کامیابی کا راستہ

مدیحہ مدثر  جمعـء 8 جنوری 2021
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو، جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔۔ فوٹو؛فائل

’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو، جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔۔ فوٹو؛فائل

کیا آپ نے کبھی اس پر غور و فکر کیا ہے، کبھی نظام کائنات پر نظر ڈالی ہے کہ اتنا بڑا انتظام کائنات کون چلا رہا ہے اور یہ کیسے اتنے منظّم انداز سے چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ؟

الحمدﷲ! ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ اﷲ تعالی ہی اس پورے نظام کائنات کو چلارہا ہے۔ لیکن صرف یہ سوچ لینے سے ہی کام مکمل نہیں ہوجاتا۔ اﷲ تعالی نے ہمارے لیے پوری کائنات سجا دی ہے اور افسوس ہمارے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ اس کائنات کو دیکھیں اور اس کے بارے میں سوچیں اور غور و فکر کریں۔ جب ہم سوچیں گے تبھی تو ہم اﷲ تعالی کی تمام نعمتوں کے شُکر گزار بنیں گے اور ساتھ ہی جان پائیں گے کہ اﷲ تعالی نے زندگی گزارنے کے لیے ہمیں کیا احکامات دیے ہیں اور نبی کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ کیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انھوں نے عرض کیا: کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خوں ریزی کرے گا ؟ آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ فرمایا: میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرۃ)

اب سوچنے اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ وہ کیا خاص مقصد تھا کہ اتنی بڑی کائنات سجا دی گئی اور انسانوں کو پیدا کیا گیا۔ ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘

حالاں کہ اﷲ کی عبادت کرنے والوں کی تو کمی نہیں۔ انسانوں سے زیادہ عبادت گزار فرشتے موجود تھے۔ انسان نہ ان کی جیسی عبادت کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی طرح فرماں برداری سے بڑھ کی فرماں برداری کرسکتے ہیں۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پھر کیوں انسان کو پیدا کیا گیا ۔۔۔۔ ؟

آئیے! اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں بھیجا اور ساتھ ہی راہ نمائی کے لیے پیغمبرؑ بھی بھیجے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہا اور ایک کے بعد دوسرے پیغمبرؑ مبعوث ہوئے بالآخر یہ سلسلہ نبی مکرم جناب محمد رسول اﷲ ﷺ تک جاری رہا اور پھر آپ ﷺ کو پیغمبر آخرالزماں کا پروانہ دے کر یہ سلسلہ مکمل طور پر بند کردیا گیا۔ پھر ساتھ ہی ارشاد فرما دیا، مفہوم: ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو، جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انھی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔‘‘ (العمران)

اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا کام پیغمبروںؑ کا ہے۔ اب چوں کہ کوئی پیغمبر نہیں آئیں گے تو لہٰذا اب ہر دور کا مسلم ہی اس کام کو کرے گا۔ یعنی صرف عبادت مقصد نہیں ہمیں تو ایک خاص کام دے کر دنیا میں بھیجا گیا اور خلیفہ بنایا گیا اور وہ کام اقامت دین ہے۔ یعنی اﷲ کی زمین پر اﷲ کا نظام قائم کرنا۔ دین کی دعوت پوری دنیا میں پھیلانا ہمارا کام ہے۔ حق کو باطل سے الگ کرنا اور سچ کو جھوٹ سے پاک کرنا ہمارا کام تھا اور ہے۔

اب یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم اپنی ذمے داری پوری کر رہے ہیں؟

سچائی یہ ہے کہ پوری کرنا تو دُور کی بات ہمیں تو اپنی ذمے داری کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے۔ ہم نے اپنی پسند کے کام کو دین سمجھ لیا ہے بس۔ ہم دین کو اپنے حساب سے لے کر چلنا چاہتے ہیں اور بہ جائے یہ کہ ہم دین اسلام کے اصولوں پر چلیں ہم نے اپنی مرضی کو دین کا نام دے دیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آخرت میں نجات اسی صورت ملے گی، جب تک مکمل دین اسلام ہمارے دلوں میں نہیں اترے گا تب تک ہم سچے مومن نہیں بن سکتے۔

فرمان ربانی کا مفہوم: ’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (البقرۃ)

اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ فرمانِ الٰہی کو ماننے والے مومن بندوں کی فہرست میں شمار ہونا ہے یا نہیں۔ سوچیں غور و فکر کریں۔ بہتری اس میں ہے کہ ہم اﷲ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے راستے کو اپنالیں تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کام یاب ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔