مصباح کو باہر نکالو

سلیم خالق  جمعـء 8 جنوری 2021
مصباح کاکوچنگ اسٹائل بیشتر افراد کو پسند نہیں،اس وقت وہ آسان ہدف بھی ہیں۔ فوٹو: فائل

مصباح کاکوچنگ اسٹائل بیشتر افراد کو پسند نہیں،اس وقت وہ آسان ہدف بھی ہیں۔ فوٹو: فائل

’’مصباح کو باہر نکالو،وہ خراب کوچ ہے، اس نے ٹیم کا بیڑا غرق کر دیا‘‘ وغیرہ وغیرہ

جب کوئی ٹیم ہارے تو سب سے پہلے ایک قربانی کے بکرے کی تلاش شروع ہوتی ہے،ارباب اختیار اس پر سارا ملبہ گرا کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں، عوام کا غصہ بھی کچھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ چلو بورڈ نے کوئی ایکشن تو لیا، البتہ کیا صرف ایک شخص ہی پوری سیریز میں ناکامی کا ذمہ دار ہوتا ہے؟ وہ جس نے میچ میں گیند نہ ہی بیٹ سنبھالا تو کیا اس کو ہی ولن بنا کر پیش کر دینا درست ہے؟

مصباح کاکوچنگ اسٹائل بیشتر افراد کو پسند نہیں،اس وقت وہ آسان ہدف بھی ہیں،آپ کہیں کہ وہ اسکول ٹیم کی کوچنگ بھی نہیں کر سکتے، ان کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے، ہرطرف آپ کی واہ واہ ہو گی، مگر کیا ایسا کرنا ٹھیک ہوگا؟ اس ٹیم کے ساتھ آپ دنیا کے نمبر ون کوچ کو بھی نیوزی لینڈ بھیج دیتے شاید ہی مثبت نتائج سامنے آتے لیکن چونکہ بطور چیف سلیکٹر اپنے اس آخری اسکواڈ کا انتخاب مصباح نے ہی کیا تھا لہذا انھیں بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، جس دن ٹیم ہاری اور میڈیا و سوشل میڈیا پر شور اٹھا اچانک مصباح الحق کو فارغ کرنے کی خبریں سامنے آ گئیں۔

جیسا کہ ایک سابق کرکٹر کہہ چکے کہ پی سی بی خود کوئی شوشہ چھوڑ کر عوامی ردعمل چیک کرتا ہے شاید اس بار بھی یہی ہوا، جب سے مصباح الحق نے وزیراعظم عمران خان کے سامنے بے روزگار ڈومیسٹک کرکٹرز کا مقدمہ پیش کیا وہ زیرعتاب آئے ہوئے ہیں، پہلے چیف سلیکٹر کا عہدہ چھنا اور تنخواہ سے کئی لاکھ روپے کم ہوئے اب مکمل طور پر فارغ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ نیوزی لینڈ میں ٹیم کی کارکردگی انتہائی غیرمعیاری رہی مگر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے یونس خان اس ٹیم کے بیٹنگ کوچ تھے جس کا کوئی بیٹسمین آخری اننگز میں ففٹی بھی نہ بنا سکا،پوری سیریز میں ٹاپ آرڈر بیٹسمین جدوجہد کرتے دکھائی دیے، جب کسی نے بڑی اننگز کھیلی تو یونس کو کریڈٹ دیا گیا وہ بھی ٹی وی اسکرین پر مسکراتے ہوئے دکھائی دیے، خراب پرفارمنس کی ذمہ داری میں بھی تو ان کا حصہ ہونا چاہیے، اسی طرح ماضی کے عظیم فاسٹ بولر وقار یونس بولنگ کوچ تھے مگر بولرز کوئی تاثر نہیں چھوڑ سکے۔

ان سے بھی تو جواب طلبی کریں، پاکستان کی شکست میں بڑا کردار ناقص فیلڈنگ کا رہا، صرف دوسرے ٹیسٹ میں ہی8کیچز چھوڑے گئے، اس کے بعد فتح کا سوچنا دیوانے کا خواب ہی ہوتا،2018میں اسٹیو رکسن کے جانے سے پاکستانی ٹیم کو اس شعبے میں مسائل کا ہی سامنا ہے، ملکی فیلڈنگ کوچ عبدالمجید ناکام ثابت ہوئے ہیں بورڈ کو اب پھر کسی غیرملکی کا ہی تقرر کرنا پڑے گا مگر حکام کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ صرف 6 ڈومیسٹک ٹیموں کیلیے بھی کسی فیلڈنگ کوچ کو نہیں رکھا۔

جہاں آفیشلز لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں لے لیتے ہیں وہیں 6،7 لاکھ روپے ان کوچز کو دینے میں کیا قباحت ہے،آپ کو فیلڈنگ کلچر بنانا ہوگا، پلیئرز کو ڈومیسٹک میچز میں ڈائیو لگانا سکھائیں، سلپ کیچنگ کے اسپیشلسٹ تیار کریں، یہ نہیں کہ جسے فیلڈنگ میں چھپانا ہو اسے سلپ میں کھڑا کر دیں، اب غیرملکی کوچ کو لانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو پہلے جب مکی آرتھر تھے تو انھیں کس کے کہنے پر اورکیوں تبدیل کیا؟

اگریہ فیصلہ ضروری تھا تو اسی وقت کسی اور غیرملکی کو لے آتے، آرتھر کوہٹانے کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی میں مصباح الحق بھی شامل تھے، اب وقت نے پلٹا کھایا اورخود مصباح کی پوزیشن خطرے میں پڑ گئی ہے، اس وقت پاکستان کرکٹ کے تمام بڑے فیصلوں میں وسیم اکرم کا بڑا اہم کردار ہے۔

وہ وزیر اعظم عمران خان کے خاص الخاص ہیں لہذا بورڈ کو بھی بات ماننا پڑتی ہے، مگر مصباح کے معاملے میں پہلا سوال ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے جو انھیں لے کر آئے، سی ای او وسیم خان ان کی تقرری کے وقت بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے مگر پھر خود ہی پہلے نیا بیٹنگ کوچ اور پھر چیف سلیکٹر بھی لے آئے، مصباح نہ ہی یونس کو کوچنگ کا کوئی خاص تجربہ تھا،مگر آپ نے خود ہی پاکستان ٹیم کو تجربہ گاہ بنا دیا، سنا ہے ’’بھائی‘‘ مصباح سے خوش نہیں ہیں۔

ہیڈ کوچ کو تو ہدایات بھی بڑی ملتی تھیں، ذرا ان سے پوچھا جائے کہ کون ان سے کہتا تھا کہ فلاں پلیئر کو رکھو اور فلاں کو نکالو، کس نے انگلینڈ میں پہلا ٹیسٹ ہارنے کے بعد اظہر علی کو کپتانی سے ہٹانے کا کہا، جس پر مصباح کو جواب دینا پڑا کہ بورڈ کو فیصلہ کرنا ہے تو خود کرے، وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد کس نے کہا کہ اظہر جیسے کھلاڑی کو قیادت کے منصب پر رہنے کا کوئی حق نہیں، جب مصباح جیسا سابق کپتان پریشر نہیں جھیل سکا تو اوسط درجے کے محمد وسیم کیسے جھیل پائیں گے۔

یہ سب بیچارے کٹھ پتلیاں ہیں، ان کی ڈوریں پردے کے پیچھے بیٹھے کچھ لوگ ہلا رہے ہیں، ان کی ’’ریورس سوئنگ‘‘ کسی کو سمجھ نہیں آتی، مگر وہ جانتے ہیں کہ سامنے آ کر کام کیے اور فیصلے مس فائر ہوئے تو ناقدین کی توپوں کا رخ ان کی جانب ہو جائے گا اس لیے پیچھے رہ کرفیصلے کروا رہے ہیں، خیر ابھی جو حالات چل رہے ہیں ان میں آپ کسی کو بھی کوچ بنا دیں بڑی ٹیموں کیخلاف دیارغیر میں جیتنا ممکن نہیں ہوگا، اس کیلیے کھلاڑیوں کی بہترین انداز میں ٹریننگ اورشفاف سلیکشن ضروری ہے، ورنہ تو ابھی جیسا چل رہا ہے کہ عمران بھائی کو یہ پسند نہیں لہذا ایسا کردیں، عمران بھائی کو لگتا ہے کہ ایسا کرنا چاہیے، یہی باتیں کر کے لوگ اپنے الو سیدھے کرتے رہیں گے، مگر یہ سلسلہ بھی زیادہ عرصے نہیں چل سکتا لہٰذا ایسے لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔