مشرف کو مارشل لا کا مشورہ: اہم دستاویز ریکارڈ سے غائب

عارف رانا  منگل 31 دسمبر 2013
سابق وفاقی سیکریٹری داخلہ کمال شاہ نے مبینہ طور پر صدر کو مارشل لگانے کا مشورہ دیا تھا.فوٹو: فائل

سابق وفاقی سیکریٹری داخلہ کمال شاہ نے مبینہ طور پر صدر کو مارشل لگانے کا مشورہ دیا تھا.فوٹو: فائل

اسلام آ باد: سابق وفاقی سیکڑی داخلہ سید کمال شاہ کی طرف اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا مبینہ مشورہ دینے سے متعلق اہم سرکاری دستاویز مشرف غداری کیس کے ریکارڈ سے غائب ہوگئی ہے۔

یہ دستاویز2007 میں جوڈیشل ایکٹیوازم کے انسداد دہشت گردی اقدامات پر منفی اثرات زائل کرنے کیلیے صدر کو لکھی گئی تھی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو بتایا کہ اس اہم دستاویزکی گمشدگی ایف آئی اے کی غداری کیس کی تحقیقات کے دوران گرما گرم مسئلہ رہا ہے اور دستاویز کے خالق کمال شاہ سمیت دیگر کرداروں سے قومی تحقیقاتی ادارے نے متعدد بار پوچھ گچھ کی ہے۔ ایک تفتیشی افسر نے بتایا کہ یہ دستاویز تحقیقات کے دوران نہایت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے ہمیں یہ جاننے میں زبردست مدد مل سکتی ہے کہ 2007 کی ایمرجنسی کے نفاذ کے مشاورتی عمل میں کس کا کتنا کردار رہا اور اسی تناظر میں مختلف کرداروں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کے رابطے پر کمال شاہ نے تسلیم کیا کہ ایف آئی اے نے انہیں طلب کرکے مشرف غداری کیس کی تفتیش کی تاہم انھوں نے اس بات سے انکار کیاکہ انھوں نے بطور سیکریٹری داخلہ صدر مشرف کو مارشل لا لگانے سے متعلق کوئی خط لکھا تھا۔

انھوں نے اس بات کی بھی تردید کی ایف آئی اے نے ان سے خصوصی طور پر غائب ہونے والی ان کی مبینہ دستاویز کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی۔ قابل اعتماد ذرائع نے بتایا کہ تفتیشی ٹیم نے دستاویز کے ایشو پرکمال شاہ کے مئوقف سے سخت اختلاف کیا ہے۔ ان کو یقین واثق ہے کہ کمال شاہ جو مشرف کی ٹیم کے اہم رکن تھے نے دستاویز ایک اہم اجلاس کے دوران صدارتی کیمپ آفس میں ان کے حوالے کی تھی۔ اسی اجلاس کے ایک سے زائد شرکا نے ایف آئی اے کو تصدیق کی کہ کمال شاہ نے اس اجلاس میں ہی دستاویز صدر کے حوالے کی تھی۔ ایمرجنسی کے نفاذ سے پہلے سابق وزیراعظم نے اسی کیمپ آفس میں کئی مشاورتی اجلاس کئے تھے۔ ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ دستاویز کی گمشدگی پر تبادلہ خیال کیا جاتا رہا ہے اور گزشتہ ماہ وزارت داخلہ میں جو رپورٹ جمع کرائی گئی تھی اس میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ صدر مشرف نے ایمرجنسی لگانے سے پہلے شوکت عزیز حکومت کی مختلف معاملات پرعدلیہ سے کشمکش پر 2ہفتے تک غور کیا تھا۔

 

ان اجلاسوں میں چاروں گورنروں، وزرائے اعلیٰ، سید کمال شاہ، صدر کے پرنسپل سیکریٹری محسن حفیظ، کابینہ سیکریٹری سید مسعود عالم رضوی، سابق سیکریٹری قانون جسٹس(ر) اجمل میاں اور اعلیٰ قانونی اور مشاورتی معاونین نے شرکت کی تھی۔ مسلم لیگ(ق) کے صدر چوہدری شجاعت نے حال ہی میں ایکسپریس نیوز کے پروگرام’اچھا لگے برا لگے‘‘ میں بات چیت کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے فیصلے میں دیگر کئی لوگوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ خود بھی ایمرجنسی کے حق میں تھے لیکن انھوں نے عدلیہ کو اس سے مستثنیٰ رکھنے کو کہا تھا۔ ایف آئی اے نے مشرف کی ایمرجنسی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملوث 2درجن سے زائد سابق اعلیٰ عہدیداروں سے پوچھ گچھ کی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے اس وقت کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ سے بھی تفتیش کی کہ کیا مشرف نے ان سے اس معاملے میں مشاورت کی تھی؟۔

شوکت عزیز نے تحریری اور گاہے بگاہے زبانی طور پر سابق صدرکو مطلع کیا تھا کہ جب تک چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ان کی ٹیم کے جج موجود ہیں ان کی حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ سابق وزیراعظم نے صدر کو ایک خفیہ خط بھی لکھا تھا کہ وہ افتخار چوہدری اور دیگر ججوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔ یہ خط اب ایف آئی کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ چونکہ کمال شاہ کی دستاویز غداری کیس کے ٹرائل میں نہایت اہمیت کی حامل ہے ، اس لیے ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم وزارت داخلہ کو رپورٹ پیش کرنے سے پہلے اس کی اصل کاپی حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن پھر ہنگامی طور پر 15نومبر کو رپورٹ پیش کردی گئی۔ تفتیشی ٹیم کو یقین ہے کہ کسی نے ریکارڈ سے دستاویز غائب کردی ہے تاکہ اگلے کسی مرحلے پر وہ خود نہ اس معاملے میں ملوث ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔