حضرت مولاناؒ کے دربار میں

ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی  اتوار 10 جنوری 2021
مولانا رومؒؒ کی یادیں سجائے عجائب گھر اور رقص درویش کا روح پرور احوال

مولانا رومؒؒ کی یادیں سجائے عجائب گھر اور رقص درویش کا روح پرور احوال

پاکستان اور سعودی عرب کے بعد ہمیں اسلامی دنیا میں جو ملک سب سے زیادہ پسند ہے، وہ ترکی ہے۔ اول تو اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اس لیے سیاح یہاں دو ثقافتوں کے حسین امتزاج سے لطف اندوز ہوتے ہیں اوردوم، جتنے (دل کی آنکھوں سے دیکھنے والے) اہم مقامات اس ملک میں ہیں شاید ہی کہیں اور ہوں مثلاً توپ کاپی کا عجائب گھر (جہاں اسلامی نوادرات کا خزانہ ہے)، محمد فاتح کا محل، نیلی مسجد، آیا صوفیہ، سیاسی گرمیوں کا مرکز ’’تقسیم اسکوائر‘‘ (جسے استنبول کا ’’ڈی چوک‘‘ کہا جاسکتا ہے)، پرنسس آئی لینڈ (شہزادی کا جزیرہ)، کمال اتاترک کا مقبرہ (انقرہ)، وغیرہ، لیکن کوئی ہم سے پوچھے تو ہم کہیں گے کہ ترکی کو حقیقی افتخاروامتیاز دو متبرک درگاہوں کے باعث حاصل ہوا۔

ایک استنبول میں واقع میزبانِ رسولﷺ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا روضہ اور دوسرا قونیہ میں واقع مولانا جلال الدین رومی ؒ کا مزارِ مبارک۔ واضح رہے کہ اہلِ ترکی حضرت ابوایوب انصاری ؓ کو احتراماً ’’ایُوپ سلطان‘‘ کہتے ہیں (ترکی زبان میں ’ب‘ نہیں ہے اس لیے اس کا تلفظ ’پ‘ سے ادا ہوتا ہے۔)

ہمیں ترکی کی سیاحت کا شوق عرصۂ دراز سے تھا۔ ہم متعدد ممالک میں گئے ہیں لیکن بوجوہ ترکی کا پروگرام نہ بن سکا۔ بہرحال، بفضلِ خدا چند سال قبل ہماری یہ خواہش پوری ہوئی اور ہم نے اپنی بیگم کے ہمراہ اس برادر اسلامی ملک کا دورہ کیا۔ آج مولانا جلال الدین رومی ؒاور ان کے مقبرے کے بارے میں اپنے تاثرات رقم کررہے ہیں۔

عالمِ اسلام کے یہ عظیم صوفی شاعر بلخ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بہاء الدینؒ اپنے دور کے نام ور عالم تھے۔ کسی بات پر ان کی بادشاہِ وقت محمد خوارزم شاہ سے اَن بَن ہوگئی، اس لیے انھوں نے وطن کو خیرباد کہا اور اپنے نوعمر بیٹے جلال الدین کو ساتھ لے کر ایشیائے کوچک (ترکی) کے شہر قونیہ ہجرت کرگئے۔

وہاں اُن کی بہت قدرومنزلت ہوئی اور وہ قاضیِ شہر کے عہدے پر فائز کیے گئے۔ (قونیہ اُس وقت سلطنتِ سلجوق کے تحت روم کا حصہ تھا اور اسی مناسبت سے جلال الدینؒ کو ’’مولانارومیؒ‘‘ کہا جاتا ہے۔) اس شہر کی تاریخ چھ سے سات ہزار سال قبلِ مسیح تک پھیلی ہوئی ہے لیکن اس کو اصل شہرت مولانا جلال الدین رومی ؒ (1182ء؁ تا1273ء؁) کے حوالے سے ملی جو 1231ء؁ میں اپنے والد کے انتقال کے بعد یہاں مستقلاً آباد ہوگئے تھے۔ مولانا نے مکتب کی تعلیم اپنے وقت کے مشہور عالم اور ولیِ کا مل حضرت برہان الدین ترمذیؒ کی شاگردی میں مکمل کی۔ پھر والد کی جگہ قاضی کے منصب کی سند مولانا کو پیش کی گئی جس کو انھوں نے قبول کرلیا۔ سلجوق سلطنت میں آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔

مولانارومی ؒ کی سوانح پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کی زندگی میں انقلاب 1244ء؁ میں آیا جب ان کی ملاقات شمس تبریزیؒ نام کے ایک درویش سے ہوئی۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ ملتان کے اُن بزرگ سے مختلف ہستی ہیں جنھیں کچھ لوگ غلط فہمی کی بنا پر ’’شمس تبریزی‘‘ سمجھتے ہیں، حالاںکہ ان کا نام شمس سبزواری ہے۔

اُن کا تعلق بھی تیرہویں صدی عیسوی سے تھا۔ بعض کتابوں میں انھیں شمس تپریزی لکھا گیا ہے۔ ایک غیرمصدقہ روایت کے مطابق ’’تَپ ریزی‘‘ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی کرامت سے سورج کو سوا نیزے نیچے اتارکر گوشت بھُون لیا تھا۔

سورج ابھی تک وہیں ہے اور اسی لیے ملتان میں کئی دوسرے علاقوں سے زیادہ گرمی پڑتی ہے۔ خیر، یہ بات ضمناً نوکِ قلم پر آگئی تھی۔ حضرت شمس تبریزی ؒنے مولاناؒ پر روحانیت کا ایسا گہرا اور پکّارنگ چڑھایا کہ دوسرے تمام رنگ ہمیشہ کے لیے پھیکے پڑگئے۔ اپنے پِیر سے مولانارومیؒ کی عقیدت والہانہ عشق تک پہنچ گئی۔ وہ ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتے۔ حلقۂ احباب، شاگردوں اور ارادت مندوں سے قطع تعلق کرلیا جس سے ان میں برہمی پھیلی۔ اس طرح قونیہ میں شمس تبریزیؒ کے مخالفین پیدا ہوگئے جن کی سازشوں سے تنگ آکر وہ شہر چھوڑگئے۔

مولانا ؒنے ان کے فراق میں حزنیہ غزلیں کہیں جن کا مجموعہ ’’دیوانِ شمس تبریزی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ میدانِ شعروادب میں یہ تو اکثر ہوا کہ کسی نے اپنی قلمی کاوش اپنے کسی چاہنے والے سے ’’منسوب‘‘ کردی لیکن ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہوکہ کوئی اپنا پورا دیوان اپنے روحانی پیشوا سے ’’موسوم‘‘ کردے۔ اس دیوان میں بیالیس ہزار اشعار ہیں۔ پاکستان کی ایک معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے ’’یہ خانۂ آب و گِل‘‘ کے عنوان سے اس کے ایک انتخاب کا منظوم ترجمہ کیا جو2006ء؁ میں شائع ہوا۔ یہ پورا کلام ان کے زخموں سے چُورقلب کا ترجمان ہے۔ مولاناؒ کا یہ حال تھا کہ مرشد کی یاد میں ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتے اور شدتِ غم سے گریہ وزاری کرتے تھے۔ بطور نمونہ، اس دیوان کے ایک شعر سے ان کی اضطراری کیفیت کا کسی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے ؎

روشنیٔ روز توی، شادیٔ غم سوز توی

ماہِ شب ِافروز توی، ابرِ شکر بار بیا

ترجمہ:

روشنیٔ روز ہے تُو، شادئی غم سوز ہے تُو

ماہِ شب افروز ہے تُو، ابر گہر بار آجا

شمس تبریزیؒ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ دمشق میں ہیں تو مولانا رومیؒ اُن کی تلاش میں خود دمشق گئے اور ایک ایک سے ان کا پتا پوچھتے پھرے لیکن ناکام لَوٹے۔ بالآخر مولاناؒ کے صاحب زادے سلطان وَلَد دمشق گئے اور بعدازتلاش بسیار منت سماجت کر کے حضرت شمس تبریزی ؒ کو منالائے۔

مولاناؒ کی زندگی میں تو گویا بہار آگئی۔ مگر خوشی کا یہ دور عارضی ثابت ہوا کیوںکہ شمس تبریزیؒ لوگوں کی نظروں میں پھر کھٹکنے لگے تھے۔ حالات سے دل برداشتہ ہوکر وہ1247ء؁ میں ایسے غائب ہوئے کہ پھر کبھی نظر نہ آئے۔ ایک روایت کے مطابق انھیں شہید کرکے ان کی لاش کو کنویں میں پھینک دیا گیا تھا جہاں سے کچھ عرصے بعد ان کے جَسدِخاکی کو نکال کر قونیہ ہی میں تدفین کردی گئی۔ قونیہ جانے والے ان کے مزار کی زیارت بھی ضرور کرتے ہیں۔ یہ مولانا رومیؒ کی زندگی کا نہایت کرب ناک دور تھا۔ اُن کے مزاج میں دیوانگی در آئی تھی۔

طبیعت کو کسی طور چَین نہ تھا۔ بہت زیادہ گوشہ نشیں ہوگئے تھے لیکن رفتہ رفتہ اُن کے ہوش و حواس بحال ہوئے اور وہ اپنے مریدوں کو شرفِ باریابی بخشنے لگے۔ البتہ انھوں نے دوبارہ کوئی سرکاری عہدہ نہیں قبول کیا۔ اس کے بجائے سماع اور روحانیت کے سائے میں پناہ لی۔ مولاناؒ نے اپنے پیرومرشد کی یاد میں صوفیانہ درویشی کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کے پیروکار مولاوی یا (تصوف کی اصطلاح میں ) سماعی کہلائے۔

کچھ عرصے بعد انھوں نے اپنے ایک مقربِ خاص حسام الدین چلپی کی ایما پر اپنی اُس لازوال مثنوی کی تصنیف کا آغاز کیا جو چھ جلدوں پر مشتمل ہے اور 1273ء؁ میں مکمل ہوئی۔ مولانا جلال الدین رومیؒ کے دل میں جو لاوا پک رہا تھا وہ ان کی اس شہرۂ آفاق مثنوی کی صورت میں باہر آتا رہا۔ اس کا بنیادی موضوع مختلف اسالیب کے ساتھ اسرارِشریعت و طریقت کے راستے سے انسان کو معرفتِ الٰہی کی منزل تک پہنچانا ہے۔ قرآنِ حکیم میں کُل114سورتیں ہیں۔ مثنوی میں 113 کا عکس ملتا ہے۔ اسی لیے اسے ’’پہلوی (فارسی) زبان میں قرآنِ پاک‘‘ قراردیتے ہوئے کہا گیا ؎

مثنویٔ مولویٔ معنوی

ہست قرآں درزبانِ پہلوی

مولاناؒ نے مثنوی میں حال و قال کے تمام مسائل تمثیلی انداز میں حکایات اور نصیحت آموز افسانوں کی صورت میں سمجھائے ہیں۔ یہ لازوال کلام 25,618 اشعار پر محیط ہے۔ اِنھیں Pearls of wisdom (دانش کے موتی) کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مثال کے طور پر آج کل Good Governance (اچھا نظامِ حکومت) اہلِ دانش کا ایک پسندیدہ موضوعِ بحث ہے۔ اس ضمن میں مولاناؒؒ کا نقطۂ نظر ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں ؎

شہ چو حوضے داں حشم چوں لولہا

آب ازلولہ رود در گو لہا

اس شعر میں بادشاہ (حاکم) کو بڑے حوض سے، اس کے اخلاق کو پانی سے، اس کے کارندوں کو چھوٹے حوض سے اور ان کے تعلقِ ملازمت اور قربِ حاکم کو نلکے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ چناںچہ حاکم میں عدل یا ظلم، نرمی یا شدت، کرم یا بخل، پرہیزگاری یا عیش پسندی، تدبرملکی یا غفلت زدگی، فضول خرچی یا کفایت شعاری وغیرہ کے جو خصائل ہوں گے وہ ملازمت کے تعلق اور ہمیشہ کی حاضرباشی کی وجہ سے سلطنت کے ملازمین میں بھی پیدا ہوجائیں گے۔ یعنی اچھائی یا برائی اوپر سے شروع ہوتی ہے اور نیچے تک چلی جاتی ہے۔

نمائشی زہد و تقویٰ کا (جس کی بنیاد پر آج کے نام نہاد صوفیہ اور مشائخ سادہ لوح عوام کو گم راہ کررہے ہیں) مولاناؒ نے اکثر اشعار میں بھانڈا پھوڑا ہے۔ مثلاً؎

نقشِ ماہی کے بود درویشِ آب

آں زبے آبی نمیگردو خراب

یعنی مچھلی کی تصویر پانی کی محتاج کب ہوسکتی ہے۔ وہ پانی کے نہ ملنے سے پریشان نہیں ہوتی۔ مراد یہ کہ جو شخص حرص و ہوس کی خاطر درویشانہ بہروپ اختیار کرتا ہے وہ درویشانِ حق کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے دریا کی مچھلیوں کے مقابلے میں مچھلی کی تصویر۔ ظاہر ہے، مچھلی کی تصویر کو دریا سے کوئی نسبت نہیں اور نہ وہ پانی کے بغیر مضطرب ہوتی ہے۔ اسی طرح درویشِ طالبِ نان کو معرفتِ حق سے کوئی علاقہ نہیں اور نہ اس کو بُعدِحق سے کوئی اضطراب ہے۔

علامہ اقبال کو مولانا جلال الدین رومیؒ سے ایک خاص تعلقِ خاطر تھا۔ علامہ، رومیؒ کو اپناپِیر مانتے تھے۔ وہ رومیؒ کے افکار و نظریات کے اس حد تک گرویدہ تھے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں دو درجن مقامات پر ان کا ذکر کیا اور انہیں ’’پیرِ رومی‘‘ اور ’’پیرِ روم‘‘ کہہ کر اپنے روحانی استادکا درجہ دیا۔ ایک شعر میں اقبالؔ کہتے ہیں ؎

صحبت پیرِرومؒ سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش

لاکھ حکیم سربَجَیب، ایک کلیم سربکف

اقبال نے خود کو اُس قافلۂ راہِ سلوک کا ایک فرد گردانا جس کا قافلہ سالار انھوں نے مولانا رومی ؒ کو تسلیم کیا تھا۔ علامہ فرماتے ہیں ؎

تو بھی ہے اُسی قافلۂ شوق میں اقبالؔ

جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومیؔ

مثنوی کے فلسفیانہ افکار اور اس کے نہایت وقیع و ہمہ جہت مضامین سے متاثر (بلکہ مرعوب) ہوکر اقبال نے مولانا کے تبحّرِعلمی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا ؎

ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار

اک بحرِ پُرآشوب و پُراسرار ہے رومی

علامہ اقبال کے مجموعے ’’بالِ جبریل‘‘ میں ایک مکالماتی نظم ’’پیر و مرشد‘‘ بھی شامل ہے جس میں ’’مریدِ ہندی‘‘ (اقبال) سوال کرتے ہیں اور ’’پیرِ رومی‘‘ (مولانا رومیؒ) جواب دیتے ہیں۔ اس نظم میں سے دو سوالات اور ان کے جوابات پیش کیے جاتے ہیں ؎ مریدِ ہندی:

سِرِّآدم سے مجھے آگاہ کر

خاک کے ذرے کو مہروماہ کر!

علامہ اقبال سوال کرتے ہیں،’’یا حضرت! میں تو ایک ذرۂ خاک ہوں۔ براہ کرم مجھے اس امر سے آگاہ کیجیے کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اس حقیقت سے آگاہی مجھے مہروماہ کے ہم پلّہ لانے کی مترادف ہوگی۔‘‘  پیرِرومیؒ:

ظاہرش را بشّۂ آرد بچرخ

باطنش آمد محیطِ ہفت چرخ

مولانا جواب دیتے ہیں،’’بظاہر انسان اس قدرکم زور اور بے حیثیت ہے کہ ایک معمولی سا مچھر بھی اس کی بے بسی کا باعث بن سکتا ہے اور دم بھر کے لیے چَین نہیں لینے دیتا، لیکن خدائے ذوالجلال نے باطنی سطح پر اُس میں ایسی صلاحیتیں پیدا کردی ہیں کہ وہ آسمانوں کی بلندیوں کو بھی چُھوسکتا ہے۔‘‘ مولانا رومیؒ کے اس شعر کے پس منظر میں نمرود کی موت اور پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی معراج کے واقعات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں کہ ایک ذی حشم اور مغرور بادشاہ کی موت معمولی سے مچھر کے باعث واقع ہوئی جب کہ ایک کملی پوش پیغمبرؐ نے ہفت افلاک سے گزر کر معراج کا رتبہ حاصل کیا۔  مریدِ ہندی:

اب مسلماں میں نہیں وہ رنگ و بُو

سرد کیوںکر ہوگیا اس کا لہو؟

سوال’’یہ کیسے ہوا کہ مسلمانوں میں نہ وہ جذبہ باقی رہا نہ پہلی سی شان وشوکت ۔ ان کی قوتِ عمل اور کچھ کر گزرنے کی لگن آخر کیوں ماندپڑگئی؟‘‘  پیرِرومیؒ:

تا دل صاحبد لے نامد بہ درد

ہیچ قومے را خدا رسوانہ کرد!

جواب’’اس کا سبب یہ ہے کہ اب مسلمان، سچائی اور حق پرستی سے محروم ہوچکے ہیں اور اُن اہلِ حق کے لیے دل شکنی اور دکھ کا سبب بن گئے ہیں جنھوں نے ان کی راہ نمائی کی اور اس عمل میں بے شمار مصائب سے دوچار ہوئے جب کہ مسلمان ان کی پیروی سے گریز کررہے ہیں۔‘‘

اب ہم آتے ہیں مزارِ رومیؒ کی طرف۔ ہم انقرہ سے450 کلو میٹر کا سفر بذریعہ کار طے کرکے تقریباً چار گھنٹے میں12بجے کے لگ بھگ قونیہ پہنچے اور ہوٹل میں سامان رکھنے کے فوراً بعد مزار پر آگئے۔ یہ مزار ایک عجائب گھر کا حصہ ہے جسے عوام کے لیے 1926ء؁ میں کھولا گیا تھا۔ یہ 6,500 مربع میٹر پر محیط ہے۔ مزار کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی صحن میں سنگ مرمر کا ایک خوب صورت فوارہ نظر آیا جس کے قریب وضو خانے بنے ہوئے تھے۔

اس فوارے میں سنگِ مرمر کے دہانے سے نکلتا ہوا پانی یوں لگا جیسے شیر کے منہ سے نکل رہا ہو۔ اسی لیے یہ ’’شیر کا فوارہ‘‘ کہلاتا ہے۔ مزار کی چوکھٹ پر ’’یا حضرت مولانا‘‘ کے الفاظ کی تختی لگی ہوئی تھی۔ اس چوکھٹ سے گزر کر ذرا آگے بڑھے تو دونوں طرف حجرے نظر آئے۔ ایک حجرے میں مولاناؒ کے درویش (مومی مجسموں کی صورت میں) حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے اور چائے کا دور چل رہا تھا۔ بائیں جانب کے حجرے میں (مومی) درویش موسیقی کی دھن پر دل کش اور دھیمی آواز میں مولاناؒ کا کلام پڑھ رہے تھے جس کی ریکارڈنگ انتہائی دل گداز تھی۔ اس سے آگے چلے تو ایک حجرے میں اُس دور کے آلاتِ موسیقی (چنگ، نَے، رباب، قدیم طرز کا وائلن، یک تارہ، بربط، ڈھولک، ڈفلی، سارنگی، وغیرہ) رکھے ہوئے تھے۔

اندر آئے تو دیکھا کہ ایک اونچے چبوترے پر تین بڑی بڑی قبریں بنی ہوئی تھیں جن کے اُوپر گنبد تھے۔ ان میں سے ایک مولانا ؒکی، ایک ان کے والد کی اور ایک ان کے بیٹے (سلطان وَلَد) کی ہے۔ مزار کے راستے میں بائیں جانب ایک دیوار پر مولاناؒ کی ایک مثنوی کندہ تھی جس کا مطلب ہے ’’یا تو تم ویسے نظر آؤ جیسے ہو، یا ویسے بن جاؤ جیسے نظر آتے ہو۔‘‘ ظاہر ہے یہ منافقانہ رویے سے بچنے کی تلقین تھی۔ تینوں قبروں پر قالین ڈلے ہوئے تھے جن پر سونے کے تاروں سے آیاتِ قرآنی کڑھی ہوئی تھیں۔

ہال خوشبو سے مہک اور روشنی سے دمک رہا تھا۔ زائرین نہایت ہلکی آوازوں میں قرآن/فاتحہ خوانی کررہے تھے۔ پورے ماحول پر روحانی جلال طاری تھا۔ زائرین کو قبروں کے قریب جانے، اُنھیں ہاتھ لگانے یا اُن پر کوئی چیز ڈالنے کی اجازت نہیں تھی۔ سب مودب انداز میں کھڑے یا بیٹھے ہوئے تھے۔ نہ کوئی اُونچی آواز نکال رہا تھا اور نہ کسی قسم کی بے ڈھب حرکت کررہا تھا۔ وہاں کوئی چندے کی پیٹی، پھولوں کی چادر اور مجاور بھی نہ تھا۔ ہاں، سفید چغوں میں ملبوس چند کارندے نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے ضرور موجود تھے۔ جب ہال زائرین سے بھر جاتا تو وہ ادب و احترام سے کچھ لوگوں کو باہر بھیج دیتے۔ ہمارے یہاں کے مزاروں کی طرح ہڑبونگ اور دھکم پیل ناپَید تھی۔

مزار پر فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم عجائب گھر کی طرف بڑھے۔ یہاں ڈیڑھ ہزار نایاب قلمی نسخے اور تقریباً چار ہزار کتابیں خوب صورت الماریوں میں سجی ہوئی ہیں۔ ان میں مثنوی کاوہ قدیم ترین نسخہ بھی ہے جو 1278ء؁ میں محمد نامی خوش نویس نے لکھا تھا۔ ایک شوکیس میں مولاناؒ کی پگڑی رکھی ہوئی ہے۔

اُسے دیکھ کر ہماری بیگم نے کہا ’’یہ پگڑی استنبول کے توپ کاپی میوزیم کی یاد دلارہی ہے۔ ‘‘ (وہاں ہم نے تبرکات کے گوشے میں حضرت یوسف علیہ السلام کی پگڑی کی زیارت کی تھی۔ باہر تختی پر لکھا تھا ’’عمامۃ النبی یوسف رحمۃ اللہ علیہ۔‘‘ عجائب گھر کے ایک شوکیس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا بھی رکھا تھا) ایک چھوٹی سی ہشت پہلو میز پر دھات کا بہت بڑا اور خوب صورت پیالہ رکھا ہوا تھا جس پر سونے اور چاندی کی تحریر ابھری ہوئی تھی۔ اس پیالے کو مقامی طور پر ’’اپریل کا مقدس پیالہ‘‘ (Sacred Bowl of April) کہا جاتا ہے۔ یہ موصل میں سلطان ابو سعید بہادر خان (1305ء؁ تا 1335ء؁) کے لیے بنا یا گیا تھا اور عجائب گھر کو 1333ء؁ میں بطور عطیہ دیا گیا۔

تُرک رسوم کے مطابق اپریل کے مہینے کی برسات کو متبرک اور شفا رساں سمجھا جاتا تھا۔ چناںچہ جب بارش ہوتی تو اس کا پانی اس پیالے میں جمع کرلیا جاتا۔ پھر اﷲ سے دعا مانگنے کے بعد مولاناؒ کا کلاہ اس میں بھگو کر پانی عقیدت مندوں میں بطور تبرک تقسیم کردیا جاتا۔ عجائب گھر کے سماع خانے کے درمیان میں رکھے ہوئے ایک شوکیس میں ہم نے مولاناؒ اور ان کے والد کے کپڑے دیکھے۔ چند دوسرے شوکیسوں میں قرآن مجید کے نسخے تھے۔ ان میں بڑے سے بڑا 42 67x سینٹی میٹر اور چھوٹے سے چھوٹا1×12سینٹی میٹر کا ہے جس کے الفاظ کو صرف طاقت ور خوردبین کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے۔

عجائب گھر میں مولانا کی تسبیحیں، مصلّے، ٹوپیاں اور دیواری قالین بھی سجے ہوئے ہیں۔ ان میں نو سو ننانوے دانوں کی ایک ایسی تسبیح ہے جس کے دانے اخروٹ کے برابر ہیں اور جو اخروٹ کی لکڑی کے بنے ہوئے ہیں۔ تبرکات میں مقدس ترین شے آنحضرت ﷺ کا مُوئے مبارک ہے جو ایک چھوٹی سی جڑاؤ صندوقچی میں محفوظ ہے۔ ایک گوشے میں عثمانیہ دور کے منقش ظروف رکھے گئے ہیں۔

پھر ہم دونوں، اپنے گائڈ گُندُز فِرات (Gunduz Firat) کے ساتھ، مومی درویشوں کے اُس حجرے میں آئے جہاں وہ گول دائرے میں رقص کے انداز میں کھڑے تھے۔ حقیقی رقص باہر مقبرے کے صحن میں ہوتا ہے جس کے پُرکیف نظاروں کو قلب و نظر میں سمونے کے لیے دنیا بھر کا سیاح قونیہ آتا ہے۔ ہم نے اس رقص کو ٹی وی کے بعض ڈراموں اور فلموں میں دیکھا لیکن اصل دیکھنے کی حسرت تھی۔ یہاں ہم یہ بتادیںکہ ذاتی طور پر ہم ایسی کسی روحانیت کے قائل نہیں جو رقص و موسیقی کے توسط سے حاصل ہو لیکن نہ جانے کیوں ٹی وی پر اس رقص کی نقل پر بھی ہمارا دل جھوم اٹھتا تھا۔ شاید اس لیے کہ:

(1) دورانِ رقص جسم کے مختلف حصوں کو اس طرح حرکت نہیں دی جاتی کہ رقص پر ’’اعضا کی شاعری‘‘ کا اطلاق ہو۔

(2) اس میں صنفِ نازک یا نابالغ لڑکے کا گزر نہیں۔ اس لیے سفلی جذبات کے ابھرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

(3) رقاص اپنے ہاتھوں یا پیروں میں گھنگرو نہیں باندھتے۔

(4) پس منظر کی موسیقی مدھم اور سحرانگیز ہوتی ہے ۔

(5) پڑھے جانے والے کلام میں اسلامی تعلیمات کی جھلکیاں ہوتی ہیں۔

(6) رقص میں اچھل کود اور نازیبا اشاروں سے مطلق گریز کیا جاتا ہے بلکہ اس میں انسانی ہدایت کا ایک ابدی پیغام پوشیدہ ہوتا ہے (جس کا ذکر آگے آئے گا)۔

سہ پہر کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں کھانے سے فارغ ہوکر ہم نے فِرات سے کہا کہ ’’رقصِ درویش‘‘ کے اوقات اور اگر اس کا کوئی ٹکٹ ہے تو اس کے بارے میں معلومات حاصل کرکے ہمیں بتائے۔ ہم ابھی ریسٹورنٹ ہی میں تھے کہ فِرات تھوڑی دیر بعد منہ لٹکائے ہوئے لَوٹا۔ اسے دیکھ کر ہمیں حیرت ہوئی اس لیے کہ پورے دورے میں وہ ہشاش بشاش رہا۔ وہ میجر کے عہدے سے چالیس سال کی عمر میں فوج سے استعفیٰ دے کر ’’سِول لائف‘‘ میں آیا تھا کیوںکہ، بقول اس کے، ترکی کی فوج میں (اُس وقت کے قانون کے مطابق) کوئی ایسا افسر، میجر کے رینک سے آگے ترقی نہیں کرسکتا تھا جو شراب سے پرہیز کرے۔ ہٹاکٹا، وجیہہ و شکیل اور طویل القامت فِرات ترکی کے چپے چپے کے بارے میں علم رکھتا تھا۔ غالباً اس لیے بھی کہ فوجی ملازمت میں وہ مختلف مقامات پر تعینات رہا تھا۔ وہ ہمارا گائڈ بھی تھا اور ڈرائیور بھی۔ اس نے ہماری خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی لیکن اُس وقت وہ دل شکستہ دکھائی دے رہا تھا۔

ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’رقصِ درویش‘‘ صرف ہفتے کی شام کو ہوتا ہے۔ یہ سن کر ہماری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اس لیے کہ ہم منگل کو قونیہ پہنچے تھے اور اگلی صبح (ویزا کے مطابق) ہمیں ہر حال میں قونیہ سے روانہ ہونا تھا۔ ہم پر یہ ’’افتاد‘‘ اپنے ٹریول ایجنٹ کی غلطی کی وجہ سے نازل ہوئی تھی جس نے پروگرام بنانے میں فاش غلطی کی۔ ہم سخت مایوسی اور افسردگی کے عالم میں اپنی بدنصیبی پر پیچ و تاب کھا کر رہ گئے اور اسی وقت استنبول لوٹ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ بے چارہ فِرات جو ناکردہ گنہگار تھا ہم سے بار بار معذرت طلب کررہا تھا۔ تاہم اتنی دل گرفتگی کے دوران اللہ تعالیٰ نے ہماری حسرت کو مسرّت میں بدل دیا اور ایسے اسباب پیدا فرمادیے کہ ہم ایک اختصاص اور اعزاز کے ساتھ ’’رقصِ درویش‘‘ کی دید سے سرفراز ہوئے۔

گائڈ فرات نے شاید ہمارے چہروں پر لکھی ہوئی بے چارگی اور کوفت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگالیا تھا۔ وہ بڑے عزم کے ساتھ کرسی پر سے یہ کہتا ہوا اٹھا کہ:’’Something will have to be done! ‘‘ (کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا)۔ پھر ہمیں ہوٹل میں آرام کرنے کا مشورہ دے کر چلا گیا۔ ہم ہوٹل لوٹے۔ آرام تو کیا کرتے، بس دونوں میاں بیوی انتظار کی اذیت سے گزرتے رہے۔ بالآخر پانچ بجے کمرے کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف فرات تھا۔ اس نے پُرجوش سلام کرنے کے بعد انتہائی جذباتی انداز میں کہا ’’ڈاکٹر قریشی! آج شام آپ گورنر قونیہ کے ساتھ ’’رقصِ درویش‘‘ دیکھ کر اپنی روح کو تازگی بخشیں گے۔‘‘

ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ادھر فرات نے جلد تیار ہو کر لابی میں آنے کی ہدایت کی۔ ہم پندرہ منٹ میں نیچے اُترے تو فرات نے بتایا کہ خوش قسمتی سے چند مغربی ملکوں کے زائرین کے لیے ’’رقصِ درویش‘‘ کا خصوصی اہتمام مزار سے ملحق ایک پارک میں کیا گیا ہے جس میں گورنر قونیہ اور ان کی بیگم بطور مہمانانِ خصوصی شرکت کررہے ہیں۔ اس نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ہم تینوں (بشمول خود) کے لیے ٹکٹ خرید لیے ہیں۔ ایک ٹکٹ 20 ٹرکش لیرا (اس وقت کے ایک ہزار پاکستانی روپے سے کچھ زیادہ) کا تھا۔ ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اس لیے کہ ہمارے دورۂ ترکی کے مقصد کی تکمیل ہونے والی تھی۔

ہم نے وقت مقررہ سے بہت پہلے رقص گاہ میں پہنچ کر اچھی نشستیں حاصل کرلیں۔ تھوڑی دیر بعد سیاحوں کی آمد شروع ہوگئی۔ بمشکل پچاس افراد کا اجتماع تھا جب کہ ہفتہ وار عمومی پروگرام میں سیکڑوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ہم سب لوگ ایک گول ’’اکھاڑے‘‘ کے گِرد نظم و ضبط سے بیٹھ گئے۔ ہمارے بالکل سامنے بہت سارے ساز رکھے ہوئے تھے۔ ان میں کلاسیکل بھی تھے (جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے) اور ایک جدید طرز کا ’’کی بورڈ‘‘ بھی تھا۔ چارچھ سازندوں نے ہر ساز بجا کر چیک کیا اور اطمینان کرلینے کے بعد چلے گئے۔

پھر چند خادم آئے جنہوں نے فرش پر ایک طرف بھیڑ کی نو کھالیں برابر برابر بچھادیں۔ ایک بڑی سی سرخ رنگ کی کھال ذرا الگ ہٹ کے بچھادی۔ اب تمام نظریں درویشوں کی منتظر تھیں۔ اتنے میں گورنر صاحب اپنی اہلیہ اور سکریٹری کے ساتھ تشریف لائے اور ہمارے قریب بیٹھ گئے، کیوںکہ وہاں سب ہی ’’خاص مہمان‘‘ تھے۔ آخرکار وہ لمحہ آن پہنچا جس کا سب کو انتظار تھا۔

اٹھارہ درویش جو سب سیاہ عباؤں میں ملبوس تھے اپنے سبز پوش شیخ کی سربراہی میں نہایت آہستگی اور شائستگی سے چلتے ہوئے ’’رقص گاہ‘‘ میں داخل ہوئے۔ اُن کی قدرے تاخیر سے آمد میں بھی فکر کا ایک پہلو تھا، یہ کہ درویش بڑے سے بڑی ہستی کا بھی انتظار نہیں کرتے، اُلٹا اُسے انتظار کراتے ہیں۔ شیخ بڑی کھال پر دوزانو بیٹھے جب کہ نو درویش اُسی طرح ان کے بائیں جانب سر جھکا کر بیٹھ گئے۔ ان میں سب سے آگے شیخ کے نائب تھے۔ بقیہ نو نے ساز سنبھال لیے۔

پروگرام کا آغا ز جاں فزا تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ بعدازآں سازندوں نے موسیقی کی ہلکی دھن پر مولاناؒ کی ایک منقبت گا کر سماں باندھ دیا۔ پھر شیخ کے پاس بیٹھے ہوئے درویش اپنی نشستوں سے اٹھے۔ انھوں نے اپنی اوپری عبائیں اتار کر کھالوں پر رکھ دیں۔ نیچے وہ سفید بَراق لمبی لمبی گھیر والی قمیصیں اور انگرکھے پہنے ہوئے تھے۔ سر پر سیلٹی رنگ کی اونچی سی ترکی ٹوپی تھی جس کا قطر بلندی پر جا کر چھوٹا ہوجاتا تھا۔ شیخ کے نائب نے عبا نہیں اتاری۔ رقص شروع کرنے سے پہلے درویش دو دو کی ٹولیوں میں شیخ کے دائیں بائیں آکر سر جھکاتے۔ یہ گویا رقص کی اجازت طلب کرنا تھا۔

شیخ اپنی گردن کو ہلکا سا جھٹکا دیتے تو یہ دور ہٹ کر دوسرے دو کے لیے جگہ بنادیتے تھے۔ جب آٹھوں کو اجازت مل گئی تو انھوں نے بیچ میں آکر والہانہ انداز میں آہستہ آہستہ جھومنا شروع کیا۔ سامنے موسیقی کی وجد آور تھاپ پر چند درویش ہم آواز ہوکر نہایت دل کش سُروں میں مولانا کی مثنوی گانے لگے۔ رقص کناں درویشوں کی آنکھیں بند تھیں اور گردنیں ایک مخصوص زاویے سے دائیں جانب جھکی ہوئی تھیں۔ ہر ایک کا سیدھا ہاتھ کھلے پیالے کی صورت میں آسمان کی طرف تھا جب کہ دوسرا ہاتھ الٹے پیالے کی طرح زمین کے رُخ پر تھا۔ یہی اس رقص کا پیغام تھا کہ__جو اللہ سے مانگتا ہے، اُسے کسی اور سے مانگنے کی حاجت نہیں رہتی۔

اب حال یہ تھا کہ جوں جوں موسیقی کی تان اور گانے والوں کی آوازیں بڑھیں، رقص میں تیزی آتی گئی۔ دونوں پارٹیوں میں غصب کی ہم آہنگی تھی۔ رقص کے دوران درویش ایک دوسرے کا راستہ کاٹتے ہوئے اتنے قریب بھی آجاتے کہ اُن کی قمیصوں کے گھیر آپس میں ملتے معلوم ہوتے لیکن مجال ہے کہ (آنکھیں بند ہونے کے باوجود) کوئی درویش کسی سے ٹکرائے۔ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے انھیں کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ یہ حیران کن مہارت سخت ریاضت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ دورانِ رقص، شیخ کے نائب، نرم روی سے اس تمام روحانی مشق کی نگرانی کررہے تھے۔

یہ رقص اُس وقت اپنے نقطۂ عروج پر پہنچا جب خود شیخ قلندرانہ شان کے ساتھ اٹھے اور درویشوں میں شامل ہوگئے۔ جب وہ انتہائی کیف ومستی کے عالم میں محوِرقص ہوئے تو موسیقی تیز ہوگئی۔ ان کے چہرے کی سرخی، ربودگی، وقار، دبدبہ اور جلال بلاشبہ جلال الدین رومیؒ کے معتقدِخاص کے شایانِ شان تھا۔ جذبِ شوق کے باعث ان کی بڑی بڑی آنکھیں لال انگارہ ہوگئیں اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ حلقوں سے باہر نکل پڑیں گی۔ ہم سب کے دل اس پُرشکوہ نظارے پر بَلّیوں اچھل رہے تھے اور لگتا تھا سینے سے باہر آجائیں گے۔ مغربی سیاح، رقص، موسیقی اور شاعری کے فقید المثال امتزاج، توازن اور زیروبم پر دم بخود بیٹھے تھے۔ ہم کہ فرموادتِ رومیؒ کو اپنے رونگٹوں میں سمیٹ رہے تھے، اس وقت اپنے آپ میں نہیں تھے۔

یہ روح پرور رقص آدھے گھنٹے تک جاری رہا۔ پھر موسیقی کے ہلکے ہوتے ہوئے سُروں پر سازندوں نے مولاناؒ کی ایک مناجات چھیڑ دی۔ اگرچہ ہم پر اس وقت مکمل محویت طاری تھی لیکن حواس پر قابو پاکر مناجات کا ایک شعر نوٹ کرنے میں کام یاب ہوگئے جو یوں تھا؎

دست گِیرم درچُنیں بے چارگی

شادگردانم دریں غم خوارگی

یعنی اے خدا! میں شدید بے کسی اور بے بسی کی حالت میں نفسِ امّارہ کے تقاضوں سے پریشان حال ہوں۔ میںآپ سے مدد کا خواست گار ہوں کہ میری دست گیری فرما کر میری غم کشی کو شادمانی میں بدل دیجیے۔ پوری مناجات بلکہ وہاں پڑھا جانے والا پورا کلام ایسے ہی پُر سوزاشعار سے معمور تھا جو دل کے راستے روح کی گہرائیوں میں اتر رہے تھے۔ مناجات کے بعد تقریباً ایک گھنٹے کی یہ محفل، تلاوتِ کلام پاک پر برخاست ہوئی۔

پروگرام کے اختتام پر ہماری بیگم اور ہم نے گورنر صاحب اور ان کی بیگم سے ملاقات کی۔ ہم نے اپنا تعارف کرایا۔ دونوں ہم سے مل کر بہت خوش ہوئے اور ہمارے ساتھ تصویریں بنوائیں۔ گورنر، عالی جناب نزیہہ دوعان (Nezih Dogan) نے بتایا کہ وہ کراچی آچکے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔

جواباً ہم نے بھی ترکی کے لیے اظہارِخلوص و محبت کیا۔ واپس لوٹتے وقت ایک دل چسپ صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ ہم نے گورنر کے سیکریٹری سے بیگم صاحبہ کا نام پوچھا۔ انھوں نے ایک ایک حرف کرکے لکھوایا “HATICE” ہم نے اپنی انگریزی جھاڑی ’’ہَیٹِس؟‘‘ انھوں نے تصحیح کی ’’نہیں_ہتی سے‘‘۔ ہم نے کہا ’’یہ کیا نام ہوا؟‘‘ انھوں نے قدرے برہم ہو کر الٹا ہم سے سوال کیا ’’آپ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ کا نام نہیں جانتے؟‘‘ ہم نے کہا ’’کیوں نہیں، خدیجہ (رضی اللہ عنہا)‘‘، بولے ’’وہی_ ہتی سے۔‘‘

’’رقصِ درویش‘‘ سے واپسی پر ہم بے حد مسرورومسحور تھے۔ ہم نے بیگم سے کہا ’’اللہ کی شان، یا تو ہم ان جلووں سے بالکل مایوس ہوکر آشفتگی کا شکار تھے یا اب شگفتگی سنبھالی نہیں جارہی۔ یا تو آج سہ پہر ہی واپسی کا پروگرام بنا رہے تھے یا شام کو گورنر صاحب اور اُن کی بیگم کے ساتھ ایسی یادگار اور پاکیزہ بزم میں شرکت کی۔ آپ اس نعمتِ غیرمترقبہ کے بارے میں کیا کہیں گی؟‘‘ ان کا مختصر تبصرہ یہ تھا،’’جہاں چاہ، وہاں راہ!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔