مشاورت کے فوائد و فضائل

مفتی محمد وقاص رفیع  جمعـء 8 جنوری 2021
’’اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور وہ نماز کے پابند ہیں اور ان کا ہر (اہم) کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے۔‘‘ (سورہ شوریٰ) فوٹو: فائل

’’اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور وہ نماز کے پابند ہیں اور ان کا ہر (اہم) کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے۔‘‘ (سورہ شوریٰ) فوٹو: فائل

اپنے کسی اہم معاملے، کام یا کسی حساس مسئلے کے بارے میں اہل عقل و دانش سے مشورہ لینا، اُن کی رائے معلوم کرنا اور اُن سے راہ نمائی حاصل کرنا انسانی تاریخ کی بہت قدیم روایت ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے بھی اس پر عمل چلا آتا رہا تھا اور اسلام کی آمد کے بعد بھی اس پر عمل درآمد تاامروز جاری ہے۔

قرآنِ مجید میں بھی اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کو حضرات صحابۂ کرامؓ سے مشورہ لینے کا حکم فرمایا ہے۔ سورہ آلعمران میں ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم: ’’آپ ﷺ ان سے اہم کاموں میں مشاورت کیجیے۔‘‘ سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے سورہ شوریٰ میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور وہ نماز کے پابند ہیں اور ان کا ہر (اہم) کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے۔‘‘

احادیث نبوی ﷺ میں بھی جا بہ جا مشورے کی اہمیت و افادیت ذکر کی گئی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ’’میں نے کبھی رسول اﷲ ﷺ کے مقابلے میں کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے اصحابؓ سے کثرت سے مشورہ کرتا ہو۔‘‘ (مسند احمد)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ’’میں نے کسی آدمی کو رسول اﷲ ﷺ کے مقابلے میں لوگوں سے زیادہ مشورہ کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘ (شرح السنۃ)

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اﷲ ﷺ نے غزوۂ بدر کے دن لوگوں سے مشورہ فرمایا۔‘‘ (مسند احمد)

حضرت عبداﷲ بن عمرو ؓ سے روایت ہے: ’’حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کی طرف یہ لکھ کر بھیجا کہ رسول اﷲ ﷺ جنگ کے معاملے میں مشاورت فرماتے تھے، تو آپؓ پر بھی ایسا کرنا ضروری ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تمہارے بڑے اور حکم ران تم میں بہترین لوگوں میں سے ہوں اور تمہارے مال دار تم میں سب سے زیادہ سخی ہوں اور تمہارے معاملات تمہارے درمیان مشورے سے طے ہوں تو زمین کی پشت ( یعنی زندگی) تمہارے لیے اُس کے پیٹ (یعنی موت) سے بہتر ہے۔ اور جب تمہارے بڑے اور حکم ران تم میں سے بدترین لوگوں میں سے ہوں اور تمہارے مال دار تم میں سب سے زیادہ بخیل (کنجوس) ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کا پیٹ (یعنی موت) تمہارے لیے اُس کی پشت (یعنی زندگی) سے بہتر ہے۔‘‘ (ترمذی، بزار)

حضرت سمرۃ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:

پہلا آدمی وہ پاک دامن عقل مند مسلمان ہے جو اپنے معاملات میں مشورہ کرتا ہے، جب اُس کے سامنے کوئی معاملہ آتا ہے اور اُس کو اشتباہ ہوتا ہے، پھر جب اُس معاملے کے ہونے کا مرحلہ آتا ہے تو وہ (مشورہ کے بعد قائم ہونے والی) اپنی رائے کے ذریعے سے اُس معاملے سے (سرخ رُو ہوکر) نکل جاتا ہے۔

دوسرا آدمی وہ ہے جو کہ پاک دامن مسلمان ہے، لیکن وہ ذی رائے (عقل مند و سمجھ دار) نہیں ہے، لیکن جب کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو وہ ذی رائے اور اہل مشورہ لوگوں کے پاس جاتا ہے، پھر اُن سے مشورہ کرتا ہے اور اُن سے رائے لیتا ہے، پھر رائے دینے والوں کے مشورے کے مطابق اُس کام کو اختیار کرتا ہے۔

اور تیسرا آدمی وہ ہے جو کہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، نہ تو کسی خیر خواہ سے مشورہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی خیر خواہ کا کہنا مانتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

اسی طرح حضرت حرملہ بن عمران تجیبی ؒ اپنے بعض مشائخ سے نقل کرتے ہیں: ’’حضرت عمرو بن العاصؓ نے ارشاد فرمایا: ’’ لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو پورا آدمی ہے، اور دوسرا آدھا آدمی ہے اور تیسرا کچھ بھی نہیں ہے۔ پس پورا آدمی تو وہ ہے، جس کو اﷲ تعالیٰ نے مکمل دین اور مکمل عقل عطا فرمائی ہو، پھر جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اُس کو اہل رائے اور اہل عقل سے مشورہ کیے بغیر نہیں کرتا، پھر اگر مشورہ دینے والے اہل عقل کی رائے اُس کے موافق ہوتی ہے تو وہ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور اُس رائے پر عمل کرلیتا ہے، ایسا آدمی ہمیشہ درُستی اور ( اسباب کی) آسانی کو حاصل کرلیتا ہے۔

اور آدھا آدمی وہ ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے مکمل دین اور مکمل عقل عطا فرمائی ہو، لیکن جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اُس (کام کے متعلق) کسی سے مشورہ نہیں کرتا، اور (یہ) کہتا ہے کہ ایسا کون آدمی ہے جس کی میں اطاعت کروں اور اپنی رائے کو اُس کی رائے کے سامنے چھوڑ دوں؟ تو یہ آدمی کبھی درُستی کو پاتا ہے اور کبھی خطا کو۔ اور تیسرا آدمی جو کچھ بھی نہیں ہے، وہ ہے کہ جس کے پاس دین بھی کامل نہیں اور عقل بھی کامل نہیں اور وہ درپیش معاملے میں کسی سے مشورہ بھی نہیں کرتا تو ایسا آدمی ہمیشہ خطا اور غلطی ہی میں مبتلا رہتا ہے۔

حضرت عمرو بن العاصؓ نے اپنا عمل یہ بتایا کہ میں جب کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو اُس وقت تک وہ کام نہیں کرتا جب تک کہ اپنے بعض خادموں سے مشورہ نہیں کرلیتا اور اُن سے رائے نہیں لے لیتا۔ اور میں اپنی رائے کو لوگوں کی عقلوں پر پیش کرنے اور اُن کی رائے سن لینے میں اپنی کوئی حقارت محسوس نہیں کرتا۔‘‘

(الجامع فی الحدیث)

حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ ! اگر ہمارے درمیان کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے کہ جس کے بارے میں شریعت کا کوئی مثبت و منفی پہلو ہمارے سامنے نہ ہو تو آپؐ ہمیں ایسے موقع پر کیا حکم ارشاد فرماتے ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تم فقہاء اور عابدین سے اس سلسلے میں مشورہ کرلیا کرو! اور تنہا اپنی رائے سے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہ کیا کرو۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی)

بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ جس شخص میں یہ پانچ خصلتیں اور عادتیں ہوں اُس سے مشورہ کرنا چاہیے۔

ایک یہ کہ مشورہ دینے والا کامل عقل مند اور متعلقہ معاملے میں تجربہ رکھتا ہو۔

دوسرے یہ کہ مشورہ دینے والا شخص متقی اور پرہیز گار ہو۔

تیسرے یہ کہ مشورہ دینے والا مشورہ لینے والے کا ہم درد اور خیر خواہ ہو۔

چوتھے یہ کہ مشورہ دیتے وقت مشورہ دینے والا رنج و غم اور ذہنی اُلجھن کا شکار نہ ہو اس لیے کہ ایسی صورت میں اُس کی رائے میں درُستی اور سلامتی باقی نہیں رہتی۔

پانچویں یہ کہ کوئی ایسا معاملہ نہ ہو کہ جس میں مشورہ دینے والے کی اپنی ذاتی غرض اور نفسانی خواہش شامل ہو۔ (المدخل لابن الحاج)

ال غرض اپنے تمام معاملات اور اپنے تمام امور میں اہل عقل و ذی رائے اور اﷲ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ لوگوں سے مشورہ لینا اور اُن کی رائے معلوم کرنا ناصرف یہ کہ ایک انتہائی مفید اور نیک عمل ہے، بل کہ یہ سنّت رسول ﷺ بھی ہے جس کے صحیح اور ٹھیک طرح سے ادا کرنے کے بعد انسان کو کسی قسم کی خجالت و شرمندگی اور حسرت و پشیمانی نہیں اٹھانا پڑتی۔

اﷲ تعالی ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور ہم بھی اپنے کسی بھی کام کے لیے مشاورت کو اختیار کریں اور اہل علم و دانش سے فیض حاصل کرسکیں۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔