کورونا وائرس کی تیسری لہر

ایڈیٹوریل  جمعرات 14 جنوری 2021
حکومت نے محدود وسائل اور ناقابل بیان معاشی مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود پہلی لہرکا سامنا کیا۔ فوٹو:فائل

حکومت نے محدود وسائل اور ناقابل بیان معاشی مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود پہلی لہرکا سامنا کیا۔ فوٹو:فائل

کورونا وائرس نے نوع انسانی کو بے رحمی سے جکڑ رکھا ہے۔ عوام نے گزشتہ مارچ 2020 جس اذیت و آزمائش، معاشی مشکلات اور بے یقینی کے خدشات اورکشمکش میں گزارا وہ کورونا کی وحشت اور دہشت کی کھلی کتاب بن گیا ہے۔

کورونا نے سماجی شکست وریخت کی اندوہناکی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، صحت کا انفرا سٹرکچر تباہ ہوا، جو رہی سہی عوامی استقامت تھی اسے بھی اب بھوک،بے روزگاری اور مہنگائی نے تیسری لہرکے خطرہ سے دوچار ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ اور ہلاکتوں کے اثرات ہمہ جہتی ہوئے ہیں۔ ووہان سے جنم لینے والے جرثومہ نے انسانی صحت، ملکی معیشت واقتصادیات اور سیاسی سسٹم پر جو تابڑ توڑ حملے کیے اس کی زیر زمیں زلزلہ جاتی گڑگڑاہٹ سیاست کے ایوانوں میں سنائی دی۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن سے دوکروڑ سے زاید محنت کش طبقات شدید معاشی مصائب کا شکار ہوئے، دنیا میں غربت بڑھی، ترقی یافتہ اور خوشحال ہنر مند اور آسودہ حال لوگ رفتہ رفتہ کورونا کے وبائی حملوں سے نیم جان ہوگئے۔

حکومت نے محدود وسائل اور ناقابل بیان معاشی مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود پہلی لہرکا سامنا کیا، ماسک، سماجی فاصلہ اور ہجوم سے گریزکی حکومتی پابندیوں کو قبول کیا لیکن یہ وائرس تلخ ترین تجربات کے حوالے سے اب تک آنے والے وبائی اثرات ومضمرات کے تناظر میں دل دہلانے والا ثابت ہوا۔ اس کا دورانیہ اعصاب شکن، ویکسین کی تیاری اور اس کے استعمال نے اعجاز نفس مسیحاؤں کو بے بس کرکے رکھ دیا۔ عالمی ادارہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیاری ایک بریک تھرو ہے تاہم اس کا استعمال اور عالمگیر تباہ کاریوں نے دنیا کے ماہرین صحت کو الجھن میں ڈال رکھا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے دوا کی اجتماعی مدافعت کے حصول کے بارے میں کہا ہے کہ کوئی یقینی رائے دینا ممکن نہیں،کئی ممالک اسے سیاسی تحفظات کے باعث نسخہ کیمیا ماننے پر تیارنہیں، ایران بھی اسی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اسی سیاق وسباق میں اب تیسری لہر کے خدشات نے پاکستانی عوام کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے جس کی بنیادی وجہ ملکی معیشت اور سیاست کورونا کے متوازی کئی چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ عوام سسٹم کے استحکام کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔

غریبی اور امیری کا فرق کے ٹو کے پہاڑ سے بلند ہوتا جا رہا ہے۔کرپشن کی ڈورکا سرا ارباب اختیار کی گرفت میں آئے تو بہت سارے مسئلے حل ہوسکتے ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی اقتصادی اور معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے حکومت کے اور اس کی معاشی ٹیم کے پاس کرسٹیانو رونالڈو جیسی شوٹنگ پاور بھی ہو، حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے ٹھوس اقدامات اور واضح لائحہ عمل بھی ہو جب کہ کورونا کی تیسری لہرکا عندیہ الارمنگ ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے حفاظتی تدابیر پر مستقل مزاجی سے عمل کرنے کی ہدایت عوام کے لیے بروقت ہے مگر حکومت عوام کو وہ سہولتیں، مالی مدد اور معاشی سپورٹ بھی مہیا کرے، اسے موجودہ سیاسی صورتحال سے نکالنا بھی کورونا کی تیسری لہر سے بڑا امتحان ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کورونا سے جڑے انسانی مسائل ملکی سیاست ومعیشت سے بھی منسلک ہیں۔کورونا نے شہریوں کو رزق کی تنگی سے بھی پریشان کردیا ہے، لوگ مہنگائی سے بہت دل گرفتہ ہیں، معاشی مسیحاؤں کی سرکاری ٹیموں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ مارکیٹ اکانومی کی کونسی خرابی کی اصلاح کریں۔

مہنگائی کسی کے کنٹرول میں نہیں آرہی، چینی، آٹا ،گھی ،خوردنی تیل، برانڈڈ خشک دودھ اور مشروبات مہنگے ہوگئے، کل ہی ارباب اختیار سستی چینی کی خوشخبری دے رہے تھے، 80 روپے کلو چینی اور آٹے کی قیمت میں کمی کی یقین دہانی کرا رہے تھے کہ آٹے اور چینی مافیا حرکت میں آگئی اور اب اطلاع ہے کہ دام سو روپے فی کلو تک پہنچ چکے ہیں۔ صارفین کا کہنا ہے کہ کسی چیزکو قرار نہیں، دام میں اضافہ راتوں رات ہوجاتا ہے کوئی اتھارٹی نہیں جو عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچائے۔ اب ایسی صورتحال میں کورونا کی تیسری لہرآگئی تو عوام کس سے فریاد کریں گے،بقول شاعر

ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد

وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا

گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ مزید51 افراد جاں بحق ہوگئے۔ 1742نئے مریض رپورٹ ہوئے۔ مجموعی اموات 10ہزار 739اور مصدقہ متاثرین کی تعداد 5لاکھ 7 ہزار823 ہوگئی ہے۔4 لاکھ64 ہزار 331 مریض شفایاب ہو چکے ہیں۔ اس وقت ملک میں کورونا فعال مریضوں کی تعداد 32ہزار753 ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اعدادوشمارکے مطابق اب تک سندھ میں2 لاکھ28 ہزار949 کورونا مریض ہیں۔

پنجاب میں ایک لاکھ 46 ہزار 16، خیبر پختونخوا61 ہزار 648، اسلام آباد 39 ہزار340، بلوچستان 18ہزار  467، آزاد کشمیر8521 اورگلگت بلتستان میں 4882 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے این سی او سی کے سربراہ اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی اسد عمر نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر سے ہر صورت بچنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے دوران صنعت وتعمیرات کے شعبے کوکھولا گیا، مکمل لاک ڈاؤن کے بجائے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کو اپنایا گیا۔ متاثر بیروزگار افراد پر بھی توجہ دی گئی۔

وبا کے دوران پاکستان کی پالیسیوں کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی۔ اسد عمر نے بتایا کہ وبا کے دوران ہر شخص نے مشکل سے گزارا کیا۔ وبا سے2  کروڑ افراد کا روزگار متاثر ہوا جن میں سے 29 فیصد دیہاڑی دار افراد تھے۔10فیصد گھرانے بعض اوقات ایک سے زائد دن بھوکے رہے۔ 30 فیصد گھرانے خوراک کی عدم فراہمی پر عدم تحفظ کا شکار ہوئے۔ معاشی بدحالی کے باعث54 فیصد افراد نے کھانے پینے کی اشیا کی خریداری کم کر دی۔ 50 فیصد نے سستی اشیا خریدیں یا کھانے پینے میں کمی لائے۔ 47 فیصد افراد نے بتایا انھیں جمع پونجی استعمال کرنا پڑی۔30 فیصد افراد نے قرضہ لے کرگزارا کیا۔

انھوں نے کہا کہ وبا کی دوسری لہر میں کچھ ممالک میں بہت زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ برطانیہ، امریکا میں کورونا سے جتنی اموات 2021 میں ہورہی ہیں اتنی2020 میں نہیں ہوئیں۔ پاکستان نے مکمل کے بجائے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کو اپنایا ہے۔ دسمبر کے پہلے ہفتے کے بعد وبا کا پھیلاؤکم ہوا۔ اسد عمر نے مزید کہا کہ حکومت کورونا ویکسین حاصل کرنے کے لیے تیزی سے فیصلے کر رہی ہے، چینی کمپنی سے بات چیت جاری ہے، جلد اچھی خبر دیں گے، کچھ ممالک میں کورونا کی تیسری لہر بھی دیکھی ہے۔

ویکسین آنے میں وقت لگے گا اور اس وقت تک ہر شخص کی ذمے داری ہے کہ وہ احتیاط کرے۔ انھوں نے ٹویٹ کیا کہ صنعتی شعبے کی ترقی میں واضح تیزی آرہی ہے۔ نومبر2019کے مقابلے میں نومبر 2020 میں صنعتی گروتھ 14.5فیصد رہی۔ ایک انٹرویو میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ پاکستان کو امید ہے کہ وہ ’’فروری کے اوائل میں‘‘ چین سے سینوفرم کووڈ19 ویکسین کی پہلی کھیپ وصول کرے گا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے فرنٹ لائن ہیلتھ کیئرکارکنوں کی رجسٹریشن شروع کردی ہے۔ ویکسین کی11 لاکھ ڈوزکی پہلی کھیپ ہیلتھ ورکرز کے لیے ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ رواں سال جون اور ستمبر کے درمیان عام لوگوں کو ویکسین کے قطرے پلائے جائیں گے۔ این سی او سی کا کہنا ہے کہ ہیلتھ ورکرز رجسٹریشن کا طریقہ کار جاننے کے لیے این سی او سی کی ویب سائٹ وزٹ کریں۔ ویکسین صرف رجسٹرڈ افراد کو ہی لگائی جائے گی۔ ایک بیان میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بتایا کہ کورونا سے مزید22 مریض انتقال کر گئے۔

1064نئے کیسز سامنے آئے۔ کل اموات3730 اور متاثرین 2 لاکھ 28 ہزار 949 ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور فرنٹ لائن پر موجود طبی ٹیموں کو وسائل، بنیادی سہولتیں دی جائیں، عوام دو لہروں سے بچ کر نکلے ہیں تو ان کو ان کی جرات وطاقت پر شاباش دی جائے، ان لاکھوں شہریوں کو جن کے گھر کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں، جو محنت کش طبقات اوپر لائے جانے کے حکومتی وعدوں کے انتظار میں ابھی تک اہل کرم کی راہ تک رہے ہیں۔

ان کی داد رسی اور راشن نقد رقم اور اسپتالوں میں ہر ممکن علاج  معالجے کی سہولتیں دستیاب ہوں۔ عوام کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے کورونا وائرس کی ستم رانیوں سے نمٹنے کے وسائل سے بھی سرفرازکریں، سچ تو یہ ہے کہ عوام کا غربت سے نروس بریک ڈاؤن ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ ارباب اختیار اور وزرا، مشیران ومعاونین خصوصی بیان بازی چھوڑکر مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ ان غریبوں سے ان کے دکھ شیئرکریں، ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ معاشرے میں عوام کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک بے درد سیاست ان کا مقدر ٹھہری ہے تو اس دلدل سے بھی ارباب اختیار ہی ان کو نجات دلاسکتے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ حکومت کورونا کی تیسری لہر کی تباہ کاریوں سے پہلے ہی اتنے وسائل مہیا کرے کہ غریبوں کو زندہ رہنے کا آسرا ہوجائے۔ ابھی عمل کا وقت ہے، عوام وعدوں پر جینے کا حوصلہ بھی ہار چکے۔ اب کوئی درکھلے ایک ایسی تبدیلی آئے جو قوم کے سارے دکھوں کا ازالہ کردے، جمہوریت یہ کام نہیں کرسکی تو ایسی جمہوریت کس کام کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔