دریائے نیل کی دلہن

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی  اتوار 10 جنوری 2021
’دریائے نیل کی دلہن‘ ایک داستان ہے جسے اب تک اہلِ مصر دُہراتے ہیں۔

’دریائے نیل کی دلہن‘ ایک داستان ہے جسے اب تک اہلِ مصر دُہراتے ہیں۔

(مضمون نگار کا تعلق برادر مسلم ملک مصر سے ہے۔ وہ قاہرہ کی عین شمس یونی ورسٹی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اردو سے ناتا جوڑا بلکہ ہماری قومی زبان میں نثر پارے لکھتی اور شاعری بھی کرتی ہیں۔ زیرنظر مضمون میں انھوں نے مصر کی ایک مشہور لوک کہانی اور اس کی حقیقت کو موضوع بنایا ہے۔)

مشہور یونانی مؤرخ ہیرودوتس نے درست ہی کہا ہے کہ:’’مصر دریائے نیل کی بخشش ہے۔‘‘ بے شک دریائے نیل، جو دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے، مصر کی عظیم تہذیب میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وادی میں لوگ رہتے، بستے تھے اور اس کے کناروں پر بڑی بڑی تہذیبیں تھیں۔ قدیم مصر کے باسیوں کی خوش حالی اور استحکام کا واحد سبب یہی دریائے نیل تھا، جہاں وہ زرعی کام کر کے خوراک فراہم کر سکتے تھے۔ قدیم مصریوں کے دلوں میں دریائے نیل بڑی اہمیت رکھتا تھا۔

یہاں تک کہ انہوں نے اس کی تقدیس کی تھی اور اس کا پانی جسمانی اور روحانی طہارت، مذہبی رسومات ادا کرنے اور مُردوں کے غسل کے لیے استعمال کیا تھا۔ انہوں نے دریائے نیل کی پاکیزگی کا خیال رکھا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جو دریائے نیل کے پانی کو آلودہ کرتا ہے تو وہ دیوتاؤں کے قہر سے بچ نہ سکے گا۔ اس بات کا مذہبی کتابوں میں ذکر کیا گیا تھا۔ اسی لیے قدیم مصری بہت فخر سے بتاتے تھے کہ انھوں نے دریائے نیل کے پانی کو آلودہ نہیں کیا۔

چوںکہ قدیم مصری دریائے نیل کو زندگی کا اولین سرچشمہ مانتے تھے، اسی لیے اس پر ایمان لائے تھے، کیوںکہ نیل خشک سالی سے ان کی زندگی کی حفاظت کرتا تھا۔ قدیم مصری اپنے موسیقی کے آلات پر دریائے نیل کے گیت گاتے تھے۔ وہ اس دریا کے سیلاب کو بھی مقدس سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اس کے لیے ایک دیوتا مقرر کیا تھا۔ چناںچہ قدیم مصری مذہبی فکر دکھاتی ہے کہ اس عظیم دریا کے پیچھے ایک روح پنہاں ہے، جس کے ذریعے زرخیزی لے جانے والا سیلاب کا پانی آ جاتا ہے، اور یہ روح دیوتا (حابی) کی ہے۔

قدیم مصریوں نے دیوتا حابی کا تصور کیا تھا کہ اس کی شکل جیسے ایک موٹا آدمی ہے، اس کا جسم مضبوط ہے، اس کی چھاتی اتری ہوئی ہے، اس کا پیٹ بہت بڑا ہے، اس کا رنگ سبز اور نیلا ہے، ننگا اور لمبے بالوں کا مالک ہے۔ وہ دیوتا حابی کو قربانیاں پیش کرتے تھے، تاکہ دیوتا ان کو سیلاب، نیکی، بھلائی اور استحکام بخشے۔ قدیمی مصر کے عقیدے کے مطابق اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دریائے نیل کی تقدیس کے بارے میں بہت سی کہانیوں کی اختراع ہو گئی تھی۔ ان کہانیوں میں سب سے مشہور داستان ’دریائے نیل کی دلہن‘ کی ہے۔

داستان یہ ہے کہ قدیم مصری ہر سال دریائے نیل کے لیے ایک بہت ہی خوب صورت کنواری لڑکی کو قربان کر دیتے تھے۔ اس لڑکی کو بہترین لباس پہنا کر اور زیورات سے آراستہ کرکے دلہن کی طرح سجاتے تھے۔ پھر ایک بڑے قومی جشن میں یہ دلہن پھولوں اور جھنڈوں سے ایک مزین جہاز پر سوار ہوتی تھی، جو سمندر کی سطح پر چلتا تھا۔ اس کے بعد لوگ اسے دریائے نیل میں پھینک دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ دلہن دوسری دنیا میں حابی دیوتا سے شادی کرتی تھی۔ اسی طرح دریا خوش ہوتا تھا اور ان کے اس عمل سے بہنے لگتا تھا اور لوگوں کو پانی دیتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ایک سال دریائے نیل میں سیلاب نہیں آیا۔ اسی لیے مصر کی سرزمین پر خشک سالی آئی تھی۔ مصر کے لوگ سوگوار ہوگئے تھے اور قحط سالی نے انہیں بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ مصر کا بادشاہ بھی بہت غم گین تھا، جس نے سردار کاہن کی موجودگی کی درخواست کی تھی اور اس سے پوچھا تھا کہ دریائے نیل کا سیلاب کیوں نہیں آیا؟! سردار کاہن نے بادشاہ کو بتایا کہ قحط سالی کی وجہ یہ ہے کہ دریائے نیل بہت افسردہ ہے، کیوںکہ وہ ایک خوب صورت کنواری لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ تب بادشاہ نے دیوتا حابی کی دلہن بننے کے لیے انتہائی خوب صورت لڑکی کے انتخاب کا حکم دیا تھا۔

یہ سالانہ روایت کئی سال تک جاری رہی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ کاہن کو ایک سال بادشاہ کی اکلوتی بیٹی کے علاوہ ایک خوب صورت کنواری لڑکی نہیں ملی۔ اس کے باوجود کاہن نے تہوار منانے کا عزم کیا، تاکہ دریائے نیل ناراض نہ ہو۔ شہزادی کی لونڈی کو یہ خبر ملی تو بہت افسردہ ہوئی۔ اس لونڈی نے دلہن کو اپنے گھر میں چھپا لیا اور اس کو اپنی بیٹی کی طرح بنا کر رکھا، کیوںکہ اس کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس نے شہزادی سے مشابہت والی دلہن کی شکل میں لکڑی کا مجسمہ اس طرح بنایا کہ وہ بالکل شہزادی کی ہم شکل بن گیا تھا۔

لونڈی نے لکڑی کی دلہن کو سجایا اور دریائے نیل میں پھینکنے کے لیے اس کی تیاری کی۔ اس نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے دلہن کو دریائے نیل میں پھینک دے گی، تاکہ کوئی بھی معاملہ دریافت نہ کرے۔ تقریب مکمل ہو گئی اور جشن ختم ہوا۔ سب نے سوچا کہ شہزادی اپنے محبوب دریائے نیل کے ساتھ دوسری دنیا میں چلی گئی۔ بادشاہ کو اپنی اکلوتی بیٹی کی جدائی پر افسردگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ بادشاہ اس کے غم کو برداشت نہ کر سکا، اس کی صحت بھی تیزی سے خراب ہونے لگی اور بستر پر تھا۔

جب لونڈی نے دیکھا کہ بادشاہ اپنی بیٹی کی جدائی کے غم میں مرنے والا تھا تو اس نے اس پر ترس کھا کر شہزادی کو اس کے پاس واپس کر دیا۔ بادشاہ اپنی بیٹی کو دیکھ کے پھر سے صحت یاب ہو گیا اور پھر اسے خوشیاں نصیب ہو گئیں۔ اس کے بعد لونڈی نے بادشاہ کو اپنی چال کی کہانی سنائی۔ اس وقت سے ہر سال اصل لڑکی کے بجائے اہلِ مصر ایک خوب صورت لڑکی کی شکل میں لکڑی کی دلہن بناتے اور اسے سجا کر دریائے نیل میں پھینک دیتے۔

اسلامی ورثے سے دریائے نیل کی دلہن سے جُڑی ہوئی ایک اور کہانی ہے کہ جب مسلمانوں نے مصر فتح کیا اور حضرت عمرو بن العاصؓ مصر کے گورنر بنے تو عجمی مہینوں میں سے ایک مہینے کی بارہ تاریخ کو مصر کے کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ہمیں اجازت دیں تاکہ دریائے نیل میں ایک دلہن کو پھینک دیں، جیسے ہر سال کا معمول ہے۔ انہوں نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو یہ بھی بتایا کہ اگر یہ رسم ادا نہیں کی جائے گی تو دریائے نیل جاری نہیں ہوگا اور خشک سالی مصر کا مقدر ہوگی۔ حضرت عمرو نے ان سے کہا کہ ’اسلام میں ایسی کوئی بے ہودہ رسم جائز نہیں۔

اس کے علاوہ اسلام تو اپنے سے پہلے کی ایسی تمام رسوماتِ جاہلیت کو مٹا دیتا ہے، تم لوگ اس رسم پر ہرگز عمل نہ کرنا۔‘ مصر کے لوگوں نے گورنر کے حکم کی تعمیل کی اور اس سال دریائے نیل میں کسی بھی لڑکی کو نہیں پھینکا گیا۔ پھر یہ ہوا کہ دریائے نیل کی روانی بالکل رک گئی اور دریا خشک ہو گیا۔ لوگ بہت ہی پریشان تھے۔ انہوں نے مصر سے نکلنے کا ارادہ کرلیا اور کسی اور جگہ جانا چاہتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے جب یہ معاملہ دیکھا تو لوگوں سے کہا کہ تم لوگ انتظار کرو اور میں اپنے خلیفہ امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھتا ہوں اور جو حکم ملے گا، اس پر عمل کیا جائے گا۔

حضرت عمرو بن العاصؓ نے ایک خط میں حضرت عمر فاروقؓ کو پورا قصہ بیان کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاصؓ کو ایک رقعہ ارسال فرمایا اور کہا کہ یہ رقعہ دریائے نیل میں پھینک دیں۔ اس رقعے میں لکھا تھا۔۔۔۔ حمد وصلوٰۃ کے بعد۔۔۔ اے نیل! اگر اپنی مرضی سے بہتا ہے تو نہ بہہ اور اگر اللہ تعالٰی تجھے بہاتا ہے تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تیرا بہنا جاری فرما دے۔‘ جب عمرو بن العاصؓ نے وہ رقعہ دریا میں ڈالا تو اللہ تعالی نے دریائے نیل میں پانی بہا دیا اور اس دن سے آج تک اللہ تعالی نے اہلِ مصر کی اس پرانی رسم کو ختم فرما دیا۔

اب تک بہت سے لوگ دریائے نیل کی دلہن کی کہانی کو، جو فرعونوں سے منسلک ہے، ایک سچی کہانی سمجھتے ہیں، لیکن حقیقتاً اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اسی لیے اسے بے سند وبے ثبوت کہانی کہا جاتاہے۔ مصریوں کے مذہبی عقیدے کے مطابق کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ وہ کسی بھی دیوتا کے لیے انسانی قربانیاں پیش کریں۔

علاوہ ازیں فرعونی تختیاں اور مخطوطے بھی ہیں، جو دریائے نیل اور اس کے سیلاب کے حالات بیان کرتے ہیں اور ان میں دریائے نیل کی اس کنواری دلہن کا کوئی ذکر نہیں ہے، جسے نیل کے لیے بطور قربانی پیش کیا جاتا تھا۔ فرعونوں کے شعرا اور ادبا نے اپنی تحریروں میں دریائے نیل کی اس دلہن کا ذکر نہیں کیا ہے۔ دریائے نیل کی دلہن کے خیال کی حقیقت یہ ہے کہ اہلِ مصر دریائے نیل کی تقدیس کرتے تھے اور ایک خاص دن اس کو مناتے تھے۔ اس عظیم دریا کے اعزاز میں سونے کے سکے اور زیورات اس میں پھینک دیتے تھے اور سیلاب کے وقت اس میں بھی سونے، کانسہ یا مٹی سے بنائی ہوئی دلہن کو پھینک دیتے تھے، تاکہ اس کی نیکی اور بھلائی خوب ہوں۔

بہرحال ’دریائے نیل کی دلہن‘ ایک داستان ہے جسے اب تک اہلِ مصر دُہراتے ہیں۔ مصر کے شعرا اور ادبا نے بھی اس کی بابت لکھا ہے۔ مختلف فلموں کے ذریعے بھی اس داستان کو دکھایا گیا ہے۔ فرعونوں نے اہلِ مصر کے لیے بے شمار تہوار اور رسم ورواج چھوڑ ے تھے۔ لیکن ان میں سے کچھ تہوار مختلف ادوار میںیا تو ختم ہوگئے یا غائب ہوگئے اور کچھ اب تک بھی جاری ہیں، جیسے ’دریائے نیل کی دلہن‘ کا تہوار ہے۔ مصر میں اب تک لوگ پندرہ اگست کو یہ تہوار مناتے ہیں اور اس کا نام ’دریائے نیل کی وفاداری‘ کا تہوار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔