- بیڑی دیر سے لانے پر باپ نے 10 سالہ بیٹے کو آگ لگادی
- کراچی میں اسرائیل نامنظور بینرز سیاسی مقاصد کیلئے لگائے جارہے ہیں، وزیر خارجہ
- چینی معیشت پہلی بار 100 ٹریلین یوآن سے زیادہ ہوگئی، وال اسٹریٹ جرنل
- نیب ریفرنس میں نواز شریف کی تمام جائیدادیں قرق کر لی گئیں
- لاپتہ شہری کی عدم بازیابی؛ اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیراعظم پر جرمانے کا عندیہ
- ثابت ہوچکا ہے کہ نوازشریف نے پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اورقوم سے جھوٹ بولا، اسد عمر
- کے ٹوکے قریب لاپتہ امریکی نژاد روسی کوہ پیما ایلکس گولڈ فارب کی لاش مل گئی
- فارن فنڈنگ کیس؛ آج پی ڈی ایم الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کرے گی
- ’ڈیزائنر پروٹین‘ نے معذور چوہے کو دوبارہ چلنے کے قابل بنا دیا
- ویڈیو گیم ’ٹیٹرس‘ کا الگورتھم؛ ہوٹلوں میں کمروں کی بکنگ میں مددگار
- جو بائیڈن کی سائیکل وائٹ ہاؤس کےلیے خطرناک قرار
- خود دار بچے نے سرکاری امداد لینے سے انکار کر دیا
- پروٹیز اسپن جال میں الجھنے سے بچنے کیلیے کوشاں
- پی سی بی کا بھارتی نیٹ ورک کے ساتھ نشریاتی حقوق کا3سالہ معاہدہ ہوگا
- بھارت کو کرکٹ ایشیا کپ بوجھ لگنے لگا
- صحت مند رہنے کے رہنما اصول
- جرمنی نے پاکستان کو کورونا رسک والے ممالک میں شامل کردیا
- مودی بلوچستان میں فائدہ اٹھانے، پختونوں میں بے چینی پھیلانے میں مصروف
- خیبر پختونخوا اسمبلی: کرپٹو کرنسی کیلیے متفقہ قرارداد منظور
- ’’ساکہ ننکانہ صاحب‘‘ کی 100 سالہ تقریبات منانے کا فیصلہ
سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس؛ عدالت کی تشریح کے سب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ

پارلیمان قانون بناتی اور عدلیہ اس کی تشریح کرتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن فوٹو: فائل
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ پارلیمان قانون بناتی اور عدلیہ اس کی تشریح کرتی ہے اور عدالت کی تشریح کے تو سب پابند ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس 3 مختلف طرح کے اختیارات ہیں، عدالت دو حکومتوں کے درمیان تنازعات پر فیصلہ کر سکتی ہے، عدالت کا دوسرا اختیار 184/3 کا ہے، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس کے خلاف اپیلیں بھی سنی ہے، سپریم کورٹ صدر کے ریفرنس پر مشورہ اور گائیڈ لائن بھی دے سکتی ہے۔ اوپن بیلٹ کے لیے ارٹیکل 226 میں ترمیم ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ عدالت نے کھبی سیاسی معاملات پر بات نہیں کی، سپریم کورٹ نے بنگلا دیش کو تسلیم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا تھا، عدالت نے صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دیا تھا،کل کو کوئی آ کر خود خلیفہ کہے تو عدالت اجازت نہیں دے گی،نواز شریف کیس میں عدالت نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا۔ صدر اور وزیراعظم اور اسپیکر کے الیکشن کسی ٹربیونل میں چیلنج نہیں ہو سکتے، آرٹیکل 225 کے تحت عام انتخابات الیکشن ٹربیونل میں چیلنج ہو سکتے ہیں، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کس طرح آرٹیکل 226 کی تشریح کرتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان قانون بناتی اور عدلیہ اس کی تشریح کرتی ہے، انتخابات کا طریقہ کار جس قانون میں درج ہے الیکشن اسی کے تحت ہو گا، عدالت کی تشریح کے تو سب پابند ہوں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔