پاکستان میں شہریوں کے اپنے ہی فنگرپرنٹ ان کے لئے وبال جان بن گئے

طالب فریدی  جمعرات 14 جنوری 2021
فنگرپرنٹ فراڈ کا کیس کسی ایک شہری یا چند شہریوں کا مسئلہ نہیں بلکہ حیران کن طور پر ایف آئی اے سائبر ونگ کو روزانہ کی بنیاد پرسینکڑوں درخواستیں موصول رہے رہی ہیں: فوٹو: فائل

فنگرپرنٹ فراڈ کا کیس کسی ایک شہری یا چند شہریوں کا مسئلہ نہیں بلکہ حیران کن طور پر ایف آئی اے سائبر ونگ کو روزانہ کی بنیاد پرسینکڑوں درخواستیں موصول رہے رہی ہیں: فوٹو: فائل

 لاہور: پاکستان میں شہریوں کے اپنے ہی فنگرپرنٹ ان کے لئے وبال جان بن گئے جہاں لاہورسمیت ملک بھر میں ہزاروں افراد اپنے ہی انگوٹھوں کے نشانات سے بنکنگ فراڈ کے ذریعے گھر بیٹھے کروڑوں روپے کی رقوم سے محروم ہورہے ہیں۔

فراڈ کرنے والے ووٹرز لسٹوں، (ب) فارم شناختی کارڈ اور یونین کونسل سے لوگوں کے انگوٹھوں کے نشانات عملہ کی ملی بھگت سے چرا کر کا استعمال کر رہے ہیں۔ فراڈ کرنے والے حاصل کردہ انگوٹھوں کے نشانات کو سب سے پہلے ایکسرے پیپر پر کاپی کیا جاتا ہے جس کے بعد سیلیکون کا استعمال کرکے فنگر پرنٹس کی جھلی بنائی جاتی ہے اور اس جھلی کو اپنے انگوٹھوں پر بڑی ہی مہارت کے ساتھ چسپاں کیا جاتا ہے۔ زرائع کے مطابق ان حاصل کردہ فنگر پرنٹ سے مختلف موبائل کمپنیوں سے بائیو میٹرک کرا کر موبائل سمیں ایشو کروا لیتے ہیں جن کو مخلتف غیر قانونی کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

زرائع نے مزید بتایا کہ جبکہ بعض اوقات جعلی وفات کا سرٹیفیکیٹ دیکر موبائل کمپنیوں سے اسی نمبر کی سم ایشو کروا کر آن لائن بینکنگ کی اپیلیکشن ایپ ڈاون لوڈ کی جاتی ہے۔ اپیلیکشن ایپ ڈاون لوڈ ہونے کے بعد لوگوں کی معلومات حاصل کرکے باآسانی ان کے بنک اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے میں کامیاب ہوجاتے پیں جس کے باعث شہری ان فراڈیوں کے ہاتھوں چند منٹوں میں کروڑوں روپے کی رقوم سے محروم ہو جاتے ہیں۔

فنگر پرنٹ فراڈ کا کیس کسی ایک شہری یا چند شہریوں کا مسئلہ نہیں بلکہ حیران کن طور پر ایف آئی اے سائبر ونگ کو روزانہ کی بنیاد پرسینکڑوں درخواستیں موصول رہے رہی ہیں جن کی تحقیقات شروع کردی گئیں ہیں۔ فنگرپرنٹ فراڈ کے ہاتھوں لٹنے والے شہریوں کے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ ایف آئی اے سائبر ونگ نے فنگرپرنٹ فراڈ میں ملوث چند افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان ملزمان نے دوران تفتشیش انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ان ملزمان نے ایف آئی اے حکام کو بتایا کہ وہ کیسے شہریوں کے انگوٹھوں کے نشانات حآصل کرکے اس کو سیلیکون کے زریعے فنگرپرنٹ حاصل کرتے اور پر بڑی مہارت سے شہریوں کی تصاویر تبدیل کرکے فراڈ کر رہے تھے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال میں 20 ہزار کے قریب بینکوں سے کروڑوں روپے نکلنے کی درخواستیں موصول ہوئی اور سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ سامنے آئی کہ جنوری کے پہلے 10 روز میں صرف اور صرف سائبرکرائم لاہور کے پاس 500 سو سے زیادہ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں درخواستیں کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں کی ہیں۔
ایف آئی اے سائبر ونگ کے زرائع نے انکشاف کیا کہ شہریوں کو کڑووں رپووں سے محروم کرنے میں ان فراڈ کرنے والوں کے ساتھ مخلتف بینکوں اور موبائل فون کمپنیوں کے ملازمین بھی ملوث پائے گئے ہیں جن کی ملی بھگت سے شہریوں کی ذاتی معلومات تک ان فراڈ کرنے والوں کو فراہم کردی جاتی ہے۔

زرائع نے مزید بتایا کہ فراڈ کی دوسری وجہ یہ سامنے آئی کہ بڑی تعداد میں مختلف موبائل کمپنیوں اور بینکوں کے برانچ میں بینکنگ کے اکاؤنٹ کھولے جارہے اور اس کی تصدیق کا کوئی انتظام نہیں، ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی اپنے موبائل فون پر ایپ ڈاون لوڈ کرکے بڑی اسانی کے ساتھ حاصل کردہ فنگرپرنٹ کے زریعے شہریوں کے بنک اکاؤنٹس کھول کر ان کے ساتھ فراڈ کیا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس حوالے سے پی ٹی اے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے کئی بار آگاہ کیا مگر ابھی تک پی ٹی اے اور اسٹیٹ بینک بھی فیک اکاؤنٹ کھولنے اور کھلوانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام نظر آئیجبکہ ۔ ایف آئی اے نے ثبوتوں کی بنا پر ان فراڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا اس وقت لاہور سائبر کرائم ونگ نے ایسے تیس افراد کو بھی گرفتار کیا ہے، حکام کی جانب سے ملزمان کے قبضہ سے اڑھائی کروڑ روپے سے زائد رقم برآمد کرکے ان فراڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔

جب اس سلسلے میں ڈائیریکٹر سابئیرونگ چودھری عبدالرب سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہر روز ٹیکنالوجی تبدیل ہو رہی ہے اوراسی حساب سے فراڈ بھی سامنے ارہے ہیں۔ ایف ائی اے کو جیسے ہی کسی ایسے فراڈ کی شکایت ملتی ہے قوانین کے دائرے میں رہ کر فوری کارروائی شروع کر دی جاتی ہے انہوں نے کہا لوگ بھی احتیاط نہیں کرتے اورمعمولی غلطی سے اپنی رقم سے محروم ہوجاتے ہیں ایف ائی اے ایسے فراڈ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی جاری رکھے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔