گمنام قبریں، خشک آنکھیں

سید امجد حسین بخاری  منگل 12 جنوری 2021
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے گناہوں کی میتیں بھی ورثا کے پاس نہیں پہنچتیں۔ (فوٹو: فائل)

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے گناہوں کی میتیں بھی ورثا کے پاس نہیں پہنچتیں۔ (فوٹو: فائل)

آسمان پر گہری گھٹا چھائی ہوئی ہے، بجلی کڑکنے اور ہوا میں خنکی سے محسوس ہورہا ہے کہ آج ابر کرم کھل کر برسے گا۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ برف باری کے ایک نئے سلسلے کی خبر دے رہی ہے۔ اس سارے منظر سے بے خبر غم سے نڈھال ایک باپ اپنے جواں سال بیٹے کی قبر کھود رہا ہے۔ سخت سردی میں اس کے ماتھے سے پسینہ ٹپک رہا ہے۔ اسے جوں جوں اپنے بیٹے کی یاد آرہی ہے، بیلچے اور کدال پر اس کی پکڑ مضبوط ہوتی جارہی ہے۔

پلوامہ کے قبرستان میں عزم و ہمت کی مثال بنا یہ شخص گیارہویں جماعت کے طالب علم اطہر احمد کا والد تھا۔ اطہر احمد کو 30 دسمبر کو ایک جعلی مقابلے میں بھارتی فوج نے شہید کردیا تھا اور گزشتہ دس دنوں سے اس کے اہلخانہ اپنے بیٹے کے جسد خاکی کا انتظار کررہے ہیں۔ 30 دسمبر کو سری نگر میں بھارتی فوجی تاریخ کے ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہوا۔ اس دن ایک جعلی مقابلے میں گیارہویں جماعت کے اطہر احمد، بی اے میں زیر تعلیم اعجاز مقبول غنی اور ایک دیہاڑی دار مزدور زبیر احمد لون کو شہید کردیا گیا۔ یہ جعلی مقابلہ سیکنڈ راشٹریہ ریفل رجمنٹ نے کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی فوج تین کمسن نوجوانوں کی لاشیں کیوں نہیں دے رہی؟

برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج نے جن جن نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا، ان کے جسد خاکی ان کے ورثا کے حوالے نہیں کیے گئے۔ بھارتی فوج نوجوانوں کی لاشوں سے بھی خوفزدہ ہے۔ اسے ڈر ہے کہ نوجوانوں کے جنازے اور ان کی قبریں تحریک آزادی کو فروغ دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں نماز جنازہ ادا کرنے والے افراد مزاحمت کی تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ 30 نومبر کو جعلی مقابلے میں شہید کیے جانے والے نوجوانوں کی لاشیں ان کے گاؤں سے 115 کلومیٹر دور گمنام قبر میں دفنا دی گئی ہیں۔ یہ صرف تین نوجوان ہی نہیں بلکہ 2020 کے دوران 180 نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے بعد انہیں گمنام قبروں میں دفن کردیا گیا۔ ان کے والدین آج بھی اپنے پیاروں کی لاشوں کا انتظار کر رہے ہیں۔

بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ہمیں ایک دن اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ اسی یقین کے ساتھ جب کسی پیارے کی میت سامنے آتی ہے، تجہیز و تکفین کے بعد انسان مشیت خداوندی پر راضی ہوجاتا ہے، اسے کچھ قرار میسر آجاتا ہے۔ ایک لمحے کو اس ماں کے بارے میں سوچیے جسے علم ہوگیا ہے کہ اس کا بیٹا بھارتی فورسز نے قتل کردیا ہے، وہ آخری بار اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک باپ اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو لحد میں اتارنا چاہتا ہے۔ ایک بھائی اپنے بھائی کی قبر پر خود مٹی ڈالنا چاہتا ہے۔ ایک بہن اپنے بھائی کی میت پر پھول چڑھانا چاہتی ہے مگر اسے اس کا موقع نہیں ملتا۔ ماں کی آنکھیں ساری زندگی انتظار میں رہتی ہیں۔ بہن جو بھائی کو دلہا بنانا چاہتی ہے وہ اس کی میت کے انتظار میں مالا ہاتھ میں لیے گھر کی چوکھٹ پر کھڑی ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ کدال اور بیلچہ ہاتھ میں لیے ایک والد اپنے بیٹے کی قبر کھودنے کےلیے بے تاب ہو۔ کشمیر میں روزانہ ہی ایسی کہانیاں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اب کشمیری نوجوانوں کے قتل پر ماتم نہیں کرتے، وہ جعلی مقابلوں پر احتجاج بھی نہیں کرتے۔ ان کا اب بس ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں تو ہمارے حوالے کردو۔

اطہر، اعجاز اور زبیر کی میتیں گمنام قبروں میں دفن کردی گئی ہیں، ان کی نماز جنازہ ادا ہوئی ہے اور نہ ہی مسنون طریقے کے ساتھ ان کو دفن کیا گیا ہے، بس ایک گڑھا کھود کر اس میں میت دفن کی اور پھر اس گڑھے کو مٹی سے بھر دیا۔ اس المناک واقعے کے بعد کشمیر بھر میں احتجاج شروع ہوگیا۔ شدید برف باری میں میتوں کے انتظار میں کھڑے والدین، بین کرتی مائیں اور پھیرن کے پلو سے آنسو صاف کرتی بہنیں اقوام عالم سے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان کے اسی احتجاج کی جھلک وادی میں موسم سرما کی پہلی برف باری کے بعد سنو آرٹ میں بھی دیکھی گئی۔ بچوں اور نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر ’’ہماری میتیں واپس کرو‘‘ کا ٹرینڈ شروع کیا۔ جس ٹرینڈ کے دوران سوشل میڈیا پر دو لاکھ سے زائد پوسٹیں کی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ سنو آرٹ میں بھی اس کا اظہار کیا گیا۔

کسی مجرم کی میت بھی سزائے موت کے بعد اس کے ورثا کے حوالے کی جاتی ہے، لیکن جموں و کشمیر میں بے گناہوں کی میتیں بھی ورثا کے پاس نہیں پہنچتیں۔ ہر دن نئے قوانین کے ذریعے جنگی جرائم کیے جاتے ہیں لیکن عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی نظر ان مظالم کی جانب نہیں جاتی۔ بھارتی قیادت اس بات سے شاید بے خبر ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ اس بغاوت کی شدت کا اندازہ شاید موجودہ بھارتی قیادت کو ہرگز نہیں ہے۔ وگرنہ جمی برف پر ظلم کی منظرکشی کرتے بچوں کے بھڑکتے جذبات اسے نوشتہ دیوار پڑھنے میں معاون ہوسکتے تھے۔ ہاتھوں میں کدال اٹھائے والدین، بین کرتی مائیں اور مالا لیے کھڑی بہنیں بھارت کےلیے آنے والے دنوں میں وہ آتش فشاں بن سکتی ہیں، جس کی حدت سبھی ظالموں کو راکھ بنا دے گی۔

کشمیری عوام کو ایک شکوہ پاکستانی قیادت سے بھی ہے۔ ان کی شکایت اپنے سفیر سے بھی ہے۔ انہیں گلہ شہ رگ کے دعویداروں سے بھی ہے۔ وہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ہماری گمنام قبروں کو کبھی کتبہ نصیب ہوگا؟ ہمارے بچوں کی بے گوروکفن لاشوں کی تدفین کب ہوگی؟ کیا جعلی مقابلوں میں ہمارے نوجوانوں کا قتل عام کبھی رکے گا؟ سیکڑوں میل دور اپنے بچوں کی قبروں پر چادریں چڑھانے کا موقع ہمیں کب نصیب ہوگا؟ کیا ہمارے پاس کشمیری عوام کے ان سوالوں کا جواب ہے؟ کیا ہمارے جذبات بھی جموں و کشمیر میں جمی برف کی طرح سرد ہوگئے ہیں؟ سوچیے گا ضرور۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔