بلدیاتی الیکشن پرحلقہ بندیاں کالعدم قرار دینے کے اثرات

جی ایم جمالی  بدھ 1 جنوری 2014
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

کراچی:  سندھ ہائیکورٹ نے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) ، پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور دیگر افراد کی طرف سے دائر کردہ آئینی درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا ہے ، جس کے تحت سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے ہونے والی نئی حلقہ بندیاں کالعدم ہو گئی ہیں اور پینل کی بنیاد پر انتخابات کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا ہے ۔

اس فیصلے سے بلدیاتی انتخابات کی وہ بنیادیں ختم ہو گئی ہیں ، جن پر نئے بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ استوار ہوتا ۔ اس فیصلے سے 18 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ یہ فیصلہ بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ کے بعد آیا ہے ۔ سندھ بھر میں ہزاروں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے ۔ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اب وہ حلقے نہیں رہے ، جن کے لیے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے ۔ سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے وہ پینلز بھی نہیں رہے ، جو انتخابات میں حصہ لے رہے تھے ۔

اب فوری طور پر الیکشن کمیشن کے لیے بھی یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ نئے انتخابی شیڈول کا اعلان کرے اور امیدواروں کو دوبارہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے موقع دے کیونکہ جب تک حلقہ بندیوں کا مسئلہ حل نہیں ہو گا ، تب تک الیکشن کمیشن کو یہ پتہ ہی نہیں ہو گا کہ وہ کن حلقوں کے لیے الیکشن کرا رہا ہے ۔ حلقہ بندیوں کا مسئلہ بھی جلد حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ سندھ حکومت نے 13 نومبر 2013 ء کو حیدر آباد ، میرپورخاص اور لاڑکانہ ڈویژنز کے لیے جبکہ 21 نومبر کو کراچی ڈویژن کے لیے حلقہ بندیوں کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ، وہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ء کے سیکشنز 10 ، 11 ، 12اور 13 کی خلاف ورزی ہے ۔ بلدیاتی انتخابات اس سے پہلے والی حلقہ بندیوں پر کرائے جائیں ۔ نئی حلقہ بندیوں سے پہلے 2011 ء والی حلقہ بندیاں موجود ہیں ۔

حکومت سندھ نے ان حلقہ بندیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن کا کہنا یہ ہے کہ 2011ء کی حلقہ بندیاں ایک فوجی آمر کے ضلعی حکومتوں کے نظام کے لیے تھیں ۔ نئے بلدیاتی نظام کے لیے ان حلقہ بندیوں پر انتخابات نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ سندھ میں نئی حلقہ بندیاں ہوں گی ۔ سندھ کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ 2011ء کی حلقہ بندیوں پر انتخابات نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے وہ بھی یہی مطالبہ کر رہی ہیں کہ نئی حلقہ بندیاں کی جائیں ۔ ایم کیو ایم ، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) یہ مطالبہ بھی کر رہی ہیں کہ صوبے میں پہلے مردم شماری کرائی جائے ، پھر اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کی جائیں ۔ حلقہ بندیوں کا جب تک مسئلہ حل نہیں ہو گا ، تب تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکتے۔

سندھ کابینہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو یہ درخواست کی گئی تھی کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات مارچ میں کرائے جائیں تاکہ تمام سیاسی جماعتوں کے اطمینان کے مطابق حلقہ بندیاں کی جاسکیں اور انتخابی فہرستوں کو درست کیا جا سکے لیکن الیکشن کمیشن نے یہ بات نہیں مانی تھی ۔ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے پہلے الیکشن کمیشن کے حکام کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وہ جنوری میں انتخابات نہیں کرا سکتے ۔ اب سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد انتخابات کا انعقاد ویسے ہی ممکن نہیں رہا اور کوئی یہ بات بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ بلدیاتی انتخابات کب ہوں گے ۔ سندھ میں حلقہ بندیوں کا مسئلہ آسانی سے طے نہیں ہو گا ۔ سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست بھی سماعت کے لیے منظور کر لی گئی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ پہلے مردم شماری کرائی جائے ۔

اس کے بعد حلقہ بندیاں کی جائیں ۔ جب تک یہ کام مکمل نہ ہو ، سندھ میں بلدیاتی انتخابات منعقد نہ کرائے جائیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہائیکورٹ اس درخواست پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر سندھ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے پہلے دوبارہ حلقہ بندیاں کرنا ضروری ہے تو وہ انتخابات کی تاریخ میں توسیع کے لیے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن سے رجوع کر سکتی ہے ۔ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں حلقہ بندیوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل بھی دیا ہے کہ حکومت سندھ ایک آزاد اور خود مختار کمیشن بنائے، جو حلقہ بندیوں پر اعتراضات سنے اور ان اعتراضات پر فیصلہ سنانے کے لیے ایک آزاد اپیلیٹ اتھارٹی مہیا کرے ۔ ہائیکورٹ کی اس گائیڈ لائن کے باوجود سندھ کی سیاسی جماعتوں کا حلقہ بندیوں پر متفق ہونا مشکل نظر آرہا ہے اور یہ مطالبہ بڑھتا جارہا ہے کہ پہلے صوبے میں مردم شماری کرائی جائے ۔

صوبے میں نئی حلقہ بندیاں کس بنیاد پر ہوں ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع کے لیے حکومت سندھ سپریم کورٹ سے رجوع کرتی ہے یا الیکشن کمیشن رجوع کرتا ہے ۔ اگر حکومت سندھ سپریم کورٹ سے تاریخ میں توسیع کے لیے رجوع کرتی ہے تو وہ اس بات کی پابند ہو جائے گی کہ وہ مقررہ وقت میں نئی حلقہ بندیاں کرلے لیکن یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ ان حلقہ بندیوں پر اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی متفق ہو جائیں ۔ اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت سندھ سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرے گی ۔ الیکشن کمیشن بھی سپریم کورٹ سے فوری طور پر رجوع نہیں کرے گا ۔ کیونکہ نئی تاریخ پر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا اس کے لیے ضروری ہو جائے گا ۔ نئی حلقہ بندیاں خود کرانے کی ذمہ داری بھی الیکشن کمیشن قبول نہیں کرے گا ۔ اس صورت حال میں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی نئی تاریخ کا فیصلہ بھی جلد آنے کا امکان نہیں ہے جبکہ 18 جنوری کو انتخابات کرانے کی بنیاد ہی ختم ہو گئی ہے ۔

سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات مؤخر کرانے کا الزام اپوزیشن کی جماعتوں پر عائد کررہی ہے ۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اگر ہائی کورٹ سے رجوع نہ کرتیں تو سندھ حکومت نے 18 جنوری کو انتخابات کرانے کی پوری تیاری کرلی تھی ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں سندھ حکومت پر الزام لگا رہی ہیں کہ اسکی وجہ سے بلدیاتی انتخابات مؤخر ہونے کے اسباب پیدا ہوئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں انتخابات کا التوا چاہتی تھیں اور دونوں کی طرف سے یہ خواہش موجود ہے کہ بلدیاتی انتخابات کچھ عرصے کیلئے نہ ہوں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نئی مردم شماری کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حلقہ بندیوں کے حوالے سے طریقہ کار پر کوئی اتفاق رائے بھی پیدا نہیں ہو رہا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔