خوردنی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ

ایم آئی خلیل  جمعـء 15 جنوری 2021
   
آخر ان سب باتوں کو کون کنٹرول کرے گا؟ جن باتوں کے باعث عوام پر مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔

آخر ان سب باتوں کو کون کنٹرول کرے گا؟ جن باتوں کے باعث عوام پر مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔

عوام جس چیز سے نالاں ہیں، تنگ ہیں، پریشان ہیں، جس بات کے کارن ایک وقت یا دو وقت بھوکا رہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے پیر میں جوتی نہیں ہوتی سخت سردی میں بھی بعض گھرانوں میں نہ کمبل نہ رضائی، وہ ہے مہنگائی۔ گزشتہ دنوں چینی جسے 80 روپے کلو تک لے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا اب 100 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ چینی کے بعد اب گھی کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔

مختلف برانڈزکی قیمت میں فی کلو 20 روپے سے 40 روپے تک کا اضافہ ہوچکا ہے۔ گھی کی قیمت 220 روپے سے بڑھ کر 240 سے 265 روپے تک جا پہنچی ہے۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ گھی ملز مالکان اور ڈیلرز نے سپلائی کم کرکے گھی کی قیمت بڑھائی ہے۔ لاہور شہرکے بارے میں بتایا گیا کہ دو تین روز سے سپلائی نہیں دی جا رہی تھی۔ اسی طرح کوکنگ آئل کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پکانے کے تیل کی بات ہو تو اسی دوران زرعی ماہرین نے قوم کو خوشخبری سنائی ہے کہ زرعی تحقیقاتی ادارے اور ماہرین کی انتھک محنت رنگ لے آئی ہے۔

یعنی 15 سال بعد زیتون کے تیل کی پیداوار کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ بارانی یونیورسٹی چکوال کے زرعی ماہرین نے زیتون کے تیل کی پیداوار میں اہم کامیابی سے وزیر اعظم کو آگاہ کردیا ہے۔ اسی اثنا وزیر اعظم نے کہا کہ امپورٹ بل کم کرنے کے لیے زیتون کی پیداوار بڑھانی ہوگی۔

اس وقت ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے اربوں ڈالرکی درآمدات کی جاتی ہیں جن میں پام آئل، سویا بین آئل اور تیلدار بیج شامل ہیں۔ زیتون کے تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے چکوال اور اس اطراف کے علاقے میں 840 باغات قائم کیے گئے ہیں۔ یہ باغات ملین ٹری سونامی منصوبے کے تحت لگائے گئے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ زیتون کے درختوں کی پیداوار بڑھائی جائے۔

اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں کتنی مقدار اور مالیت کا پام آئل اور سویا بین آئل کی درآمد کی گئی ہے۔ صرف گزشتہ 5 ماہ میں 13 لاکھ 33 ہزار میٹرک ٹن پام آئل درآمد کرلیا گیا ہے، جب کہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 12 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن پام آئل درآمد کرلی گئی۔ لہٰذا کسی قسم کی قلت تو پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب کہ ان 5 ماہ کے دوران 87 کروڑ60 لاکھ ڈالرز کی پام آئل درآمد کرلی گئی ہے۔ جب کہ 72ہزار 756 میٹرک ٹن سویابین آئل درآمد کرتے ہوئے 4 کروڑ 83 لاکھ ڈالرز کے اخراجات ہوئے۔ پاکستان میں ہر شے کی قیمت بڑھانے میں مافیا کا کردار ہوتا ہے، ابھی 7 ماہ قبل کی بات ہے۔ جب وزیر اعظم نے گھی کی قیمت کم کرنے کی ہدایت کی تھی، کیونکہ ملک میں گندم، آٹا، چینی، پٹرول کی قیمت کے بعد گھی کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا تھا۔

بات یہاں تک پہنچی کہ وزارت پیداوار نے ہدایت کی کہ قوانین کے تحت گھی اور تیل ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جب کہ کووڈ19 کے بعد پام آئل امپورٹ پر 2 فیصد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی 30 جون تک ختم کردی گئی تھی لیکن افسوس اس کمی کا فائدہ ملز مالکان نے عوام کو نہیں پہنچایا۔ان دنوں وزارت پیداوار کے مطابق عالمی مارکیٹ میں پام آئل 277 ڈالر فی ٹن سستا ہو چکا تھا۔ یعنی پام آئل 789 ڈالر فی ٹن سے کم ہو کر 512 ڈالر پر آگئی تھی۔ انھی دنوں وزارت نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ فی کلو تیل گھی کی قیمت میں 50 روپے کی کمی ہونی چاہیے تھی۔

اگر اتنی کمی کردی جاتی تو وہ غذائی اشیا جس میں گھی اور تیل کا استعمال ہوتا ہے بہت ہی سستی ہونی چاہیے تھیں لیکن مٹھائی کی قیمت کم نہیں ہوئی۔ بیتے رمضان المبارک کے دوران پکوڑوں، سموسوں وغیرہ کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ کہیں آٹے کی قیمت میں اضافے اور چینی، دودھ وغیرہ کی قیمت میں اضافے کو بنیاد بنا کر تیار کردہ کئی غذائی اشیا کی قیمت بڑھا دی گئی تھی۔

شدید مہنگائی سے ہر شخص متاثر ہے۔ انھی متاثرین میں سے ایک شخص کا کہنا تھا کہ ڈھائی سال قبل آٹا 40 روپے فی کلو، چینی 55 روپے کلو، کوکنگ آئل 170 روپے کلو، گھی 160 روپے کلو، پٹرول 80 روپے فی لیٹر، مٹی کا تیل 90 روپے لیٹر، بجلی کے نرخ بہت کم تھے جس میں اس مرتبہ پھر اضافہ کردیا گیا ہے۔

وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آلو 20 روپے کلو اب 70 یا 80 روپے کلو ہے۔ اسی طرح ہر سبزی کم ازکم ڈیڑھ سو روپے فی کلو سے بھی زائد قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے سستا آٹا فراہمی کی بات کی گئی تھی۔ یوٹیلیٹی اسٹور سے بھی 20 کلو آٹے کا تھیلا ملنا دشوار ہوگیا ہے۔ راولپنڈی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ 15 کلو آٹے کے تھیلے کے لیے ایک ہزار روپے دینے پر مجبور ہیں۔

جہاں تک چینی کی قیمت میں اضافے کا تعلق ہے۔ گزشتہ برس یہ بات مانی جا رہی تھی کہ چینی 70 روپے فی کلو ملا کرے گی اس کے باوجود اب قیمت 100 روپے کا مطلب ہے کہ 30 روپے کا اضافہ یعنی تقریباً 45 فیصد قیمت میں اضافہ ہوا جب کہ چینی کی پیداوار بھی جا رہی ہے ساتھ ہی چینی درآمد بھی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ 5 ماہ کے دوران 2 لاکھ 53 ہزار میٹرک ٹن چینی درآمد کرلی گئی۔

آخر ان سب باتوں کو کون کنٹرول کرے گا؟ جن باتوں کے باعث عوام پر مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔ اس دوران جب کہ کورونا وبا کی دوسری لہر نے پاکستان میں کاروبار میں مندی کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ روزگارکے مواقع گھٹتے چلے جا رہے ہیں، لوگوں کی آمدن میں زبردست کمی ہو رہی ہے۔

گزشتہ سال کے متعلق ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک کروڑ 70 لاکھ گھرانے کووڈ19 کے باعث شدید متاثر ہوئے۔ 10 فیصد گھرانے ایسے تھے جن کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے بیشتر افراد ایک وقت یا کئی وقت فاقے سے رہے۔

47 فیصد گھرانے ایسے تھے جنھوں نے اپنی بچت خرچ کر ڈالی یا پھرکوئی زمین جائیداد پلاٹ فروخت کرکے رقوم حاصل کیں۔ بے شمار ایسے لوگ ہیں جنھوں نے گزشتہ سال سونے کے زیورات اونے پونے دام فروخت کرکے اخراجات پورے کیے، کسی کو اگر کہیں سے قرض مل سکا تو اسی سے کام چلایا۔ نئی لہرکے باعث ایک بار پھر کورونا کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ بہرحال حکومت پھر غریب نادار افراد کی مالی اعانت کے لیے احساس کفالت پروگرام کا سروے کرا رہی ہے تاکہ 70 لاکھ خاندانوں کو احساس کفالت پروگرام کے تحت امداد دی جائے۔

موجودہ حکومت نے اس سے قبل بھی اربوں روپے تقسیم کیے تھے جس سے کروڑوں افراد مستفید ہوئے تھے۔ اس پروگرام کے علاوہ فوری اشد ضرورت اس بات کی تھی کہ غریب نادار مستحق افراد جن کے پاس سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑے، کمبل، رضائی، کھیس، گرم چادروں اور گرم شال کا انتظام نہیں ہے۔ حکومت فوری طور پر چھوٹے سے فنڈ کے ذریعے سردی سے بچنے کا فوری بندوبست کرسکتی ہے۔ اس موسم میں غریب کے پاس اگرکھانے کوکچھ نہیں تو اوڑھنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ ہم سب اپنے گردوپیش نظر دوڑائیں بغور جائزہ لیں تو یقینی طور پر کئی مستحق، ضرورت مند، جائز حق دار نظر آجائیں گے جن کی امداد بشکل رضائی،کمبل، سویٹر، شال اگر ہم کرسکیں تو دلوں کو وہ طمانیت حاصل ہوگی جو ناقابل بیان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔