ایران القاعدہ کی نئی پناہ گاہ اور مرکز بن چکا ہے، امریکی سیکریٹری خارجہ

ویب ڈیسک  بدھ 13 جنوری 2021
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ان خیالات کا اظہار واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب میں کیا، فوٹو : فائل

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ان خیالات کا اظہار واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب میں کیا، فوٹو : فائل

 واشنگٹن: امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا نیا مرکز بن چکا ہے۔

واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب سے خطاب کرتے ہوئے پومپیو نے کہا کہ القاعدہ نے تہران کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا ہے اور تنظیم کے سربراہ ایمن الظواہری کے کئی نائبین ایرانی دارالحکومت میں موجود ہیں۔

پومپیو نے کہا کہ ایران اور القاعدہ کے مابین 2015 کے بعد سے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوئے ، جس وقت امریکا اور دیگر مغربی قوتوں کے ساتھ اس کا جوہری معاہدہ طے پارہا تھا۔ اس کے بعد سے ایران نیا افغانستان بن چکا ہے اور القاعدہ کے مرکز کی صورت میں یہ اس سے بھی بدترین ثابت ہوگا کیوں کہ افغانستان میں تو القاعدہ پہاڑوں اور ویرانوں میں کام کرتی تھی، لیکن یہاں اسے ایرانی حکومت کی چھتر چھایا حاصل ہوجائے گی۔

آئندہ ہفتے تک اپنے عہدے سےسبکدوش ہونے والے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ پوری دنیا کو تہران پر اپنا دباؤ بڑھانا ہوگا تاہم انہوں نے کسی فوجی کارروائی سے محتاط رہنے کا عندیہ دیا۔ واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے الزامات اور دعوے سے متعلق کوئی ثبوت تاحال فراہم نہیں کیا۔

اُدھر ایران نے امریکی سیکریٹری خارجہ کے بیان کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ کیوبا سے لے کر ایران کے ’راز افشا‘ کرنے اور القاعدہ جیسے دعوؤں سے امریکی وزیر دفاع اپنی تباہ کُن مدت کو جنگ کے لیے مشتعل کرنے والی کذب بیانی پر ختم کررہے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پومپیو کے بیان کے درپردہ مقاصد کچھ اور پیغام دینا ہے۔ دراصل 2001 میں امریکا میں منظور ہونے والے قانون اے یو ایم ایف کے تحت القاعدہ کی موجودگی کی صورت میں  امریکی فوج کو دنیا کے کسی بھی ملک کے اندرکارروائی کا اختیار دیا گیا تھا۔

مبصرین کاکہنا ہے کہ پومپیو کی جانب سے ایران میں القاعدہ کی موجودگی کا بیان دراصل بالواسطہ طور پر جنگ کی دھمکی ہے تاہم صدر ٹرمپ کی مدت ختم ہونے میں ایک ہفتہ باقی ہے اس لیے ایسے بیانات وقتی تلاطم پیدا کرنے سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکیں گے تاہم ٹرمپ انتظامیہ اگر اس حوالے سے ثبوت سامنے لے آتی تو جوبائیڈن کی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا تھا کیوں کہ بائیڈن اپنے سابق صدر اوباما کی طرح ایران سے جوہری تنازعات پر بات کرنے کی طرف مائل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔