کچرے پرپلنے والے کتے ریبیز وائرس کا شکار ہونے لگے

کاشف حسین  پير 11 جنوری 2021
انسان ریبیز وائرس کے بجائے آوارہ کتوں کو قصور وار قرار دیکر آبادیوں کو کتوں کے وجود سے پاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں

انسان ریبیز وائرس کے بجائے آوارہ کتوں کو قصور وار قرار دیکر آبادیوں کو کتوں کے وجود سے پاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں

 کراچی: کراچی میں شاہراہوں، سڑکوں اور گلی محلوں میں پھیلا کچرا انسانوں کے ساتھ اس شہر کے جانوروں کے لیے بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔

گندگی اور کچرے پر پرورش پانے والے کتے ریبیز کے وائرس کا شکار ہورہے ہیں اور کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے انسانی آبادیاں بالخصوص گنجان آباد علاقوں میں پھرنے والے آوارہ کتے اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں، کتوں کے کاٹنے سے ہونے والی خطرناک بیماری ریبیز کا خوف کتوں کے لیے انسانی رویوں کو سخت بنارہا ہے جس کے نتیجے میں شہری علاقوں میں پھرنے والے آوارہ کتوں (اسٹریٹ ڈاگز) کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔

انسان اور کتوں کا تعلق کافی پرانا ہے لیکن بلدیاتی مسائل کی وجہ سے انسانی رویوں میں آنے والا بدلاؤ اس تعلق کو کمزور بنارہا ہے جس کے نتیجے میں انسان اور کتے ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں اس صورتحال میں جیت انسان کی ہی ہورہی ہے کتوں پر تشدد کے واقعات انسانوں میں ریبیز کے واقعات سے کہیں زیادہ ہیں کتوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کی جھلک بچوں کے ہاتھوں میں پتھروں کی شکل میں دکھتی ہے جو وہ گلیوں میں پھرتے کتوں پر اچھالتے نظر آتے ہیں۔

ریبیز کا مرض کتوں کے لیے بھی اتنا ہی مہلک ہے جتنا انسانوں کے لیے افسوسناک بات یہ ہے کہ انسان ریبیز کے وائرس کے بجائے کتوں کو قصور وار قرار دے کر انسانی آبادیوں کو کتوں کے وجود سے پاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں کچھ عرصہ قبل تک بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ضلعی بلدیاتی ادارے کتا مار مہم چلاکر انسانی آبادیوں میں کتوں کی بہتات پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا تاہم جانوروں کے بارے میں معاشرے کے ایک حصہ میں بڑھنے والی حساسیت کی وجہ سے اب بلدیاتی اداروں نے یہ بے رحمانہ طریقہ ترک کردیا ہے۔

انسانوں کوبچانے کیلیے جان خطر ے میں ڈال رہے ہیں

معاشرے کے مخیر حضرات اور اداروں کے تعاون سے کراچی سے شروع کی جانے والی پاکستان کو ریبیز سے پاک کرنے کی مہم کا بیڑہ اٹھانے والے رضاکاروں میں ابراہیم حیدری کے محمد ندیم بھی شامل ہیں، محمد ندیم انڈس اسپتال کی ریبیز سے پاک پاکستان مہم کا حصہ بننے والے اولین ٹیم ممبرز میں شامل ہیں جنھوں نے ریبیز فری پاکستان مہم کی بنیاد رکھی اور گزشتہ 4 سال سے اس مہم کے تحت کراچی کے گلی کوچوں میں پھرنے والے کتوں اور انسانوں بالخصوص بچوں کی جانیں بچانے کے لیے خود اپنی جان خطر ے میں ڈال رہے ہیں۔

محمد ندیم کے مطابق ابراہیم حیدری تھانے کی حدود میں بھی کتوں کی بہتات تھی اور اکثر بچوں کو کتے کاٹ لیتے تھے جس کی وجہ سے ان بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑجاتی تھیں خود وہ بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کے باپ ہیں بچوں کی تکلیف محسوس کرسکتے ہیں ، لیکن انھیں کتوں کا بھی خیال آتا کہ وہ بھی تو خدا کی مخلوق ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ کتے بچوں پر حملہ کرتے ہیں اس دوران ان کے علاقے میں انڈس اسپتال کے ریبیز فری پاکستان کے لیے افرادی قوت کی تلاش شرو ع ہوئی تو انھوں نے اس کام میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

محمد ندیم رکشا چلاکر اپنے بچوں کی کفالت کرتے تھے جب ان کی برادری کی سرکردہ شخصیات نے بتایا کہ ریبیز فری پاکستان کی مہم کے لیے کارکنوں کی ضرورت ہے تو انھوں نے اس مہم کا جائزہ لیا اور جب انھیں پتہ چلا کہ اس کام سے نہ صرف کتوں کو مرنے سے بچایا جاسکے گا بلکہ انسانوں اور بچوں کو بھی ریبیز کے خطرے سے نجات ملے گی تو انھوں نے فوری اس کام کے لیے حامی بھرلی، محمد ندیم سمیت دیگر افراد کی تربیت کی گئی 12 روز تک انھیں کتوں کی نفسیات، کتوں کو پکڑنے اور ان کی ویکیسن کے مراحل کے بارے میں تربیت دی گئی اور پھر انھوں نے ابراہیم حیدری سے ہی کام شروع کیا۔

اس مہم کے تحت آوارہ کتوں کو پکڑ کر انھیں ویکسین دی جاتی ہے جس سے ان میں تولیدی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے مادہ کتوں کی چھوٹی سی سرجری عمل میں لائی جاتی ہے کتوں کو ریبیز سے تحفظ کی ویکسین بھی لگائی جاتی ہے اس طرح یہ کتے انسانوں کے لیے خطرہ بنے بغیر ہی اپنی طبعی عمر پوری کرتے ہیں۔

کتے پکڑنے کے دوران شہری ہم پر آوازیں کستے ہیں

کتوں کی ویکسین کرنے کے لیے انھیں گھیر کر جال کی مدد سے پکڑا جاتا ہے اس دوران گلیوں میں موجود بچوں اور خواتین کو بھی خطرہ ہوتا ہے محمد ندیم کہتے ہیں کہ ان کی پہلی ترجیح انسانوں کو محفوظ رکھتے ہوئے کتوں کو پکڑنا ہوتا ہے۔

کتے پکڑنے کے دوران بعض افراد ان پر آوازیں کستے ہیں کوئی کہتا ہے کہ مارنے کے لیے لے جارہے ہیں کوئی کہتا ہے کہ فروخت کردیں گے یہ باتیں سن کر محمد ندیم کو افسوس ہوتا ہے لیکن وہ ہمت نہیں ہارتے اور پہلے اس آبادی کے مکینوں کو سمجھاتے ہیں کہ ان کتوں کو پکڑنے اور ویکسین کرنے کا مقصد انسانی جانوں کو تحفظ دینا ہے۔

باشعور شہری ا س مہم کی افادیت کو سمجھتے ہوئے ان کا اور ان کی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور تعاون کرتے ہیں، محمد ندیم نے بتایا کہ حال ہی میں انھوں نے گارڈن میں پولیس لائن پولیس کی رہائشی کالونی میں کتوں کو پکڑ کر ان کی ویکسین کی اس دوران کتے گلیوں میں بھاگتے رہے تین گلیوں کو بند کرکے کتوں کو جال سے پکڑا گیا یہ عمل دیکھ کر پولیس والے بھی حیران رہ گئے اور محم ندیم اور ان کی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا۔

کام میں خطرہ ہے، کتے اکثر کاٹ لیتے ہیں، رضاکار

آوارہ کتوں کو پکڑنے کے کام میں بہت خطرہ ہے اکثر اوقات کتے انھیں اور ان کی ٹیم کے ارکان پر حملہ کردیتے ہیں اور کاٹ بھی لیتے ہیں ریبیز سے بچاؤ کیلیے کتے پکڑنے والی ٹیم کی باقاعدگی سے ویکسی نیشن ہوتی ہے اسی لیے اب تک ٹیم کے کسی رکن کو ریبیز کی بیماری نہیں ہوئی۔

یہ بات محمد ندیم نے گفتگو میں بتائی انھوں نے مزید کہا کہ کراچی میں پھیلی ہوئی گندگی اورکچرے کے ڈھیر ریبیز کی اصل وجہ ہیں جہاں آلودہ خوراک کھانے کی وجہ سے کتوں میں ریبیز کا وائرس سرایت کرتا ہے اور کتوں کے کاٹنے کی صورت میں انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے، محمد ندیم اپنی ٹیم کے ہمراہ صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک کام کرتے ہیں اور ان دنوں کراچی کے ضلعی شرقی کے علاقوں رامسوامی، جامع کلاتھ، مارواڑی پاڑہ کے علاقوں میں کام کررہے ہیں۔

کتے کے کاٹے پر ٹوٹکوں کے بجائے زخم کو15 منٹ تک شیمپو یا صابن سے دھویا جائے
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر کتا کاٹ لے تو فوری طور پر کیا کرنا چاہیے تو انھوں نے بتایا کہ کتے کہ کاٹنے پر عمومی طور پر لوگ اس زخم پر مرچ مصالحہ لگاتے ہیں یہ طریقہ غلط ہے اس طرح زخم سے خون کے ساتھ جراثیم کا رسائو بند ہوجاتا ہے اور جراثیم زیادہ تیزی سے انسانی جسم میں پھیلتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ کتے کے کاٹنے کی صورت میں زخم کی جگہ کو دس پندرہ منٹ تک شیمپو یا صابن سے اچھی طرح دھویا جائے اور پھر اسپتال جاکر ویکسین لگوائی جائے۔

ہر پکڑے جانے والے کتے کا مکمل ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے

محمد ندیم اپنا کام محنت سے کرتے ہیں پکڑے جانے والے اور طریقہ کار سے گزرنے والے کتوں کا مکمل ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے اور پراسیجر کے دوران بھی ان کا خیال رکھا جاتا ہے، محمدندیم کہتے ہیں کہ کتوں کے انسانوں پر حملے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں، اکثر یہ کہاجاتا ہے کہ کتا پاگل ہوگیا انسانوں کو کاٹ رہا ہے دراصل انسان خود کتوں کو پاگل کرنے کی وجہ بنتا ہے۔

بچے کتوں کو بلا وجہ پتھر مارتے ہیں کچرا چننے والوں اور کتوں کی اذلی دشمنی ہے جس جگہ کتیا بچے دیتی ہے اس جگہ سے گزرنے والے اگر کتے کے بچوں کے لیے خطرہ بنیں تو کتیا ان پر حملہ کرتی ہے یہ حیوان کی فطرت ہے، محمد ندیم کہتے ہیں کہ بڑوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو تربیت دیں کہ جانوروں سے بدسلوکی نہ کی جائے جانور پیار کی زبان سمجھتا ہے۔

شہری کتوں کی 3 علامتیں یاد رکھیں
شہریوں کو کتوں کی 3 علامتوں کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے کتا انسانوں کو دیکھ کر دم ہلائے تو یہ کتوں کی سکون کی حالت ہے اس میں انسانوں کو کوئی خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے، کتے اگر اپنے کانوں کو تیزی سے حرکت دیں اور آنکھوں کو پھیلائیں اور سکیڑیں تو سمجھ جائیں کہ کتا انسان کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے اور ضرورت پڑنے پر حملہ کرسکتا ہے۔

تیسری اور سب سے خطرناک صورتحال اس وقت ہوسکتی ہے جب کتے کی آنکھیں پھیلی ہوئی ہوں اس کا جسم تنا ہوا ہو اور وہ دانت نکال کر لپکنے کے لیے تیار ہو ایسی صورت میں بچائو کا طریقہ استعمال کرنا یا راستہ ترک کرنا بہتر ہوگا۔

انعام دینے والے شہریوں کو بتاتے ہیں کہ انڈس اسپتال کی مہم کو وسائل مہیا کریں
اکثر شہری جو کتوں کی بہتات سے تنگ ہوتے ہیں انھیں خوش ہوکر انعام دینے کی کوشش کرتے ہیں جس پر وہ شہریوں پر زور دیتے ہیں اس کام کو منظم انداز میں آگے بڑھانے کے لیے وہ انڈس اسپتال کے اینٹی ریبیز مہم کو وسائل مہیا کریں، یہ بات محمد ندیم نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ 100فیصد کسی علاقے سے کتوں کا صفایا نہیں ہوسکتا یا ان کی نس بندی نہیں ہوسکتی لیکن اگر 70 سے 80 فیصد کتوں کی تولید کو کنٹرول کرلیا گیا تو انسانی آبادیوں پر منڈلانے والا یہ خطرہ بڑی حدتک کم کیا جاسکتا ہے۔

کتوں کو مارنا ظلم ہے، سکون ملتا ہے کہ ہم انسانوں اور کتوں کی جانیں بچارہے ہیں
ٹیمیں اپنا کام محنت سے کرتی ہیں اور وہ اپنی ٹیم کی نگرانی کرتے ہیں ، محمد ندیم کہتے ہیں کہ کتوں کو ماردینا ظلم ہے انہیں اس بات سے سکون ملتا ہے کہ وہ کتوں اور انسانوں کی جانیں بچارہے ہیں، محمد ندیم پرعزم ہیں کہ پاکستان کو ریبیز سے پاک کرنے کی مہم ضرور کامیاب ہوگی اور وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پاکستان کو ریبیز سے پاک کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔