یادوں کا جشن

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 15 جنوری 2021

کنور مہندر سنگھ بیدی کی آپ بیتی ’’یادوں کا جشن‘‘ میں جوش صاحب کا ذکر بڑی عقیدت اور محبت سے کیا ہے لیکن بیان حقیقت میں کسی مصلحت کو راہ نہیں دی ہے۔

لکھتے ہیں ’’ایک بار جوش صاحب ایک خاتون جس کو جوش صاحب سمندر میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے بمبئی میں گیٹ آف انڈیا پر تیرنا نہ جانتے ہوئے سمندر میں کود پڑے تھے، دہلی آئے۔ جوش صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ اگر ان کے لیے ایک جائے رہائش اور موٹرکار کا انتظام کردیا جائے تو وہ دو چار دن دہلی میں ہی اس خاتون کے مہمان بنیں گے۔

چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق شاہدرہ میں ایک بنگلے کا بندو بست ہو گیا اور میرے ایک نہایت عزیز دوست نے اپنی موٹر کار ان کے حوالے کردی۔ جوش صاحب نے اپنی بیگم صاحبہ سے دو ایک مشاعروں میں شریک ہونے کا بہانہ کیا اور گھر سے رخصت ہو کر شاہدرہ آگئے۔

’’اب ان کی شامت آئی کہ ایک شام وہ اس خاتون کو لے کر ہوا خوری کے لیے نئی دہلی میں گھوم رہے تھے کہ بیگم جوش نے انھیں دیکھ لیا۔ لیکن جوش صاحب نے گاڑی روکی نہیں اور تیز کردی۔ شاہدرہ پہنچ کر فوراً انھوں نے مجھے فون کیا۔ میں گھر پر نہیں تھا۔ لیکن جب گیارہ بجے کے قریب گھر پہنچا تو جوش صاحب گھر پر موجود تھے اور بہت پریشان نظر آتے تھے۔

میرے پوچھنے پر پہلے اپنا سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ جس طرح بھی ہو سکے مجھے بچاؤ۔ جوش صاحب ایک باغی شاعر تھے مگر اپنی بیوی سے اتنا ڈرتے تھے کہ خدا کی پناہ۔ انھوں نے کہا اگر کسی نہ کسی ترکیب سے یہ معاملہ سلجھایا نہ گیا تو مجھے زندہ ہی دیوار میں چنوا دیا جائے گا۔

میں نے انھیں لاکھ تسلی دی اور یہ بھی سمجھایا کہ آپ کے ہاں چار نکاحوں کی اجازت ہے، آپ اس خاتون سے نکاح کیوں نہیں کرلیتے۔ مگر انھوں نے اسے محض مذاق سمجھا اور تاکید کی کہ کوئی صورت بھی اختیار کرنی پڑے انھیں بچایا جائے۔ چنانچہ میں اگلی ہی صبح جوش صاحب کے گھر گیا۔ بیگم جوش جاتے ہی مجھ پر برس پڑیں اور کہنے لگیں کہ سنا تمہارے دوست نے کیا کیا۔ میں نے لاعلمی ظاہر کی تو کہنے لگیں تم سب ایک جیسے ہی ہو۔ میں نے کہا کچھ بتائیے تو سہی۔ تو کہنے لگیں وہ مردود مجھ سے مشاعرے کا بہانہ کرکے گیا ہے لیکن اس بمبئی والی چڑیل کو لے کر دہلی میں گھوم رہا ہے۔

میں نے کہا نہیں بھابی جان، ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ تو مجھے بھی دھوکا ہو گیا۔ کل شام میں کناٹ پیلیس میں کھڑا تھا تو دیکھا جوش صاحب ایک نہایت ہی خوبصورت عورت کے ساتھ ایک دکان سے نکل کر موٹر میں بیٹھ رہے تھے۔ میں فوراً لپکا اور پیچھے سے جا کر جوش صاحب کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے اور کہا بتائیے میں کون ہوں؟ جب وہ نہیں بولے تو میں نے ہاتھ ان کی آنکھوں سے ہٹا لیے اور جب انھوں نے گھوم کر میری طرف دیکھا تو مجھے بہت ندامت ہوئی۔ وہ جوش صاحب نہیں تھے لیکن شکل اور حلیہ بالکل ایسا تھا جیسے جوش صاحب کے جڑواں بھائی ہوں۔

میں انھیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس پر بیگم جوش نے دنیا کے تمام مردوں کی بے وفائی اور دوستوں کی ایک دوسرے کی جائز اور ناجائز مدد کرنے اور بیویوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے پر ایک لمبا اور پرجوش لیکچر دیا۔ جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو میں نے پھر کہا، بھابی جان! میرے ساتھ چلیے آج شام۔ وہ صاحب پھر کہیں نہ کہیں مل جائیں گے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجیے گا۔ اس پر وہ خاموش ہوگئیں مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے سو فیصد یقین تو نہیں کیا مگر میرا تیر نشانے پر ضرور لگا ہے۔

’’میں جب گھر لوٹ کر آیا تو جوش صاحب وہاں موجود تھے۔ میں نے سارا قصہ سنایا اور یہ رائے بھی ظاہر کی کہ بیگم صاحب کو کچھ نہ کچھ تسلی تو ہوگئی ہے مگر ابھی کوئی ڈرامہ اورکھیلنا پڑے گا۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ جہاں جوش صاحب نے مشاعرے میں شریک ہونے کا بہانہ کیا تھا، وہاں سے جوش صاحب کی جانب سے ایک تار جوش صاحب کی بیگم کو بھجوایا جائے کہ دو مشاعروں میں سے ایک مشاعرہ ملتوی کردیا گیا ہے اور جوش کل صبح واپس آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی طے ہوا کہ سردار دیوان سنگھ مفتون کی ’’خدمات‘‘ بھی اس سلسلے میں حاصل کی جائیں۔

چنانچہ جوش صاحب مفتون صاحب کے پاس پہنچے اور ساری بات ان کو بتائی اور ان سے کہا کہ آپ خدا پر تو یقین نہیں رکھتے ہیں میری خاطر ایک جھوٹی قسم بھی کھا لیجیے گا۔ کافی دیر سوچنے کے بعد یہ طے ہوا کہ دیوان سنگھ مفتون اپنے اخبار ’’ریاست‘‘ کے ساٹھ ستر پرچے لے کر انھیں ریشمی رومال میں لپیٹ کر بیگم جوش کے پاس جائیں اور کہیں کہ سنا ہے آپ کے دل میں شک پیدا ہو گیا ہے کہ جوش صاحب ایک خاتون کے ساتھ یہاں دہلی میں رہ رہے ہیں۔

میں آپ کا شک دور کرنے آیا ہوں اور اپنے ساتھ ثبوت بھی لایا ہوں تاکہ آپ کے سامنے قسم اٹھاؤں۔ چنانچہ مفتون صاحب ان کے گھر گئے اور بیگم جوش سے یہی جملے کہے۔ اس پر بیگم جوش نے جوش صاحب کی گزشتہ کارستانیوں اور کردار پر ایک تفصیلی تبصرہ فرمایا۔ مفتون صاحب ہنستے رہے اور جب وہ رکیں تو کہنے لگے ’’بھابی! دیکھیے میںمقدس کتاب اپنے ہمراہ لایا ہوں اور قسم کہا کر یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کو دھوکا ہوا ہے۔ مجھے خود دھوکا ہو چکا ہے۔ وہ کوئی اور آدمی تھا، جوش صاحب نہیں تھے۔ بیگم جوش نے یہ سمجھا کہ اس ریشمی رومال میں واقعی کوئی مقدس کتاب ہے اور انھیں یقین آگیا۔ مفتون صاحب نے لوٹ کر جوش صاحب کو یہ خوش خبری سنائی مگر اس کے باوجود وہ اپنی بیگم کے سامنے جانے سے گھبرا رہے تھے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بیگم جوش مشاعرے کے بعد جوش صاحب سے پائی پائی کا حساب لیتی تھیں۔ اس مرتبہ جوش صاحب کسی مشاعرے میں شریک ہوئے ہی نہیں تھے بلکہ اپنی جیب سے ہی کچھ خرچ کیا تھا، کیا حساب دیتے۔ اس پر جوش صاحب کے لیے دوستوں نے کچھ روپیہ فراہم کیا اور کہا کہ یہ بیگم صاحب کی خدمت میں پیش کر دینا کہ مشاعرے والوں نے دیا ہے۔

’’اب جب جوش صاحب گھر جانے لگے تو مجھ سے کہنے لگے، آپ بھی ساتھ چلیے۔ چنانچہ میں بھی ساتھ ہو لیا اور جب ان کے گھر پہنچے تو میں نے جاتے ہی بیگم جوش سے کہا، لیجیے آپ کا مجرم حاضر ہے اور ساتھ ہی ساتھ جوش صاحب کو کوسنا شروع کردیا کہ آپ کے گھر سے چلے جانے کی وجہ سے بیگم صاحبہ کو اور ہم سب کو کن کن غلط فہمیوں کا شکار ہونا پڑا۔ اس لیے اب ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اب اول تو مشاعرے میں جانے ہی نہ دیا جائے اور اگر آپ کو مجبوراً جانا پڑے تو کوئی نہ کوئی گھر والا ساتھ ہو۔ اس پر بیگم جوش کے چہرے پر ذرا سی مسکراہٹ آئی۔

ہم سب نے سمجھا کہ تیر نشانے پر لگا ہے۔ جوش صاحب نے بھی منہ کھولا اور کہا کہ جیسا آپ چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد میں اٹھنے لگا تو جوش صاحب نے کہا بھئی! ناشتہ کرکے جانا اور بیگم سے کہا کہ ان کے لیے ناشتہ منگوائیے۔ جب وہ یہ سن کر اٹھیں تو جوش صاحب کے دم میں دم آیا اور فرمانے لگے کہ مدتوں سے سنتے آ رہے تھے کہ:

رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت

لیکن آج ہم صحیح طور پر سمجھے کہ اس کے معنی درحقیقت کیا ہیںاور یہ کیوں بولا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔