بچوں کے لیے عملی کردار بنیں

نسرین اختر  منگل 12 جنوری 2021
یہ طریقہ زبانی بتانے سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے

یہ طریقہ زبانی بتانے سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے

بچوں کے سب سے پہلے استاد والدین ہوتے ہیں۔ بچے کتابوں اور کلاس روم سے کہیں زیادہ باتیں اپنے والدین سے سیکھتے ہیں۔

والدین جو سب سے اہم باتیں اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں ان میں ایسے ہنر اور خیالات ہوتے ہیں، جو ساری زندگی ان کی راہ نمائی کرتے رہتے ہیں اور جن کو اپناکر وہ ایک کام یاب اور خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔

سب سے پہلے تو والدین بچے کو عزت و احترام کے حوالے سے بتاتے ہیں۔ پیدائش کے بعد سے ہی جب والدین دوسروں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے ہیں اور خاص کر اپنے بچوں کے ساتھ تو بچے ان کا مشاہدہ کرتے ہیں اور خود بھی ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھروسا، عزت و احترام اور ایمان داری، والدین روزانہ کی بنیاد پر انہیں سکھاتے اور بتاتے ہیں۔ جب والدین کسی سوال کا جواب دینے کے لیے اپنے بچے کو وقت دیتے ہیں تو وہ گویا بچے کو یہ سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ یہی کرنا ہے جو بچے دوسروں کا احترام کرتے ہیں، وہ بڑے ہو کر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ پر لفظ شکریہ نقش ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ معمولی سی بات پر بھی کسی کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولتے اور یوں وہ خوش اخلاق انسان بن جاتے ہیں۔
یوں تو والدین غیر محسوس طریقے سے ہی روزانہ ہی بچے کو کچھ نہ کچھ بتاتے ہی رہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بچے کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اس کے خیالات اور ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

دراصل بات چیت یا گفتگو کی صلاحیت سے بچے کو آگے کی زندگی میں بہت مدد ملتی ہے، چوں کہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ سامنے والا کیا چاہتا ہے اور کس طرح اس سے نمٹنا ہے، لہٰذا وہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے طے کرلیتا ہے۔ بچے کے پاس گفتگو کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں اور وہ گفت و شنید کو اپنا ایک اچھا ہتھیار سمجھتا ہے۔ جوں ہی اسے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا ہے۔

جہاں سمجھوتا کرنے سے بات بن سکتی ہے تو وہ سمجھوتا کرلیتا ہے۔ اپنی عمومی گفتگو کے ذریعے بھی والدین بچے کو ہر وقت اور ہر جگہ کوئی نہ کوئی بات سکھاتے ہیں۔ مثلاً جب گھر کے افراد کھانے کی میز پر یا فرش پر بچھے دستر خوان پر جمع ہوتے ہیں تو یہ وقت ہوتا ہے یہ بتانے کا کہ کھانے کی میز کے آداب کیا ہوتے ہیں۔

بچہ کھانے کی میز پر کوئی ایسی بات نہیں کرتا، جو ادب و آداب کے خلاف ہو، کیوں کہ خود والدین اور گھر کے دیگر افراد بھی ادب و آداب کا خیال رکھتے ہیں اور بڑوں کا یہ عمل بچے خود بخود سیکھتے ہیں۔ انہیں بہت زیادہ بتانے یا سمجھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

بچوں کے اندر دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ شروع سے ہی ہونا چاہیے۔ اس کے لیے بھی خود والدین کو عملی طور پر ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ دوسروں کے لیے قربانی دینا اور چیزوں کو کسی دوسرے زاویے سے دیکھنے کی تعلیم بچے کو بچپن میں ہی دینی شروع کر دینا چاہیے۔ بعض اوقات تو والدین کو اس بات کا پتا بھی نہیں چلتا ہے اور وہ بچے کو اس کی تعلیم دے بھی چکے ہوتے ہیں۔

ضرورت کے وقت دوست کے کام آنا، مستحق افراد کی مدد کرنا، جانوروں کے ساتھ رحم دلی سے پیش آنا، یہ سب ہمدردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ والدین اگر بچے کے سچے جذبات کی اچھی طرح عکاسی کرتے ہیں، تو یہ بھی اسے کچھ نہ کچھ سکھانے کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

مثلاً اگر بچہ کھانے میں، کپڑے پہننے میں یا اور کسی بات پر نخرے کرتا ہے یا کسی بات پر اڑ جاتا ہے، تو ایسے میں اسے نظم و ضبط سکھانے اور ادب و آداب بتانے کے بہ جائے ہلکے پھلکے انداز میں سکھانے کی کوشش کریں، مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ ’’ارے ! تم اس حالت میں ذرا بھی اچھے نہیں لگتے‘‘ اس سے اسے احساس ہوگا کہ اس کے غصے یا نخرے سے اس کے والدین واقف ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ میں ان سے ناراض ہوں۔ بچوں کے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ اس کے کسی بھی عمل سے والدین کو تکلیف نہ پہنچے۔

والدین بچوں میں یک جہتی کا جذبہ بھی پیدا کریں، یک جہتی کا احساس جو والدین اپنے بچوں میں پیدا کرتے ہیں ان کے سامنے آگے چل کر ایک بہترین عمل سامنے آتا ہے۔ یک جہتی عملاً خاندان کے اندر مثال کے طور پر سمجھائی جا سکتی ہے۔ بچے ہر بات کے لیے اپنے والدین کی طرف دیکھتے ہیں جو والدین بچوں میں ایمان داری اور محنت کی اہمیت اجاگر کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔

ان کے بچے بڑے ہو کر ان کے لیے ایک تحفہ ثابت ہوتے ہیں۔ والدین جو کہتے ہیں، وہی کرتے ہیں، تو یہ بچوں کے سامنے ایک رول ماڈل ہوتا ہے اور بچے بھی اپنے قول و فعل میں تضاد نہیں رکھتے ہیں، جو والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ جھوٹ بولنا، کسی کو ستانا ، بے ایمانی کرنا، برا بھلا کہنا، چوری کرنا وغیرہ بری بات ہے ان کوخود بھی اس طرح کی باتوں سے دور رہنا چاہیے اور کبھی کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہیے۔ بچے بتانے سے زیادہ عمل سے سیکھتے ہیں۔

بچوں کو ابتدائی عمر سے اخراجات اور بچت کے بارے میں پتا ہونا چاہیے۔ پیسے کی اہمیت کو سمجھنے والے والدین بچے میں سب سے پہلے اس حوالے سے آگاہی پیدا کرتے ہیں۔ بچے جب چار سال کے ہو جائیں، تو ان سے گھر کے چھوٹے موٹے کام لیے جائیں اور ان کو بطور وظیفہ کچھ پیسے دیئے جائیں۔ اس طرح اس میں پیسہ کمانے پر کتنی محنت لگتی ہے اس کا احساس پیدا ہوگا۔

والدین بچے کو بتائیں کہ گھر کے اخراجات کیا کیا ہیں اور بل یا کرائے پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ بچوں کو سکھائیں کہ پیسے کی بچت بہت ضروری ہے، پیسے بچاکر ضرورت کی کوئی چیز خریدی جا سکتی ہے یا کسی ضرورت مند کی مدد بھی کی جا سکتی ہے یہ عمل خدا کو بھی پسند ہے۔ بچوں میں بچت کا رحجان پیدا کرنے کے لیے انہیں گُلک لادیں اور روزانہ ملنے والے پیسوں میں سے کچھ پیسے اس گلک میں جمع کرنے کی ترغیب دیں اور انہیں بتائیں کہ فضول خرچی سے بچنا بہت اچھی عادت ہے۔ اس عادت کے باعث انسان کبھی تنگ دست نہیں ہوتا۔

ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے وقت کی پابندی بھی ضروری ہے۔ والدین بچے کی اس طرح پرورش کرتے ہیں کہ وہ کام یاب رہیں جب کہ وہ اسی دوران توقعات بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ ایک ہدف مقرر کرلیں اور جب تک وہ حاصل نہ ہو جائے، دوسرے ہدف کی طرف نہ بڑھیں۔ اس طرح بچے کا ذہن ایک طرف ہوگا اور وہ بات کو مکمل طور پر سمجھ جائے گا۔

والدین کو چاہیے کہ وہ وقت کی پابندی کریں جو والدین پروفیشنل ہوتے ہیں وہ روٹین پر چلتے ہیں اور خاندان کو بہتر انداز میں لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ وہ ایسا کر کے بچے کو بتاتے ہیں کہ کس طرح قبل از وقت ایک بات سوچ لی جائے، تو وہ آگے چل کر کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو عملی طور پر بہت کچھ سکھا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔