پنجاب میں آرمی آکشن میں نیلام کردہ گاڑیوں کی رجسٹریشن پر پابندی

رضوان آصف  ہفتہ 9 جنوری 2021
آرمی آکشن کی بوگس رجسٹریشن کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے فوٹو: فائل

آرمی آکشن کی بوگس رجسٹریشن کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے فوٹو: فائل

 لاہور: پنجاب میں آرمی آکشن میں نیلام کردہ گاڑیوں کی رجسٹریشن پر فوری پابندی عائد کردی گئی ہے۔

سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب وقاص علی محمود نے پنجاب بھر میں آرمی آکشن گاڑیوں کی ایکسائز رجسٹریشن پر پابندی عائد کردی ہے اور اپنے ماتحت افسروں کو حکم دیا ہے کہ رجسٹریشن سے قبل آرمی واوچرز کی تصدیق کا فول پروف اور شفاف نظام وضع کیا جائے۔

ذرائع کے مطابق طویل عرصہ سے محکمہ ایکسائز اور آرمی حکام کے درمیان آرمی واؤچرز کی تصدیق کے معاملہ پر اختلاف ہے جب ایکسائز حکام واوچرز لے جا کر آرمی حکام سے تصدیق کے لئے کہتے ہیں تو انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ جب تک ہیڈ کوارٹر سے منظوری نہیں لیتے تب تک تصدیق نہیں کر سکتے۔ آرمی آکشن گاڑیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے محکمہ اینٹی کرپشن بھی تحقیقات کر رہا ہے اور اس حوالے سے اسکین ریکارڈ کی عدم فراہمی پر ایکسائز حکام کے افسروں اور اہلکاروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے جس پر محکمہ ایکسائز کا مضبوط موقف ہے کہ یہ مقدمہ عجلت میں غلط طریقہ سے درج کیا گیا ہے کیونکہ اسکین ریکارڈ کی عدم دستیابی اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی کہ گاڑی کی رجسٹریشن غلط ہے۔

ذرائع کے مطابق سیکرٹری ایکسائز نے فیصلہ کیا ہے کہ آرمی آکشن کی بوگس رجسٹریشن کے لئے منظم طریقے سے کام کرنے والے اہلکاروں کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ محکمہ ایکسائز اور محکمہ ٹرانسپورٹ نے باڈی میکنگ ورکشاپس کو قانون اور قواعد کے دائرہ کار میں لانے کیلئے مشترکہ طور پر سفارشات تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے محکمہ ٹرانسپورٹ پنجاب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وسیم ،سیکرٹری پی ٹی اے ،ڈی جی نارکوٹکس کنٹرول پنجاب چوہدری مسعود الحق اور ڈائریکٹر ایکسائز قمر الحسن پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

ٹرانسپورٹ قوانین کے تحت کوئی بھی آٹو ورکشاپ چلانے کیلئے محکمہ ٹرانسپورٹ کا لائسنس لینا لازم ہے لیکن آج تک اس قانون پر عملدرآمد نہیں کروایا جا سکا ہے۔ اس وقت لاہور سمیت کئی شہروں میں بڑی تعداد میں آٹو باڈی مینوفیکچرنگ ورکشاپس موجود ہیں جو بسوں، ٹرکوں اور ٹرالرز کی ”چیسز“ پر باڈیاں بناتی ہیں جس کے بعد انہیں محکمہ ایکسائز میں رجسٹر کروایا جاتا ہے۔

”ایکسپریس“ کے رابطہ کرنے پر ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اعظم نیازی نے کہا کہ مقامی سطح پر بنائی گئی باڈی والی بسیں غیر معیاری ہوتی ہیں ،ایسی بسیں 20 تا30 لاکھ میں تیار ہوجاتی ہیں جبکہ ہم لوگ بیرون ملک سے کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ روپے بلکہ دو کروڑ روپے تک خرچ کر کے بسیں پاکستان لاتے ہیں۔ لوکل باڈی ورکشاپس کیلئے قواعد وضوابط بھی ہونا چاہئے اور باڈی بنانے کیلئے ایک معیار بھی مقرر کرنا چاہئے۔

محکمہ ٹرانسپورٹ کے زیرانتظام”VICS “ کے جنرل منیجر قاسم امام نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس جو لوکل باڈی والی بسیں یا ٹرک فٹنس سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے آتے ہیں ان کا معیار کسی بھی صورت کسی باقاعدہ کمپنی کی تیار کردہ وہیکل کے برابر نہیں ہوتا ،گو کہ انسپکشن کے دوران مقررہ ضروری چیزوں کی چیکنگ کے بعد سرٹیفکیٹ جاری کردیا جاتا ہے تاہم یہ خوش آئند امر ہوگا اگر محکمہ ٹرانسپورٹ لوکل باڈی میکنگ ورکشاپس کو ریگولیٹ کرنے اور باڈی بنانے کیلئے کم ازکم معیار کا تعین کرنے کیلئے قانون سازی کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔