کورونا کی احتیاطیں اور شادیاں

سارہ نایاب  منگل 12 جنوری 2021
خواتین وبائی صورت حال کے بعد شادیوں کے اخراجات کم رکھنے میں کردار ادا کریں

خواتین وبائی صورت حال کے بعد شادیوں کے اخراجات کم رکھنے میں کردار ادا کریں

پورا ایک برس ہونے کو آیا ہے، کہ کرہ ارض پر ’کورونا‘ کی وبا کے پنجے گڑے ہوئے ہیں، اس کی جکڑ کبھی کم ہوجاتی ہے توکبھی زیادہ۔۔۔ اس وبا اور ابھی تک لاعلاج بیماری نے جہاں ہماری زندگیاں بدل دی ہیں، وہیں ہمیں احتیاطوں اور مجبوریوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے کچھ نئے گر بھی سکھا دیے ہیں۔

زندگی تو آگے بڑھتی ہے، پابندیاں ہوں یا احتیاطیں، کچھ وقت ٹھیر سا بھی جائے، تو پھر یہ زندگی دوبارہ اپنا کوئی نہ کوئی راستہ بنا ہی لیتی ہے، پہلے کورونا کے تدارک کے لیے سخت لاک ڈاؤن کیا گیا۔

پھر دھیرے دھیرے اسے ختم کیا گیا اور کہاں پچھلے برس مارچ میں پورا ملک کئی دنوں تک مکمل طور پر بند رہا تھا اور کہاں آج ہم احتیاطوں کے ساتھ اپنی زندگی کے تمام ہی معمولات کو انجام دے رہے ہیں۔۔۔ اگرچہ بہت سے لوگ سنگین حد تک غفلتیں بھی کر رہے ہیں، جو کہ درست نہیں، لیکن مجموعی طور پر سرکاری پابندیوں کے سبب کسی حد تک روک تھام موجود ہے۔

اسی روک تھام کی چھاؤں میں اب شادی بیاہ کی تقریبات بھی شروع ہو چکی ہیں، پھر وہی بات ہے کہ حفاظتی اقدام، ماسک، فاصلے اور محدود شرکت کی اجازت دی گئی ہے، جس سے کافی حد تک لوگوں نے اپنے اخراجات کو محدود بھی کیا ہے۔۔۔

اس امر سے مہنگائی اور شادی کے اخراجات کے مارے والدین کے لیے ایک امید کی کرن بھی دکھائی دی ہے ۔ ورنہ ہمارے سماج میں لڑکی والے بہت زیادہ پریشان دکھائی دیتے ہیں، کیوں کہ زمانے کا دباؤ ہوتا ہے، برادری میں منہ دکھانا ہوتا ہے۔

اس لیے کھانے اور سجاوٹ وغیرہ پر بھی بہت خرچ کرنا پڑتا ہے۔ کچھ خواتین تو منہ پرہی کہہ دیتی ہیں کہ بھئی بری، جہیز تو گھر والوںکی، لیکن مہمانوں کو تو صرف کھانا ہی ملتا ہے ناں، کچھ توخیال کر لیتے۔

ایسے میں ’کورونا‘ نے جہاں ہمارے لیے بہت سی پریشانیاں، خوف اور مشکلات پیدا کی ہیں، وہیں کم از کم یہ ’سہولت‘ بھی فراہم کر دی ہے کہ محدود پیمانے پر تقریب کر کے کم خرچ میں اپنی بچیوں کی شادیاں کر دی جائیں، ونہ عام طور پر اگر کوئی ہمت کر لے کہ حالات کی مجبوری اور تنگی کی وجہ سے ون ڈش کی بات بھی منہ سے نکالتا تو،ایک  شور و غوغا مچ جاتا، باہر والے تو  دور کی بات اپنے خاندان والے ہی پیچھا لے لیتے ہیں۔

اس تمام تر معاملے میں خواتین کو سب سے زیادہ اپنی ’ناک‘ کی فکر ہوتی ہے۔ ایک طرف میکے اور سسرال میں اپنی سیوا کرانی ہے، تو دوسری طرف ’سمدھیانے‘ کو بھی اپنی شان دکھانی ہے۔ یوں یہ سارا دباؤ ایک طرف سے دوسری طرف اور دوسری طرف سے تیسری طرف بہ ذریعہ خواتین بڑی تیزی سے پھیلتا ہے، کیوں کہ یہ چیز خواتین کے درمیان باہمی طور پر بہت زیادہ بڑا مسئلہ بنتی ہے۔ زیادہ تر وہی اس چیز کو بڑھاوا دیتی ہیں، کہ کل میں نے فلاں کی شادی میں یہ میخیں نکالی تھیں، اگر آج میرے گھر میں کوئی کمی بیشیہوئی تو مجھے ’’جوابی حملے‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عام حالات میں یہ تمام صورت  حال ایک مشکل منظر بنا دیتی ہے، لیکن کورونا کی وجہ سے جاری سرکاری سختی میں اس وقت بچت کا ایک راستہ موجود ہے کہ جس میں عیب جوئی کرنے والے بھی کچھ نہیں کہہ سکیں گے۔

دراصل معاشرے میں بڑھتی ہوئی نمود و نمایش اور سادگی کے فقدان کی وجہ سے بہت سے لڑکے والے بھی اس پریشانی میں ہیں۔ مہمانوں کی توقع ہوتی ہے کہ ولیمے کا کھانا، وداع کی دعوت سے بھی شان دار ہونا چاہیے، ورنہ سبکی ہو جائے گی۔۔۔ آخر لڑکے والے جوہوئے۔ بعض گھرانوں میں تو شادی کی  دعوت کھانے کے بعد ولیمے میں دو تین اضافی ڈشیں رکھی جاتیں،کہ کم سے کم گنتی میں تو لڑکی والوں سے پلہ بھاری رہے۔

آج کل کھانے کے ساتھ جدت پسندوں نے تقریب کے شروع ہونے سے آخر تک مختلف لوازمات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ جیسے موسم کی مناسبت سے ’’ویلکم ڈرنک‘‘ کے نام پر  رنگ برنگے مشروبات فالودہ، آئس کریم، چکن سوپ، کافی اور کشمیری چائے وغیرہ پیش کیے جاتے ہیں۔

پیسے کے اس کھیل میں اگر کوئی پستا ہے تو وہ طبقہ، جو جیسے تیسے معاشرے میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہوتا ہے۔ فریضۂ شادی ایک سادہ عمل ہونا چاہیے جسے  لوگوں نے پیچیدہ بنا دیا ہے کہ دونوں خاندان اخراجات کے بوجھ تلے دبتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اب چاہے قرض لیں یا کوئی قیمتی چیز فروخت کریں، ان کے اندر اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ان فرسودہ رسومات کے خلاف سینہ سپر ہو سکیں۔

ادھر خواتین بھی اپنا حصہ ان کو مہمیز لگانے کے لیے ہی ڈالتی ہیں، بہت سے گھرانوں میں انہی کی ایما پر بہت سے اخراجات بڑھائے جاتے ہیں، جب کہ اگر دونوں خاندان کی خواتین اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان فضول خرچیوں کے آگے روک لگائیں تو یہ خاصا بہتر ہو سکتا ہے۔

شادیوں میں بے جا اسراف روکنے کے لیے ماضی میں حکومتی سطح پر مختلف قوانین منظور کیے جاتے رہے، لیکن کیا ہم ہر چیز کے لیے سرکار کی جانب سے منادی کا انتظار کریں گے کہ  اوپر سے ہی کوئی قدغن لگے، اس کے بنا ہم اپنے شادی بیاہ جیسے مسائل بھی خود حل نہیں کر سکتے۔  اب کورونا کے سبب جو قدغن لگی ہے، لوگوں کو چاہیے کہ جب کورونا سے چھٹکارا مل جائے تب بھی اسی سادگی کو پروان چڑھائیں۔ بالخصوص صاحب حیثیت افراد کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر مثال قائم کریں اور اپنے سے کم رتبے کے لوگوں کی زندگیوں کو آسانی فراہم کریں۔

اگر وہ یہ قدم اٹھائیں گے تو کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا، کم حیثیت کے فرد پر ہر شخص طعنہ مارتا ہے، کیوں کہ دراصل وہ اپنی مجبوری کی وجہ سے ہی ’سادگی‘ میں پناہ لیتا ہے۔ یہ امر اب مرکزی طور پر خواتین کے اوپر ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس احسن قدم اور اچھی سوچ کو پروان چڑھائیں اور ’ایس اوپیز‘ کے بعد بھی شادیوں کے اخراجات کو قابو میں رکھنے کے لیے مدد کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔