تعلیم یافتہ عورت ہر لحاظ سے بہتر ہے!

شائستہ سعید  منگل 12 جنوری 2021
1990ء میں کویت جیسے ملک میں بھی خواتین کو جنگی تربیت کے لیے تیار کیا گیا

1990ء میں کویت جیسے ملک میں بھی خواتین کو جنگی تربیت کے لیے تیار کیا گیا

باہر گہرے بادل تھے لیکن بیگم اختر کی آنکھ بہت سویرے کھل گئی تھی۔ وہ لان میں آکر ٹہلنے لگیں کہ اچانک باہر سے انھیں کسی کے رونے کی آواز آئی۔

دروازے سے جھانک کر دیکھا، تو بشراں، جو ان کے گھر صفائی کرنے آتی تھی، بیٹھی دھاروں دھار رو رہی تھی۔ دو سہمے ہوئے چھوٹے بچے اس سے لپٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے گیٹ کھول کر دیکھا بشراں کے چہرے اور بازوؤں پر چوٹوں کے گہرے نشانات نظر آرہے تھے۔ انھوں نے گھبراکر پوچھا’کیا ہوا؟ اندر تو آؤ!‘بشراں آنسو پونچھتے ہوئے بولی ’بیگم صاحبہ میں تو اذان کے وقت سے یہاں بیٹھی ہوں۔

خانساماں نے کہہ دیا تھا بیگم صاحبہ سورہی ہیں میں اندر نہیں آنے دوں گا۔ ‘ بیگم اختر بے چین ہوکر بولیں ’ہوا کیا یہ تو بتا، تیرے شوہر نے تیری درگت بنائی ہوگی۔‘ بشراں غصے سے بولی ’ہاں کم بخت ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو پیسے چھیننے کے لیے مارتا پیٹتا ہے، لیکن اس دفعہ بہت ہی زیادہ مارا ہے۔

دو دن سے نشہ نہیں کر پایا تھا۔ گھر میں پیسہ نہیں تھا۔ رات کو کھانا بھی نہیں پکایا تھا۔ پانچوں بچے تو بھوکے سوگئے تھے، جب اس نے بہت زیادہ مارا پیٹا تو یہ چھوٹے بچے باپ سے دور ہوگئے ، بڑے تینوں بھاگ گئے۔

معلوم نہیں کہاں گئے میرے بچے۔ بیگم صاحبہ میری لڑکی جوان ہے۔ یہ چھوٹی کہتی ہے ابا نے جب جھونپڑی سے سب کو نکالا تھا تو باجی کو سامنے کی جھونپڑی کا مزدور جو اکیلا رہتا ہے کھینچ کر لے گیا تھا۔

اس کی جھونپڑی بھی خالی ہے وہ منحوس میری بچی کو بیچ دے گا بیگم صاحبہ میں کیا کروں؟‘ بشراں نے اپنی دکھ بھری کہانی جیسے ایک ہی سانس میں سنادی اور اب وہ تڑپ تڑپ کر رورہی تھی۔

بیگم صاحبہ نے پریشانی کو چھپاتے ہوئے کہا ’ تو اتنی پریشان کیوں ہوتی ہے، ذرا سانس لے ، اپنی چوٹوں پر دوا لگوا، چائے پی گھبرا مت ، تیرے شوہر کو بلا کر بات کریں گے۔‘ لیکن وہ بے حال روتی رہی۔ بیگم اختر سوچنے لگیں۔ اس مہینے میں تیسرا چوتھا موقع ہے کہ یہ عورت اس طرح شوہر کے تشدد کا شکار ہوئی ہے۔

اس دنیا میں خاص طور پر ہمارے یہاں نجانے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو طرح طرح کے ظلم و ستم کا شکار ہو رہی ہیں۔ جو نہ کسی سے کچھ کہتی ہیں نہ کوئی ان کے لیے کچھ کرتا ہے۔ بس ظلم سہتی رہتی ہیں۔ پہلے باپ کے گھر اور پھر شوہر کے گھر اور پھر ساتھ ساتھ دنیا کا یہ بھی اصرار ہوتا ہے اور ان کے دل میں بٹھا دیا جاتا ہے کہ ’ جس گھر ڈولا جائے گا وہاں سے پھر عورت کا جنازہ ہی نکلے گا۔‘

ہماری عورت ہر طرف ہر موڑ پر، ہر چوراہے پر، گھرکے اندر، گھرکے باہر، ہر جگہ ظلم اور تشدد کا شکار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغرب میں عورت بڑے مزے میں ہے، لیکن وہاں بھی عورت بڑی مشکل کا شکار ہے۔

بظاہر وہ خود مختار نظر آتی ہے، لیکن دراصل وہ تنہائی کے ایسے گڑھے میں دھنسی چلی جا رہی ہے، جہاں اس کا مرد ساتھی بھی اس کا مددگار نہیں ہو پا رہا اور نہ ماں باپ اور بہن بھائی، کیوں کہ وہاں کسی کو دوسرے کی پروا نہیں۔ ہمارے یہاں عورت کو اس کے اپنے اصلی روپ میں یعنی کہ مثالی عورت کے روپ میں ہی قبول کیا جاتا ہے، ورنہ اس کو بے راہ رو قرار دیا جاتا ہے۔

عورت کا مثالی روپ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی انتہائی اطاعت شعار، محنتی اور خاتون خانہ ہو اور گھریلو ہی رہے، حالاں کہ عورت کا یہ تصور وقت کے ساتھ بدلنا چاہیے۔ اس مہنگائی کے دور میں گھر کا ایک فرد کمائے اور سب کھائیں ممکن نہیں رہا ہے۔

اب یہ ضروری ہے کہ گھر میں لڑکے لڑکیاں سب کسی قابل بنیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم دلوائی جائے۔ تعلیم کے معاملے میں اگر لڑکا لڑکی دونوں کو پڑھانے کا مسئلہ ہے، تو عام طور پر لڑکوں کو لڑکیوں کی تعلیم پر ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ بہت سے ماں باپ کے خیال میں لڑکی اگر تعلیم بھی حاصل کرلے تو اسے نوکری نہیں کرنے دی جائے گی۔ یہ فرسودہ خیالات اب تک ہمارے یہاں پرورش پارہے ہیں۔

یہ فرض کرلینا کہ اگر عورت ملازمت کر رہی ہے یا تعلیم یافتہ ہے تو وہ گھر کے کام میں دل چسپی نہیں لے گی، یہ عورت پر سراسر ظلم ہے۔ حالاں کہ یہ بات تحقیق کے ذریعہ بھی سامنے آئی ہے کہ اکثر وہ عورتیں جو ملازمت کرتی ہیں وہ اپنے گھر اور بچوں کے بارے میں زیادہ ذمہ داری محسوس کرتی ہیں بہ نسبت ان عورتوں کے جو ہر وقت گھر پر ہی رہتی ہیں۔ جہاں تک عورتوں کے باہر کام کرنے کا سوال ہے، تو عورتیں امورِ خانہ داری کے علاوہ ہمیشہ مردوں کے ساتھ کام کرتی رہی ہیں۔ ہمارے یہاں آج بھی ہماری 60 فی صد آبادی جو گاؤں میں رہتی ہے، کھیتوں میں مرد اور عورتیں ساتھ کام کرتے ہیں۔

پرانے زمانے میں جنگوں کے دوران عورتیں نرسوں کی حیثیت سے کام کرتی تھیں، بلکہ عورت نے بہت جگہ پہلی دفعہ باقاعدہ باہر جا کر کام نرس کے پیشے سے ہی شروع کیا تھا۔ وہ کام آج بھی کرتی چلی آرہی ہے۔ وہ مذہبی جنگیں رہی ہوں یا ملکوں کے پھیلاؤ کی جنگیںعورت ہر جگہ جنگی زخمیوں کی تیمار داری کے لیے موجود رہی ہے۔ پرانے زمانے کی بات تو الگ ہے۔ موجودہ جنگوں میں بھی عورت نے فعال کردار ادا کیا ہے۔

مشہور ادیبہ اور جرنلسٹ جیرالڈن بروکس مشرق وسطیٰ کی جنگ میں عورتوں کے کردار کے بارے میں اپنی تازہ ترین کتاب ’نائن پارٹس آف ڈیزائر‘ (خواہشوں کے نو پہلو) میں لکھتی ہیں کہ جب 1990ء میں کویت پر عراق کا حملہ ہوا تو کویت کی حکومت نے اپنی فوجی قوت بڑھانے کے لیے عورتوں کو بھی فوج میں آنے کی دعوت دی اور 72 عورتیں فوج میں شامل ہوگئیں، انھوں نے تربیت حاصل کی۔ چادر اور چار دیواری میں رہنے والی ان عورتوں نے مشقوں میں حصہ لیا۔ یہ عورتیں روزانہ چار میل کی دوڑ لگاتی تھیں۔

روزانہ ورزش کرتی تھیں۔ ہیلی کاپٹر سے پیرا شوٹ پہن کر اترنے کی مشقیں کرتی تھیں۔ بندوق، پستول چلانا سیکھتی تھیں حتیٰ کہ مشین گنیں چلانے کی مشقیں بھی کرتی تھیں۔ بروکس کی اس تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت ہر طرح کا کام کر سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے مواقع دیے جائیں۔

ہمارے معاشرے میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ابھی بہت مراحل طے کرنے ہیں۔ وہ پیدائش ہی سے ایک بوجھ تصور کی جاتی ہے۔ اکثر گھروں میں بھائیوں کی نسبت کم حیثیت پاتی ہے۔ بعض جگہ تو کھانے تک کی بہتر چیزیں کھانے کو نہیں دی جاتیں کیوں کہ لڑکا اچھی غذا کا مستحق ہے۔ آج بھی ایسے گھر موجود ہیں جہاں صبح کے ناشتے میں لڑکوں کو دودھ دیا جاتا ہے اور لڑکی کو چائے اور باسی روٹی۔ پھر تعلیم کے باب میں بھی اسے لڑکوں سے کم درجے پر پایا جاتا ہے۔ اسکول بھیجنے سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھیجنے تک لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔

لڑکی اگر تعلیم حاصل کر بھی لیتی ہے، تو کسی پیشے میں مستقبل بنانا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ بقول لوگوں کے عورت کی اصل ذمہ داری تو گھر سنبھالنا اور چولھا ہنڈیا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ جہیز کی لعنت بھی موجود ہے۔ ماں باپ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو پہلے تعلیم دلاؤ، پھر اچھے سے اچھا جہیز دو لہٰذا دہری مصیبت۔ پھر نوکری کے قابل ہوں گی تو بیاہ کر دوسرے گھر چلی جائیں گی لہٰذا اتنا خرچ کریں بھی یا نہیں۔

شادی کے بعد عورت سسرال اور شوہر کی دست نگر ہوجاتی ہے۔ اگر بچے نہیں ہو رہے ہوں تو پھر پورا معاشرہ اس کی ذاتی زندگی میں مخل ہوتا ہے، کبھی طنز کرکے کہ ’ اس کے ہاں تو بچہ نہیں ہوا، کبھی ترس کھاکر ، کاش اس بے چاری کے ہاں بھی اولاد ہوجاتی‘ دونوں طریقوں سے اثر ایک ہی ہوتا ہے کہ دل میں تیر لگتا ہے۔ بچے کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے شوہر کا کردار بالکل نہیں دیکھا جاتا ہے۔

پھر اگر بیٹی کی پیدائش ہوگئی اور ایک دو تین تو لیجیے، یہ مسئلہ بھی پیچیدہ ہوگیا کہ اس کے نرینہ اولاد کیوں نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسا ناکردہ گناہ ہے، جس کی سزا وہ بعض دفعہ زندگی بھر بھگتتی رہتی ہے۔ اس معاملے میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ شوہر اور سسرال سے بہت کم فرق پڑتا ہے۔ اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اور بے چاری عورت سوائے شرمندگی کے اور کچھ نہیں کہہ پاتی۔

عورت کو اپنے حقوق حاصل کرنا تو بڑی بات ہے، اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے حقوق ہیں کیا؟ ہمارے یہاں کی رسم و روایات ایسی ہیں کہ عورت اپنے حقوق کے بارے میں بات ہی نہیں کر سکتی۔ شادی سے پہلے باپ اور بھائی اس کی ہر طرح کی ذمہ داری اور اس کی زندگی کے ہر فیصلے کا حق رکھتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ لڑکی یا بہن کی شادی بھی اپنی پسند سے کرتے ہیں۔ اگر لڑکی اپنی شادی کے بارے میں پسند نا پسند کی بات کرے تو بے حیا ، بے راہ رو کہلاتی ہے۔

رہا حق وراثت کا معاملہ تو اگر لڑکی اپنے باپ کی جائیداد میں سے حصہ مانگنے کی بات کرے اپنا حق مانگے تو وہ معاشرے کی نگاہ میں بری کہلائے گی کیوں کہ جہیز لینے کے بعد لڑکی کا ہرحق ختم ہو جاتا ہے۔ پھر وہ والدین کی کسی چیز کی حق دار نہیں رہتی۔ رہا لڑکا تو اس سے تو نسل چلتی ہے، وہ والدین کی ہر چیز کا حق دار ہے۔ وہ گھر بھی اس کا اپنا گھر ہے وہاں کی ہر چیز اس کی ہے۔ لڑکی والدین کے گھر پرایا دھن ہے اور سسرال میں اس کی حیثیت بچوں کی ماں، فلاں کی بیوی اور فلاں کی بہو سے زیادہ نہیں۔ وہ خود کیا ہے یہ اسے مرتے دم تک نہیں پتا چلتا۔

ہمارے یہاں کی عورت زندگی بھر ایک خول میں پھنسی رہتی ہے۔ جہالت کا خول اور ایک معما، جس میں اس کی اصل حیثیت نکل کر نہیں آتی۔ اس سے اتنی توقعات رکھی جاتی ہیں کہ ہر عورت مثالی نمونہ ہو، حالاں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کو یہ اندازہ ہو وہ کیا ہے؟ اس کے حقوق کیا ہیں؟ وہ کیا کرسکتی ہے؟ اس میں کتنی صلاحیتیں ہیں؟ انھیں وہ کس طرح استعمال میں لاسکتی ہے۔

ان سب کے لیے ضروری ہے کہ عورت کی تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے جو شخصیت کی تعمیرکا اتنا اہم جزو ہے جس سے اسے زندگی کے نشیب و فراز اور اصلیت کا اندازہ ہوگا۔ تعلیم کی کمی کی بنا پر اکثر لڑکیاں زندگی کو افسانہ سمجھتی ہیں جس کی وہ ہیروئن ہیں اور ان کے ساتھ کوئی کیا ظلم کر رہا ہے اور ان کے حقوق کس طرح غضب کیے جا رہے ہیں، ان تمام باتوںکی آگہی کے لیے لڑکیوں کی تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے، کیوں کہ اگر ایک لڑکے کو تعلیم دی جاتی ہے، تو ایک فرد تعلیم حاصل کرتا ہے اور اگر ایک لڑکی کو تعلیم دی جاتی ہے، تو ایک خاندان تعلیم حاصل کرتا ہے، یعنی تعلیم یافتہ ماں ہر حال میں غیر تعلیم یافتہ ماں سے بہتر ہوتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔