ہندو انتہا پسندی

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 14 جنوری 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

بھارت کا مذہبی تشخص ہندومت ہے حالانکہ وہ اپنے آپ کو سیکولرکہتا ہے بدقسمتی سے بھارت کو ایسی قیادت ملی ہے جو مذہبی انتہا پسند ہے۔ نریندر مودی مسلمان دشمنی میں بہت مشہور ہے۔ گجرات میں نریندر مودی نے جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اس خونیں واقعے کوگجرات کے مسلمان اور ان کی آنے والی نسلیں کبھی نہیں بھول سکتیں۔

حیرت ہے کہ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے اس متعصب انسان کو ہندوستان کے عوام نے کس حوالے سے ہندوستان کا پردھان منتری منتخب کیا، اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مودی اینڈ کمپنی نے ہندوتوا کے نام سے جو شرانگیز اور متعصب تحریک چلائی تو عام ہندو بھی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہو گیا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں مذہب کسی نہ کسی حوالے سے ہمیشہ موجود رہا ہے مذہب اگر اعتدال پسندی کی حدود میں رہتا ہے تو وہ انسانوں کے لیے خطرناک نہیں ہوتا لیکن مذہب جب انتہا پسندی کا روپ دھار لیتا ہے تو وہ انسانوں کے درمیان نفرتوں کی آبیاری کرتا ہے آج ہندوستان میں مذہبی انتہا پسندی کا جو کلچر فروغ پا رہا ہے اس میں مودی کا بڑا کردار ہے کیونکہ مودی RSS کا نمایندہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انتہا پسندی نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا بہت خون خرابا کرایا لیکن قومی تقسیم نے دنیا کو جن تباہیوں سے دوچار کیا وہ انسانیت کے لیے اس قدر تباہ کن ہیں کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے پہلے ملک تقسیم ہوئے۔

اس تقسیم نے اپنی حفاظت کے لیے بھاری فوج رکھنے کی ترغیب فراہم کی جس پر بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے اگر اس بھاری بجٹ کو انسان کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جائے تو دنیا سے غربت کا نام و نشان مٹ سکتا ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی فراست دیکھیے کہ سرمایہ دار طبقہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دو ملکوں عموماً دو پڑوسی ملکوں میں اختلافات پیدا کرتا ہے اور ان اختلافات کو آہستہ آہستہ تصادم کی طرف لے آتا ہے، ان خطرات کی وجہ سے ایک دوسرے کے مخالف سب سے پہلے ہتھیاروں کی خریداری کی طرف آتے ہیں اور ہتھیاروں کی خریداری میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں یوں ہتھیاروں کی فروخت کی راہیں کھلتی ہیں اور ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان کی چاندی نہیں سونا ہو جاتا ہے۔

ملکوں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع کے شعبے پر خرچ ہو جاتا ہے جو دراصل غریب طبقات کا حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت دو پسماندہ ملک ہیں جہاں کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے ہیں ایسے غریب ملکوں میں دفاع پر اربوں روپے خرچنا مجبوری نہیں بلکہ ایک گہری سازش کا حصہ ہوتا ہے۔ اس فراڈ کو بے نقاب کرنے کی سب سے بڑی ذمے داری میڈیا کی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں ہر طرف ہر جگہ کرپشن ہے ہر کوئی اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، یہ تو مالدار ملکوں کا حال ہے۔ اب ذرا غریب ملکوں کی طرف آئیں ان ملکوں کا میڈیا غریب ہوتا ہے۔

ان کے اخباروں کی سیل کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے انھیں اشتہارات کم ملتے ہیں آمدنی کم اور اخراجات زیادہ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحافیوں کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں اور یہ طبقہ ہمیشہ  مالی دشواریوں کا شکار رہتا ہے۔ اس صورت حال کا ازالہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ نقصان میں چلنے والے اخبارات کی حکومت مدد کرے۔

اخبارات میں ایک اہم شعبہ کالم نگاری کا ہوتا ہے اخبارات کی کم زیادہ فروخت میں کالم کا بڑا حصہ ہوتا ہے جس اخبار میں کالم نگار اچھے ہوتے ہیں ، اس اخبار کی سیل عموماً زیادہ ہوتی ہے اور جس اخبار کے کالم پھیکے ہوتے ہیں اس کی سیل نسبتاً کم ہوتی ہے۔

سب سے زیادہ درمیانے درجے کے اخبار متاثر ہوتے ہیں جب تک اخبارات کی حکومت اشتہارات کے ذریعے اتنی مدد نہیں کرتی کہ اخبار چل سکے یہ انڈسٹری نقصان میں ہی چلتی رہے گی۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے اخبارات مشکلات کا شکار رہیں گے اور اس سے صحافی متاثر ہوتے رہیں گے۔

غریب ممالک میں صحافت نے آزادی اظہار کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں،آج ملک میں صحافت کا بڑا کردار ہے اور اس نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنے فرائض کماحقہ ادا کیے ہیں۔ صحافت ملک کا چوتھا ستون ہے، حکومت اخبارات اور صحافیوں کی بہتری کے لیے مناسب اقدامات کرے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔