ہم کہ ٹھہرے کھجلیے اتنا کھجا لینے کے بعد

سعد اللہ جان برق  جمعـء 8 جنوری 2021
barq@email.com

[email protected]

یہی تو الجھن ہے جس کی سلجھن ہماری سمجھ میں نہیں آتی بلکہ الجھن سے زیادہ ’’کھجلن‘‘ کہیے، بزرگوں نے کہا ہے کہ جہاں کھجلی نہیں ہوتی وہاں مت کھجاؤ۔ لیکن طبیعت کا کیاکریں کہ ہم وہاں سب سے پہلے کھجاتے ہیں جہاں کھجلی نہیں ہوتی۔

وہاں بعد میں کھجاتے ہیں جہاں کھجلی ہوتی ہے بلکہ کبھی کبھی ہم یہ سوچ کرخدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں یہ دونوں ہاتھ دیے ہیں ورنہ ہم تو لوٹ پوٹ کر یا دیواروں درختوں سے رگڑ رگڑ کر لہو لہان ہو گئے ہوتے۔ذرا تصور کیجیے! اگرکسی کے ہاتھ نہ ہوں اور انتہائی الرجک ماحول میں رہنا پڑے تو بالکل وہی حالت ہوتی  ہے جیسی پاکستانیوں کی ہے۔ ایک طرف ہزار ہزار ’’کھجلیاں‘‘ اور دوسری طرف ہاتھ ندارد۔

نہ سبحہ سے ولاقہ نہ ساغر سے واسطہ

میں معرض مثال میں دست بریدہ ہوں

خیر پاکستانیوں کو تو ایک طرف کردیجیے، وہ جانیں اور معاونان خصوصی، ہم اپنی بلکہ اپنی کھجلی کی بات کرتے ہیں۔ اب آپ سوچیے ہمیں اس سے کیاکام کہ کس کس حکومت نے کیا کیا کیا۔کس محکمے نے کتنے تیرمارے یا کہاں کہاں کتنے نکمے بھرتی کیے گئے ،کس کو کس کے غم نے مارا ،کس کو کسی کی خوشی نے زندہ درگور کیا۔مہنگائی نے روپے کے ساتھ کیا کیا اور روپے نے عوام کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا۔گل نے صنوبر کے ساتھ کیا کیا اور صنوبر نے گل کا کیا کیا سہا۔

اکنوں کردماغ کہ ہرسد ’’زباعیاں‘‘

بلبل چہ گفت وگل چہ شنیدو صبا چہ کرد

اب باغبان سے یہ کون پوچھے کہ ’’بلبل‘‘  نے کیا کہا؟ پھول نے سنا کیا؟اور صبا نے کہا کیا۔ لیکن کھجلی تو کھجلی ہوتی ہے اور ہم تو وہاں بعد میں کھجاتے ہیں جہاں کھجلی ہوتی ہے، پہلے وہاں کھجاتے ہیں جہاں کھجلی نہیں ہوتی۔اب دیکھیے ایک دانا دانشور نے کہا ہے کہ موجودہ تبدیلی والی وژن بردار ریاست مدینہ نے کنسٹرکشن انڈسٹری میں رعایتیں دے کر یہ جو غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش مواقع پیدا کیے ہیں، اس سے غیرملکی سرمایہ کار جوق درجوق آکر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔

بیکار زمین (موجودہ وقت میں سارے ملک کی ساری زمین اس زمرے میں آچکی ہے)خریدیں گے، تعمیرات کریں گے، لوگوں کو روزگار ملے گا اور وارے نیارے ہوجائیں گے۔اب ہم کوئی دانا دانشور تو ہیں نہیں جو ان ’’رعایتوں‘‘اور’’مواقع‘‘کی تفصیل میں جائیں جو حکومت نے غیرملکی سرمایہ کاروں کو عطا فرمائی ہیں۔

لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ یہ غیرملکی سرمایہ کار جو سرمایہ یہاں لگائیں گے وہ محض ’’ثواب دارین‘‘کے لیے اور پاکستانیوں کو نہال کرنے کے لیے لگائیں گے اور لے جائیں گے کچھ بھی نہیں۔بھرے ہاتھ آئیں گے اور خالی ہاتھ جائیں گے؟کچھ نہ کچھ تو لے کر جائیں گے تو کیاکیا کچھ اور کتنا لے کر جائیں گے۔لیکن مسئلہ چونکہ دانشوری کا ہے۔

اس لیے الجھن میں بھی ہیں اور کھجلی میں بھی جس کی سلجھن ہماری سمجھ میں اس لیے نہیں آتی کہ کیا کبھی ’’بنیے کا بیٹا‘‘ ’’کچھ دیکھے‘‘بغیر گرتا ہے یا کبھی گرا ہے۔ غیرملکی سرمایہ کار ’’اولیاء‘‘ہیں؟حاتم طائی ہیں؟ثواب دارین کے قائل ہیں؟اب اصولی طور پر دیکھیے تو ہمیں ان سب کچھ سے کیا۔اگر وہ دانا دانشور سرکار برسرکار کی تعریف میں اتنی دور دور کی کوڑیاں لاتے ہیں تو ہمیں اس سے کیا؟اگر سرکار عالی وقار اس ریاست مدینہ میں کشش کے مواقع پیدا کررہی ہے تو ہمیں اس سے کیا۔ ملا نصیرالدین کا واقعہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ایک شخص ان کے پاس دوڑا دوڑا آیا۔

ہمیں لگتا ہے کہ وہ شخص یا تو خود کسی اور جنم میں تھا یا اسی زمانے کا کوئی کھجلی دار خدا مار تھا۔اس نے اپنی سانسوں پرقابو پاتے ہوئے کہا، خواجہ فلاں امیر کا ایک ملازم بہت بڑا خوانچہ اٹھائے ہوئے تھا۔اس پر دانا دانشور ملا نصیرالدین نے کہا، فلاں امیر کا کوئی ملازم اگرکوئی بڑا سا خوانچہ لیے ہوئے تھا تو مجھے اس سے کیا؟ اس ہمارے جیسے خدامار نے کہا، خواجہ وہ خوانچہ آپ کے گھر دے گیا ہے۔

اس پرخواجہ نے کہا، اچھا میرے گھر دے گیاہے تو پھر تجھے اس سے کیا؟ اب اگر غیرملکی سرمایہ کار، وژن والی سرکار کے پیدا کردہ ’’مقناطیسی مواقع‘‘کے زور سے کھچ  کھچ کرآتے ہیں، زمینوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو فاتح مفتوح کی بیوی سے کرتا ہے تو ہمیں اس سے کیا۔لوہے اور  سمینٹ کے جنگلوں میں کچھ اور جنگل ابھر کر زمین کا حشرنشر کرتے ہیں یعنی روٹی دینے والی دھرتی کا گینگ ریپ کرتے ہیںاور فردوس ہائے گم گشتہ لاتے ہیں اور پھر خالی ہاتھ صرف ثواب دارین کماکرجاتے ہیں تو اس سے ہمیں کیا؟لیکن پھر وہی بات کہ آخر کھجلی تو کھجلی ہوتی ہے اور ہمیں تو ایسی کھجلی ہے کہ کھجلی والی جگہ بعد میں اور ناکھجلی والی جگہ پہلے کھجاتے ہیں۔

اس لیے ہم اس شخص جیسی حالت میں ہیں جس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں اور سارے جسم میں بے پناہ کھجلی ہو رہی ہو۔ اس بے پناہ کھجلی کی وجہ یہ ہے کہ ہم ’’بنیے کے بیٹوں‘‘کوجانتے ہیں کہ کچھ ’’دیکھ کر‘‘گرتے ہیں اور کچھ دیکھے بغیر کبھی نہیں گرتے اور اب وہ کیا ہے؟جو بقول اس دانا دانشور کے، جسے دیکھ کردنیا بھر کے بنیے اور ان کے بیٹے یہاں آکر گریں گے۔اس کے بارے میں کوئی دانا دانشور ہی بتا سکتا ہے جس نے احمقوں کو دیکھ دیکھ کر دانش سیکھی ہو، ہم جیسے احمق نہیں بتاسکتے جنھوں نے دانا دانشوروں سے حماقت سیکھی ہو۔

ہاں اتنا ہم جانتے ہیں کہ بنیئے بلکہ ’’پرکشش بنیئے‘‘پرکشش مواقع پاکر کیا کرتے ہیں۔ بادشاہ جہانگیر نے بھی ایک فرنگی ڈاکٹر کو نورجہاں کے علاج کے عوض ساحل بنگال پر صرف ایک تجارتی کوٹھی دی تھی۔ بنیوں کے بارے میں ہماری خالہ ’’زردانہ‘‘ سے زیادہ دانش مندانہ اور حقیقت پسندانہ رائے اور کس کی نہیں ہوسکتی۔خالہ زردانہ نے اپنے بیٹے کو ’’چونی‘‘ دے کر بنیئے سے ماچس لانے کو بھیجا تھا۔

شام کے وقت اور بھیڑ کی وجہ سے بنیئے نے ’’چونی‘‘کو روپیہ سمجھا، لڑکے کو ماچس بھی دی اور بارہ آنے بھی۔بچہ خوشی سے ناچتا ہوا گھر پہنچا اور خالہ زردانہ کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا، ماں!یہ دیکھو بنیا چوک گیا، ماچس بھی دی اور یہ بارہ آنے بھی۔خالہ زردانہ نے جھپٹ کرماچس اور بارہ آنے قبضہ میں لیتے ہوئے کہا، وہ بڑا کائیاں ہے۔

اب بھی اس نے ہم سے کچھ کمایا ہی ہوگا۔ اس سے آگے ہم کیا کہیں کہ ہم تو دانادانشور ہیں نہیں جو اس مسئلے کو حل کریں۔البتہ کھجلی کرسکتے ہیں کیونکہ کھجلی ہم وہاں، چھوڑیے۔آپ اپنا گھجائیں اور ہم اپنا کھجاتے ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور ہم کربھی نہیں سکتے

’’ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گربیاں پر‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔