیاستدان، حکمران اور خود عوام کوئی سبق حاصل کرتے۔ آدھے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے تمام اختلافات پس پشت ڈال کر اپنی خود مختاری، عزت و غیرت کو برقرار رکھا جا سکتا تھا۔

جو قو میں ٹھوکر کھاکر سنبھل جاتی ہیں وہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی بحال کرلیتی ہیں مگر جو ٹھوکر پر ٹھوکر کھانے پر بھی سنبھلنے کا نام نہ لیں بھلا کون ان کو عزت کی نظر سے دیکھے گا؟ اور کون ان کو تباہی و بربادی سے بچاسکتا ہے … بات دراصل یہ ہے کہ ہماری ملکی سیاست پر انگریزوں کے پروردہ اور ان کی خدمت و چاپلوسی کے عوض بڑی بڑی جاگیریں حاصل کرنیوالے اور غیر ملکی آقاؤں کے تربیت یافتہ بیوروکریٹس آج بھی اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ملک کو ہر طرح داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ انھیں عوام کے مسائل سے دلچسپی ہے اور نہ ملکی ترقی سے وہ صرف اور صرف اپنی لیڈری ، جاگیریں بچانے اور اسمبلی میں اپنے بیٹوں، پوتوں اور خاندان کے دیگر افراد کو پہنچانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اس کے علاوہ نہ ان کا کوئی کردار ہے اور نہ وفاداری اب اگر ایسے میں کوئی شخص عوام کے نچلے طبقے کو متحرک کرے انھیں ایوانوں میں پہنچانے کا ارادہ کریگا تو ملک کے یہ ٹھیکیدار بھلا اس کی جان اور نظریات کے دشمن نہ ہو جائینگے؟ قومی سطح اور بلدیاتی سطح پر ہر طرح ان کا راستہ روکنے کے لیے ایسی ایسی سیاسی چالیں چلی جائیںگی کہ شیطان بھی پناہ مانگے … اب اس کوشش میں ملک کو کتنا نقصان ہورہاہے یا معاشرہ کس ڈگر پر جارہاہے اس سے کسی کو بھی سروکار نہیں۔ یہ تو صرف اہل قلم، شاعر و ادیب ہیں جو اس بھیانک صورتحال کو سامنے لاتے رہتے ہیں۔

اسی سیاسی بد دیانتی کے باعث سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ ہمارا مقدر بنا۔ اس گہرے زخم کے بعد بھی ہم نہ سنبھلے، بھٹو کو سر دار چڑھا کر مارشل لاء لگانے کی ذمے داری کیا ہماری سیاسی جماعتوں پر عائد نہیں ہوتی جو نہ اس سے پہلے اور نہ بعد میں کبھی اس طرح متحد ہوئیں جیسے بھٹو کو ناکام بناکر منظر نامے سے ہٹانے کے لیے ہوئی تھیں۔ سقوط بنگال کے جو محرکات جو میں پہلے ہی لکھ چکی ہوں کہ حق دار کو اس کا حق نہ دینا، بنگالیوں کو اپنے برابر نہ سمجھنا اور ان کے مسائل اور مطالبات پر سنجیدگی اختیار نہ کرنا وغیرہ وغیرہ پاکستان کو دولخت کرنے کا سبب بنے … مگر اس کے باوجود ہم نے اپنی روش اور رویے میں کوئی تبدیلی نہ کی اور آج بھی بلوچستان اور اردو بولنے والوں کے ساتھ وہی رویہ اپنا رہے ہیں، دیکھئے ہمارا یہ رویہ کیا گل کھلاتا ہے، قبل اس کے کہ ہماری قومیت اور ملکی سالمیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے ہمیں ہوش میں آجانا چاہیے … آج ہم پوری دنیا میں تنہا ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ہم اندرونی طورپر نہ متحد ہیں نہ ہم خیال، نہ ہم رائے… آج جو ملک کی صورتحال ہے وہ یہ عکاسی کررہی ہے کہ ہمارا دشمن سوائے خود ہمارے اور کوئی نہیں اور کوئی ہے تو وہ خود ہمارا پیدا کردہ ہے … لہٰذا اب بھی وقت ہے سنبھل جایے۔

اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔