یہ جانور بہ یک وقت پرندہ، دودھ پلانے اور ’رینگنے‘ والا ہے!

ویب ڈیسک  اتوار 10 جنوری 2021
پلیٹی پس کی چونچ بطخ جیسی، جسم چھچھوندر جیسا، اور کان اندر ہوتے ہیں جبکہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پلیٹی پس کی چونچ بطخ جیسی، جسم چھچھوندر جیسا، اور کان اندر ہوتے ہیں جبکہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پرتھ: سائنسدانوں کی ایک عالمی ٹیم نے آسٹریلیا میں پائے جانے والے ’’پلیٹی پس‘‘ کے جینوم کی نقشہ کشی (میپنگ) مکمل کرلی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ پلیٹی پس کے جینوم میں پرندوں، ممالیوں (دودھ پلانے والے جانوروں) اور ہوّاموں (رینگنے والے جانوروں) کے جین ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ پلیٹی پس (platypus) بہ یک وقت تھوڑا سا پرندہ، تھوڑا سا ممالیہ اور تھوڑا سا ہوّام ہے! گویا یہ ایک ایسی دریافت ہے جس نے خود ارتقائی ماہرین تک کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔

واضح رہے کہ پلیٹی پس کو دنیا بھر میں ایک ارتقائی معما سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی چونچ بطخ جیسی، جسم چھچھوندر جیسا، اور کان اندر ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں، یہ انڈے دیتا ہے اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتا ہے جو اس کی کھال سے پسینے کی طرح خارج ہوتا ہے۔

پلیٹی پس کے بارے میں یہ حیران کن بات پہلے ہی معلوم ہوچکی ہے کہ اس میں 10 جنسی کروموسوم (نر یا مادہ کا تعین کرنے والے کروموسوم) ہوتے ہیں جو ’ایکس‘ (X) اور وائی (Y) کروموسوم کے پانچ جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔

اس جیسا صرف ایک جانور اور ہے جو ’’ایچڈنا‘‘ (echidna) کہلاتا ہے اور جس کی صرف 4 انواع پائی جاتی ہیں؛ ان کے مقابلے میں پلیٹی پس کی صرف ایک ہی نوع موجود ہے۔

ایچڈنا اور پلیٹی پس پر مشتمل یہ گروہ سب سے منفرد ہے جس سے تعلق رکھنے والے جانور صرف آسٹریلیا اور قریبی پاپوا نیو گنی میں ہی ملتے ہیں۔ اس گروپ کا نام ’’مونوٹریم‘‘ (monotreme) ہے۔

محتاط اندازے کے مطابق، مونوٹریمز (پلیٹی پس اور ایچڈنا) کا مشترکہ جدِامجد آج سے 5 کروڑ 70 لاکھ سال پہلے اسی علاقے میں رہا کرتا تھا جو آج آسٹریلیا کا حصہ ہے۔

اگرچہ پلیٹی پس جینوم (جین کے مجموعے) میں پرندوں، ممالیوں اور ہوّاموں میں پائے جانے والے جین کی موجودگی فی الحال کسی ارتقائی معمے سے کم نہیں لیکن جینیات (جنیٹکس) اور ارتقاء (ایوولیوشن) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ گتھی سلجھا کر اس دنیا میں موجود بہت سے جانوروں کا ارتقائی عمل بہتر طور پر سمجھا جاسکے گا۔

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔