عدلیہ کسی ادارے پربالادست نہیں، نفاذ آئین کی ذمے دارہے : سندھ ہائیکورٹ

اصغر عمر  منگل 31 دسمبر 2013
اصول مساوات سے اغماض ممکن نہیں،بلدیاتی انتخابات سے متعلق فیصلے میں عدلیہ کی آبزرویشنز. فوٹو؛فائل

اصول مساوات سے اغماض ممکن نہیں،بلدیاتی انتخابات سے متعلق فیصلے میں عدلیہ کی آبزرویشنز. فوٹو؛فائل

کراچی: بلدیاتی انتخابات پر سیاسی جماعتوں کے اختلافات نے عوامی نمائندوں کے ایوان کی نہ صرف توقیرمیں کمی کی بلکہ عدلیہ کے ادارے کی بالادستی کے تصورکو مزیدمستحکم کردیا، عدلیہ نے تفصیلی فیصلے میں مدلل انداز میں ثابت کیا کہ سیاستدان اپنے جن مفادات کو ناقابل سمجھوتہ سمجھتے ہیں وہ کس طرح قانون کی طاقت کے سامنے کیسے پانی کے بلبلے کی طرح بہہ جاتے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات سے متعلق فیصلے میں  سندھ ہائیکورٹ نے آبزروکیا ہے کہ عدلیہ کومقننہ یا انتظامیہ پرکوئی برتری نہیں لیکن آئین کا نفاذ اور بنیادی حقوق کا تحفظ اس کی ذمے داری ہے۔ جسٹس محمدعلی مظہرکی سربراہی میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق 78صفحات پر مشتمل فیصلے میں بینچ نے بنیادی حقوق کی تعریف کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ وہ جس کی آئین میں ضمانت دی گئی ہو وہ بنیادی حق شمار ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ریاست کاکوئی بھی ادارہ خواہ انتظامیہ یامقننہ بھی اس سے ماورانہیں اوراس کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ جسٹس محمدعلی مظہرکے تحریرکردہ فیصلے میں قرار دیاگیا ہے کہ بنیادی حقوق واپس لیے جاسکتے ہیں نہ معطل کیے جاسکتے ہیں، نہ ہی ان میں کوئی کمی کی جاسکتی ہے۔

بنیادی حق ہرشہری کاوہ ذاتی حق ہوتاہے جوکسی بھی آزاداور مہذب معاشرے کے فردکو حاصل ہوتاہے اورحکام کو ان کی پابندی پر مجبور کرتا ہے۔ اگر کوئی اتھارٹی اس میں مداخلت کرتی ہے تو عدالت کی ذمے داری ہے کہ آئین پاکستان کی دفعہ 199کے تحت حاصل طاقت کے ذریعے اس حق کو نافذ کرے اور اس بارے میں مناسب ہدایت جاری کرے۔ اعلیٰ عدالتیں بارہا واضح کرچکی ہیں اور اب بھی اعلان کرتی ہے کہ جب بھی کوئی بیہودہ اورمتنازعہ قانون اس حق سے متصادم ہوگا یااس میں مداخلت کریگا یاان حقوق میں کٹوتی کی جائے گی توعدالتیں اس کاجائزہ لیں گی۔ بنیادی حقوق کی شناخت آئین سے ہے۔

ریاست کی پابندی کی آڑمیں بنیادی حقوق واپس نہیں چھین سکتی، تاہم ان حقوق سے انحراف کے کئی راستے ہیں جن میں امتیازی سلوک، ایک جیسی چیزوںمیں فرق اوردیگر طریقے شامل ہیں۔ امتیازی سلوک بعض اوقات تعصب میں تبدیل ہوجاتا ہے، صوابدیدی اختیارات اور اختیارات سے تجاوز بھی امتیازی سلوک کے زمرے میں آتے ہیں۔

تمام قانون دان جانتے ہیں کہ مساوات کے اصول سے کسی صورت اغماض نہیں برتا جاسکتا جیسا کہ پولیس اور دیگر محکموں میں آوٹ آف ٹرن پروموشن کے مقدمات میں سپریم کورٹ نے حال ہی میں واضح کیا ہے۔ عدالت نے آبزرو کیا کہ عمومی طور پر عدالتیں قانون برقرار رکھنے کے لیے نرم دلی کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن جب اس سے امتیازی رویے کی بو آئے تو اسے ختم کرنا پڑتا ہے۔ عدالت عالیہ نے مزید آبزرو کیا کہ بعض اوقات ایک قانون میں متعدد معاملات اس طرح گڈمڈ ہوتے ہیں کہ ان میں سے غلط اور درست کو الک کرنا مشکل ہوجاتا ہے اس لیے پورا قانون ہی کالعدم قراردینا پڑتا ہے۔ جب عدلیہ کو کسی قانون کو غیر موثر قرار دینے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو اس کا کام قانون سازی یا قانون سازوں کی صلاحیتوں کوجانچنا یا ان پر سوال اٹھانا نہیں اورنہ ہی عدالتی اختیارات قانون سازی اورکسی قسم کے اختیارسے اعلیٰ ترہیں لیکن عدلیہ ہرقیمت پرآئین کانفاذ کرتی ہے جبکہ قانون سازی کے کچھ طریقے آئین سے متصادم بھی ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔