این جی اوز پر اعتراض کیوں؟

جبار قریشی  اتوار 10 جنوری 2021
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں مجھے عاصم صاحب جو فلسفہ کے طالب علم ہیں ان کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں آپ کے کالم شوق سے پڑھتا ہوں۔ بالخصوص مذہبی دینی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے جن موضوعات پر آپ نے قلم اٹھایا ہے وہ میری خاص دلچسپی کا محور رہے ہیں۔

مجھے آپ کی بعض تحریروں سے جزوی اور بعض تحریروں سے کلی اختلاف بھی رہا ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ اپنے کالم میں مسائل کی نشاندہی کے ساتھ اس کے اسباب اور اس کا حل بھی پیش کرتے ہیں جو قابل ستائش بات ہے۔ جناب عاصم صاحب مزید لکھتے ہیں کہ میں ایک دینی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں اور اس بات کا دلی اور قلبی طور پر خواہش مند ہوں کہ دینی سیاسی جماعتیں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔

میری خواہش ہے کہ آپ ایک کالم ان مسائل پر بھی لکھیں جو معاشرے کے اہم مسائل ہیں لیکن دینی سیاسی جماعتوں نے ان سے بے اعتنائی اور لاتعلقی اختیار کی ہوئی ہے تاکہ دینی سیاسی جماعتیں ان ایشوز کو اپنی سیاسی جدوجہد میں شامل کرکے عوام میں پذیرائی حاصل کرکے کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں۔ میں آپ کے کالم کا منتظر رہوں گا۔

محترم جناب عاصم صاحب کالم کی پسندیدگی کا شکریہ۔ آج کا کالم عاصم صاحب کی خواہش کے تناظر میں ہی تحریر کیا گیا ہے۔

میرا یہ ذاتی مشاہدہ رہا ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا مرکز وہ مسائل رہے ہیں جن سے مذہبی طبقے کو فائدہ پہنچے۔ یہ جماعتیں عوام کے حقیقی مسائل بالخصوص عوامی بہبود کے کاموں سے لاتعلق دکھائی دیتی ہیں۔ اگر کوئی سرگرمیاں نظر بھی آتی ہیں تو بہت محدود نوعیت کی ہوتی ہیں۔ پاکستان کے عوام بے روزگاری، جہالت، بنیادی سہولتوں کے فقدان، انصاف کی عدم فراہمی جیسے مسائل کا شکار ہیں ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں غیر سرکاری تنظیموں کا کردار کسی حد تک نظر آتا ہے جو قابل ستائش ہے۔ ان غیر سرکاری تنظیموں کو عرف عام میں این جی اوز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

این جی اوز کا تصور انیسویں صدی عیسوی کے دوران خوشحال صنعتی ممالک میں پروان چڑھا جہاں خوشحال اور درمیانی طبقے نے اپنے ہاں کے غریب اور غیر مراعات یافتہ طبقات کی بہبود کا کام شروع کیا۔ یہ سارے کام حکومتی سرپرستی میں انجام دیے جاتے تھے۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ سماجی بہبود کے سارے کام حکومتی سرپرستی میں انجام نہیں دیے جاسکتے چنانچہ بہبود کے کاموں کو غیر سرکاری سطح پر انجام دینے کی روایت آگے بڑھی۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور عالمی ادارے انسان دوستی کے نقطہ نظر سے غریب اور پسماندہ ممالک کی بہبود کے حوالے سے پیش پیش رہے ہیں لیکن غریب اور پسماندہ بعض ممالک کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ ان بیشتر ممالک میں حکومتی سطح پر کرپشن بہت زیادہ ہوتی ہے عوام کی بہبود کے لیے جو فنڈ دیے جاتے ہیں وہ خرد برد ہو جاتے ہیں۔ اس کرپشن کو روکنے کے لیے ان ممالک نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ بہبود کے کاموں اور ضرورت مندوں کی مدد غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے کی جائے۔

اس تصور کے تحت دنیا کے بہت سے ممالک میں این جی اوز کا قیام عمل میں آیا۔ یہ تنظیمیں ترقی یافتہ ممالک سے فنڈ حاصل کرکے بہبود کے کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز بچوں، نوجوانوں اور خواتین کی بہبود کے ساتھ ساتھ بوڑھوں اور معذور افراد کی بہبود شامل ہے۔ نادار لوگوں کی مدد کے ساتھ جیلوں میں قید قیدیوں کی بہبود، جرائم پیشہ افراد کی اصلاح اور بھکاریوں کی بھلائی جیسے کام بھی کر رہی ہیں۔ طبی سہولتوں کی فراہمی، سماجی تعلیم، تعلیم بالغان، انصاف کی فراہمی بالخصوص اقلیتوں کے حقوق اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں اور جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

یہ تنظیمیں صرف بہبود کے کاموں میں ہی مصروف عمل نہیں ہیں بلکہ مفاد عامہ کے کسی بھی مسئلے بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی اور معاشرے کے خلاف ہونے والے ہر ظلم پر نہ صرف ردعمل کا اظہار کرتی ہیں بلکہ انھیں چیلنج بھی کرتی ہیں اور اپنی جدوجہد میں بااثر طبقات، وکلا، بیورو کریٹ، صحافی، ججز، اساتذہ اور طلبا جنھیں سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے انھیں شامل کرکے کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ ان تمام تر خدمات کے باوجود مذہبی، دینی سیاسی جماعتیں ان تنظیموں پر نہ صرف عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہیں بلکہ ان پر سنگین الزامات بھی عائد کرتی ہیں۔

بیشتر دینی سیاسی جماعتوں کا یہ نقطہ نظر ہے کہ بیشتر این جی اوز سیکولر مزاج کی علم بردار ہیں۔ ان این جی اوز پر بااثر بیوروکریٹ اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ اکثر این جی اوز مغرب زدہ خواتین کے کنٹرول میں ہیں جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ فنڈ کا حصول ہے۔ معاملہ صرف فنڈ کے حصول اور اس کی خرد برد تک محدود رہتا تو اسے نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن معاملہ یہ ہے کہ ان این جی اوز کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے مغربی نظریات کو نہ صرف پھیلایا جاتا ہے بلکہ اسے فروغ بھی دیا جاتا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد مشرقی روایات، تہذیبی ورثہ بالخصوص خاندانی نظام کو تباہ کرکے لوگوں کو مذہب سے دور کرنا ہے۔

اس مقصد کے لیے اسلامی تعلیمات میں ابہام اور فکری انتشار پیدا کرکے دین اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنا شامل ہے۔ بیشتر این جی اوز آزادی نسواں کے دل فریب نعرے بلند کرکے مادر پدر آزاد معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہیں اس مقصد کے حصول کے لیے گھر سے فرار ہونے والی لڑکیوں کے تحفظ نسواں کے نام پر نہ صرف پشت پناہی کی جاتی ہے بلکہ انھیں مزید خاندان سے بغاوت پر آمادہ بھی کیا جاتا ہے جس سے گھر سے بھاگنے کے کلچر کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔

کوئی بھی باعزت خاندان اس متاثرہ خاندان سے رشتہ ناطہ کرنے سے گریز کرتا ہے جس سے دونوں جانب کے گھرانے کے دیگر بچے اور بچیوں کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ اس طرح خاندان سماجی لحاظ سے تباہ ہو جاتا ہے۔مجھے نہیں معلوم این جی اوز پر لگائے جانے والے الزامات حقائق پر مبنی ہیں یا محض پروپیگنڈا۔ اس کا بہتر جواب سیاست کے طالبعلم ہی دے سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں این جی اوز جن عوامی مسائل کو اجاگر کرکے ان کے حل کی جدوجہد میں مصروف عمل نظرآتی ہیں دینی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ان مسائل کو غیر حقیقی مسائل کا نام دے کر انھیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ ان مسائل پر غیر جذباتی انداز فکر اپناتے ہوئے ان پر غور ضرور کرنا چاہیے۔

اس غور کے نتیجے میں لگے کہ مسائل اگر حقائق پر مبنی ہیں تو اس کے خاتمے کے لیے واضح لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے تاکہ ان مسائل کا تدارک کیا جاسکے۔ اس حکمت عملی کو اپنا کر ہی پاکستان میں منفی سرگرمیاں انجام دینے والی این جی اوز کے کردار کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے۔ یاد رکھیں محض ہم نہیں مانتے کا نعرہ لگانے سے کچھ نہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔