کرپشن کا نظریہ

محمد سعید آرائیں  ہفتہ 9 جنوری 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں کرپٹ نہیں ہوں اور کرپشن سے متعلق میرا نظریہ یہ ہے کہ جب وزیر اعظم کرپٹ ہوتا ہے تو ملک تباہ ہو جاتا ہے اور اوپر سے کرپشن نیچے آتی ہے۔ وزیر اعظم کرپٹ ہو تو اس کے وزرا بھی کرپشن کرتے ہیں اور وزیروں کی کرپشن پر ان کے وزارتی محکموں کے سیکریٹری بھی کرپشن میں ملوث ہو جاتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ نچلی سطح پر پولیس اور پٹواریوں کی وجہ سے عوام کو ضرور پریشانی ہوتی ہے۔ ماضی کے حکمران کرپٹ تھے جس کی وجہ سے ملک تباہ ہوا ۔ صادق و امین قرار دیے گئے اور ایمانداری کے دعویدار وزیر اعظم کی حکومت اگلے ماہ اپنی نصف مدت مکمل کرلے گی اور وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ کابینہ کے پاس اب عذر پیش کرنے کا وقت نہیں رہا اور اب کارکردگی دکھانا ہوگی۔

پی ٹی آئی کے دو ارکان قومی اسمبلی متعدد بار میڈیا پر کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت میں کرپشن نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے ملک کا کوئی ایک محکمہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جہاں کرپشن نہ ہو رہی ہو۔ کوئی سرکاری ادارہ کرپشن سے پاک نہیں ہے جس سے عوام سخت پریشان ہیں۔

دیگر ارکان اسمبلی کو بھی کرپشن جاری رہنے اور بڑھنے کی شکایات ہیں جب کہ اپوزیشن مسلسل الزام لگا رہی ہے کہ موجودہ حکومت میں کرپشن عروج پر ہے اور وزیر اعظم اپنے ان مبینہ کرپٹ وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کر رہے۔ چینی، دواؤں اور آٹے کے متعلق کمیشن کی رپورٹیں منظر عام پر آنے کے باوجود کسی کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں لیا گیا بلکہ بعض شکایات پر متعلقہ ذمے داروں کو صرف تبدیل کیا گیا یا اور اچھے موقع دے دیے گئے۔

ایل این جی اسکینڈل میں ملک کو 122 ارب روپے کا نقصان پہنچانے والوں  سے باز پرس تک نہیں کی گئی۔ موجودہ حکومت کے ڈھائی سالوں میں کرپشن ختم نہیں ہوئی اور کرپشن کے الزامات میں صرف اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف حکومت کے ایما پر ریفرنس تیار اور مقدمات بنائے جا رہے ہیں اور حکومت میں شامل مبینہ کرپٹ لوگوں کو کرپشن کرنے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔

حکومت کی وجہ سے ان کی کرپشن چھپائی جا رہی ہے اور کرپشن کے حقائق کا علم موجودہ حکومت کے جانے کے بعد ہوگا۔ کیا اپوزیشن کا یہ کہنا درست ہے کہ حکومت میں رہتے ہوئے بہت کم معاملات میں کرپشن منظر عام پر آتی ہے اور اقتدار سے جانے کے بعد کرپشن کے ہولناک انکشافات ہونے لگتے ہیں۔

ماضی سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں ان کے شوہر پر الزامات لگائے گئے۔ وہ سب سے زیادہ عرصہ جیل میں بھی رہے مگر پرویز مشرف، نواز شریف اور موجودہ حکومت کے ڈھائی سالوں میں آصف زرداری کی کوئی کرپشن عدالت میں ثابت کی جاسکی نہ انھیں اب تک کوئی سزا ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف کا نام کرپشن کرنے والے حکمرانوں کی پاناما کی لسٹ میں نہیں تھا بلکہ چار سو سے زائد مبینہ کرپٹ افراد کے نام لسٹ میں تھے ان میں کسی ایک کے خلاف کارروائی تک نہیں ہوئی جس پر امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق، سینیٹ سمیت متعدد جلسوں میں آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔

وزیر اعظم کے کرپشن سے متعلق نظریے کے برعکس کرپشن اوپر سے نیچے نہیں آتی بلکہ حقیقت میں نیچے سے شروع ہو کر اوپر تک جاتی ہے۔ وزیر اعظم کے بقول پولیس اور پٹواریوں کی کرپشن سے عوام پریشان ہوتے ہیں۔

یہ بات بھی غلط ہے پولیس اور پٹواری صرف عوام کو پریشان کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے اوپر کے افسروں کے بنگلوں کے اخراجات اور ان کی سرکاری تقریبات کے انتظامات کرنے کے لیے رشوت وصول کرنے پر مجبور ہیں اور اس کا ثبوت ایک پٹواری نے ساٹھ سال قبل صدر ایوب کے دور میں ان کے شکار کے پروگرام کے اخراجات برداشت کرنے کی شکایت پر ایک اعلیٰ سطح تحقیقات میں کھلے عام انکشاف کرکے دے دیا تھا۔

سیاستدان زیادہ بدنام ہیں مگر حقیقت میں یہ کون نہیں جانتا کہ اعلیٰ افسروں کے گھروں کے اخراجات وہ اپنی تنخواہوں سے ادا نہیں کرتے بلکہ ان کے بنگلوں کے اخراجات کے نگران خاص ضروریات کی اشیا منگوانے کی ذمے داری پوری کرتے ہیں اور اعلیٰ افسروں کے نیچے والوں کو آگاہ کر دیتے ہیں اور مطلوبہ اشیا بنگلوں پر پہنچ جاتی ہیں اور اس چیز کا علم ہر اعلیٰ افسر کو ہوتا ہے ان کو صرف فرمائش کرنا ہوتی ہیں جب کہ ان کی بیگمات کی فرمائشیں تو کبھی پوری ہی نہیں ہوتیں اور ماتحتوں کو صاحب کو خوش کرنے کے لیے بیگمات کے حکم کی تعمیل کرنا پڑتی ہے۔

ایک میونسپل افسر کا کہنا تھا کہ ہم کوئی کرپشن نہ بھی کریں تو ٹھیکوں اور خریداری میں ہمیں گھر بیٹھے مقررہ کمیشن مل جاتا ہے اور کوئی شکایت بھی نہیں ہوتی۔ کمائی کے طریقے اپنے بڑوں کو سرکاری افسر بتاتے ہیں مگر اپنی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے اور جب وزیر اعظم، وزیر اور مشیر حکومت بدلنے پر گھر چلے جاتے ہیں تو یہی افسر تحقیقات میں ثبوت بھی دیتے ہیں اور وعدہ معاف گواہ بھی بن جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے ایک وزیر کا شکوہ ہے کہ موجودہ مہنگائی میں دو لاکھ ماہانہ تنخواہ میں ان کا مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔

ہر محکمے میں ٹھیکوں اور خریداری میں مقررہ کمیشن گھر بیٹھے بغیر کسی شکایت کے مل جائے تو مفت کی رقم کس کو بری لگتی ہے۔ ان کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ رقم چھپانے کے لیے غیر ملکوں کی شہریت، بیرون ملک تفریح اور سفر پہلے کسی کو نظر نہیں آتے۔

کرپشن میں ہر سیاستدان اور اعلیٰ افسر ملوث نہیں ابھی اس ملک میں ایماندار سیاستدان اور اعلیٰ افسر موجود ہیں مگر ایماندار وزیر اعظم کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہونا چاہیے کہ جب اوپر کرپشن نہ کرنے والا وزیر اعظم موجود ہے تو مہنگائی اور کرپشن کیوں قابو میں نہیں آ رہی اور نیچے یہ کرپشن کیوں ختم نہیں ہو رہی۔ وزیر اعظم کے کرپشن کے نظریے کا ملک و قوم کو فائدہ کیوں نہیں ملا۔ شکایات میڈیا میں آنے کے بعد کسی بھی وزیر، مشیر کو کرپشن پر ہٹایا نہیں گیا تو کیا حکومت فرشتوں پر مشتمل ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔