سعودی عرب کا بغیر کار اور کاربن والا شہر کیسا ہوگا؟

 جمعرات 14 جنوری 2021
یہ شہر بحر احمر سے متصل ساحلی علاقے میں تعمیر کیا جائے گا جو سعودی عرب میں مستقبل کا ایک اہم تجارتی مرکز ہوگا۔ فوٹو: فائل

یہ شہر بحر احمر سے متصل ساحلی علاقے میں تعمیر کیا جائے گا جو سعودی عرب میں مستقبل کا ایک اہم تجارتی مرکز ہوگا۔ فوٹو: فائل

سعودی عرب نے صوبہ تبوک کے سرحدی علاقے میں ’ دی لاین ‘ کے نام سے کاروں سے مکمل طور پر پاک ایک نیا شہر بسانے کا عہد کیا ہے۔ اس کی تعمیر کا کام اگلے چند ماہ میں شروع ہوجائے گا۔

سعودی عرب نے اپنے وسیع تر ’ نیوم زون پروجیکٹ ‘ کے تحت کاربن سے پوری طرح پاک اسمارٹ سٹی بنانے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ شہر بحر احمر سے متصل ساحلی علاقے میں تعمیر کیا جائے گا جو سعودی عرب میں مستقبل کا ایک اہم تجارتی مرکز ہوگا۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 10 جنوری کو ٹیلی ویژن پر اس مجوزہ شہر کا خاکہ پیش کرتے وقت اس کا اعلان کیا جس کا نام ’ دی لاین‘ رکھا گیا ہے۔ محمد بن سلمان کے اعلان کے مطابق اس شہر میں کوئی گاڑی ہوگی اور نہ ہی گلیاں ہوں گی اور اس طرح یہ شہر کاربن کے اخراج سے پوری طرح پاک ہوگا۔ اس میں دس لاکھ افراد کو بسانے کی گنجائش ہوگی۔

شہر اسکول، صحت کے مراکز کے ساتھ ساتھ ہرے بھرے پارکوں کی سہولیات سے مزین ہوگا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس شہر کی تعمیر کا کام آئندہ چند ماہ میں شروع ہو جائے گا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا تھا، ’’ ہمیں روایتی شہر کے تصور کو مستقبل کے شہر میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

اربوں ڈالر کے منافع کی توقع: نیوم انتظامیہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے شہر میں تیز رفتار پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کے ساتھ ہی پیدل چلنے کی بھی سہولت ہوگی اور کسی بھی مقام پر پہنچنے میں بیس منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں لگے گا۔ بیان کے مطابق اس میں مصنوعی ذہانت کا بہت اہم کردار ہوگا، ’’ یہ سو فیصد صاف توانائی سے چلے گا، جو رہائشیوں کو آلودگی سے پاک، صحت مند اور زیادہ پائیدار ماحول مہیا کرے گا۔‘‘

یہ سعودی عرب کے شمال مغربی صوبے تبوک میں ساحل کے آس پاس تقریباً 26 ہزار 500 مربع کلو میٹر رقبے پر آباد ہونے والا پوری طرح سے نیا شہر ہوگا اور اس پروجیکٹ پر تقریباً 500 ارب ڈالر کا خرچ آئے گا۔ سرحدی علاقے میں اسے اس مقام پر تعمیر کرنے کا ارادہ ہے جو اردن اور مصرسے ملتا ہے۔ سن2017 میں جب سے نیوم پروجیکٹ کا اعلان ہوا ہے تبھی سے اس میں زبردست دلچسپی کا مظاہرہ ہوتا رہا ہے اور اسے ایک سائنس فکشن کے طور پر فروغ دیا جا رہا ہے۔

نیوم کے ایک بیان کے مطابق اس پروجیکٹ سے تین لاکھ 80 ہزار نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور سعودی عرب کی مجموعی پیداوار میں 2030 تک اس سے تقریبا ً180 ارب ریال کا اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ سعودی عرب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے تاہم عالمی سطح پر سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے۔

( بشکریہ ڈی ڈبلیو)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔