کورونا ویکسین، فتوے اور عالمِ اسلام

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 8 جنوری 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بروز اتوار بعد از نمازِ عصر مَیں حجام کے پاس پہنچا۔ حجام کی دکان خالی تھی، اس لیے جلد باری آگئی۔ اس سے پہلے کہ نوجوان حجام اپنا اُسترا، قینچی اور الیکٹرک ٹرمنگ مشین سنبھالتا، مَیں نے اپنی جیکٹ کی جیب سے سینی ٹائزر نکالا۔

پہلے اپنے ہاتھوں پر سینی ٹائزر محلول اچھی طرح ملا اور پھر حجام کے ہاتھوں اور اوزاروں کو سینی ٹائز کیا۔گورا چٹا حجام اس عمل سے بڑا محظوظ ہُوا ، اگرچہ نئے سماجی ایس او پیز کے مطابق اُس نے بھی فیس ماسک پہن رکھا تھا۔ حجامت کے بعد مَیں گھر آ گیا۔ غسل کیا اور لحاف میں گھس گیا۔

نصف شب کے قریب مجھے چھینکیوں اور گلے کی شدید خراش نے آلیا۔ رات بڑی مشکل گزری۔ طبیعت کی ناسازی پر غور کیا تو اندازہ لگایا کہ شائد ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ صبح ہُوئی تو گلے کی خراش دُور کرنے کے لیے ایک مشہور طبّی دواخانے کا تیار کردہ شربت پیتا رہا ۔ دو دن گزر گئے۔

پوری بوتل ختم ہو گئی لیکن گلے کی خراش ختم ہُوئی نہ چھینکیں ۔ پھر تیسرے روز ہلکا ہلکا بخار بھی ہو گیا۔ گلے کی خراش دُور کرنے کے لیے دوسری شربت کی بوتل منگوائی۔ چمچ چمچ پیتا رہا لیکن کوئی افاقہ نہ ہُوا ۔ گھر والے ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے بضد تھے لیکن مَیںبضد تھا کہ نہیں، ایسے ہی ٹوٹکوں سے طبیعت درست ہو جائے گی۔ لیکن کھانسی ، ہلکا بخار اور گلے کی بڑھتی خراش سے معلوم ہورہا تھا کہ یہ عارضہ اتنا بھی عارضی نہیں ہے۔بخار نہ تو 100سے اوپر جاتا تھا، نہ 98پر ٹکتا تھا۔ ہفتہ یونہی گزر گیا۔

پھر اہلیہ محترمہ کے اصرار اور طبیعت کی مزید خرابی سے ڈر کر ممتاز اور حاذق ڈاکٹر ( محترم فیصل امیر) کے پاس پہنچا۔ احتیاط سے انھوں نے چیک کیا۔ تھوڑی سی تشویش کا اظہار بھی کیا، کچھ ہنگامی ادویات دیں اور تجویز کیا کہ مجھے فوری کورونا ٹیسٹ بھی کروا لینا چاہیے۔ ساتھ انھوں نے بدن میںآکسیجن کی مقدار چیک کرنے کے لیے ’’آکسی میٹر‘‘ بھی دیا اور تاکید کی کہ اس میٹر پر دیکھتے رہئے کہ آکسیجن کی مقدار کم نہ ہونے پائے ۔

پورا ہفتہ خوف اور بے یقینی کی دہشت انگیز کیفیات میں گزر گیا۔ کورونا کا خوف رگ و پے میں سرائت کر گیا تھا۔ عارضے کے تقریباً تیرہویں دن کورونا ٹیسٹ کروایا جس کے لیے ساڑھے چھ ہزار روپے فیس ادا کی۔ کئی دوسرے مہنگے ،کمر شکن ٹیسٹ بھی کروائے۔ مزید ہزاروں روپے لگ گئے۔جب تک میڈیکل رپورٹ نہ آگئی، جان سُولی پر لٹکی رہی۔ دن میں شائد درجنوں بار شہادت کی انگلی پر آکسی میٹر لگاتا تھا۔ مقدار دیکھ کر قدرے اطمینان ہوتا ۔ اِسی دوران ہمارے ایک نہائت قریبی اور بزرگ عزیز کو دیکھتے ہی دیکھتے کورونا وائرس نگل گیا۔

اُن کی رخصتی کی غمناک اور المناک خبر نے دل پر مزید بوجھ ڈالا ۔ میرا ڈپریشن بھی کئی گنا بڑھ گیا۔ اِنہی ایام میں وطنِ عزیز کے تین چار معروف اور نوجوان صحافیوں کی کورونا کارن موت نے مجھے مزید دہشت میں مبتلا کر دیا تھا۔ احتیاط مَیں نے اتنی بڑھا دی تھی کہ اہلِ خانہ سے کہہ دیا تھا کہ مجھے کھانا کمرے کے اند آ کر نہ دیا جائے ۔کمرے کے باہر رکھ دیا جائے، وہیں سے خود اُٹھا لوں گا۔ برتن بھی خود صاف کرتا تھا۔ کسی کو اپنے کمرے کے اندر دہرے فیس ماسک کے بغیر آنے کی اجازت نہیں تھی ۔ گھر والے اس خود اختیار کردہ احتیاطی تدابیر اور خود پر طاری کردہ خوف کا مذاق اُڑاتے تھے۔

دن میں تین چار بار پانی کی گرم بھاپ لینا اپنے لیے فرض قرار دے دیا تھا۔ کورونا ٹیسٹ رپورٹ لینے کے لیے لیبارٹری گیا تو کانپتے ہاتھوں سے رزلٹ دیکھا۔ وہاں Negative لکھا دیکھ کر دل و دماغ اور کندھوں پر پڑا منوں بوجھ اُتر گیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور ڈاکٹرصاحب کے پاس پھر پہنچا۔ رپورٹ دیکھ کر طمانیت سے بولے : آپکے بخار کے اُترنے اور کھانسی کے ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ موسم نے متاثر کیا، ابھی مزید احتیاط کریں،چھاتی کاایک ایکسرے بھی کروا لیں۔ ساتھ ادویات بھی دیں۔ اس دوران اہلیہ محترمہ اور بچوں کا کئی بار فون آ چکا تھا۔ سبھی رپورٹ بارے پوچھ رہے تھے ۔ منفی کا نتیجہ سُن کر مطمئن ہو گئے ۔

یہ میری تازہ ترین آپ بیتی ہے ۔ یہ آجکل کم و بیش ہر گھر، ہر محلے ، ہر شہر اور ہر ملک کی کتھا ہے۔ بعض لوگ مگر پھر بھی مہلک کورونا (کووِڈ19) کے وجود سے انکاری ہیں۔میرے بڑے بھائی صاحب، جو حافظِ قرآن بھی ہیں، نے مجھے بتایا: ’’میرے دفتر میں بہت سے لوگ آتے ہیں اور تقریباً سبھی کہتے ہیں کہ کورونا کا کوئی وجود نہیں، یہ صرف انگریزوں کی سازش ہے‘‘۔ جو بھی مگر خدا نخواستہ اس کی گرفت میں آجاتا ہے، تین چار ہفتے اس کے عذاب میں مبتلا رہنا ضرور ی ہو جاتا ہے۔

چین، امریکا ، برطانیہ ، اسرائیل بھرپور کوششیں کررہے ہیں کہ کورونا کو دُور رکھنے اور اس سے نجات پانے کے لیے اعلیٰ درجے کی ویکسین بنائی جائے۔ کئی مغربی ممالک میں یہ ویکسین تیار بھی ہو چکی ہے۔ نئے منتخب امریکی صدر، جو بائیدن ،نے خود یہ ویکسین لگوائی ہے تاکہ امریکی عوام کا خوف دُور کیا جا سکے ( تین لاکھ سے زائد امریکی شہری کورونا وائرس نے ہڑپ کر لیے ہیں) برطانیہ میں تین ہفتے قبل جب پہلی بار ایک ادھیڑ عمر خاتون کو کامیابی سے یہ ویکسین لگائی گئی تو اس دن کو ’’فتح کا دن ‘‘قرار دیا گیا۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی مفتیِ اعظم، عبدالعزیز الشیخ، نے بھی نئی ویکسین کا ٹیکہ لگوا لیا ہے ۔

متحدہ عرب امارات کی شریعت کونسل نے بھی کہہ دیا ہے کہ ’’شریعت کے مطابق کورونا ویکسین استعمال کی جا سکتی ہے ‘‘۔مگر ساتھ ہی عالمِ اسلام کے کئی ممالک میں کورونا سے محفوظ رکھنے والی ویکسین کے خلاف فتوے دیے جانے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔

یہ بھی بد قسمتی ہے کہ ابھی تک ایک بھی ایسا اسلامی ملک سامنے نہیں آ سکا ہے جہاں کسی سائنسدان نے کورونا کے مہلک وائرس سے نجات کے لیے کوئی دوا یا ویکسین بنانے کا دعویٰ کیا ہو ۔ چین اور اہلِ مغرب کے جن سائنسدانوں نے دن رات ایک کرکے کورونا کے خلاف ویکسین بنا لی ہے، اس ویکسین کے خلاف فتوے دیے جانے لگے ہیں۔

اسی پس منظر میں خبر آئی ہے کہ پچھلے دنوں انڈونیشیا کے نصف درجن مسلمان علما اور نصف درجن وزرا نے چین کا دَورہ کیا، یہ جاننے کے لیے کہ کورونا ویکسین کسی حرام جانور کے کسی جزو سے تو نہیں بنائی جا رہی ؟اب اصل معاملے سے تو اللہ ہی باخبر ہے یا وہ ممالک جو کورونا ویکسین تیار کر رہے ہیں۔ اگر سعودی عرب ، جہاں بلند پایہ علمائے کرام بروئے کار ہیں،بھی یہ ویکسین استعمال کررہا ہے تو شبہے اور شک کی گنجائش کم کم رہ جاتی ہے۔

اس ضمن میں پاکستان کے علمائے کرام کو بھی اس بارے کوئی رائے فوری دینی چاہیے کہ پاکستان بھی یہ ویکسین خریدنے کی بھرپور کوششیں کررہا ہے ۔6جنوری کو وزیر اعظم عمران خان نے بھی ترک میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہہ دیا ہے کہ کورونا ویکسین خریداری کے لیے ہم چین سے رابطے میں ہیں۔ ہمیں بحثیتِ ایک مسلم قوم کووِڈ 19ویکسین بارے اپنا دِلی اطمینان کر لینا چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔