موائی : 100سال سے زیادہ جینے کا راز

ڈاکٹر شائستہ جبیں  اتوار 17 جنوری 2021
جاپان کے علاقہ ’ اوکیناوا ‘ کے باسیوں کی ایک دلچسپ سرگرمی جو لوگوں کی صحت مندی اور طویل العمری کا سبب بنتی ہے۔

جاپان کے علاقہ ’ اوکیناوا ‘ کے باسیوں کی ایک دلچسپ سرگرمی جو لوگوں کی صحت مندی اور طویل العمری کا سبب بنتی ہے۔

جاپان کے جزیرے ’ اوکیناوا ‘ کے رہائشی، اپنی طویل العمری کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں، کیونکہ ان علاقوں میں سو سال سے زیادہ عمر رکھنے والے افراد کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

یہاں کے لوگوں کی طویل العمری کے بارے میں تحقیق کرنے والے مسٹر ڈان بوٹنیر نے، جو ایک مشہور امریکی مصنف ہیں، ایک دلچسپ سرگرمی کا ذکر کیا ہے جو کہ ’ اوکیناوا ‘ کے لوگوں کی صحت مند اور طویل العمری کے اسباب میں سے ایک ہے۔

’ اوکیناوا ‘ اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں دوست روزانہ یا ہفتے میں کم از کم دو دن لازمی ملتے ہیں تا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کر سکیں، باہم تجربات اور مشاہدات کا تبادلہ کر سکیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ سے آگاہ رہ سکیں اور  ضرورت ہو تو باہم معاشی اور جذباتی مدد فراہم کر سکیں ۔ وہ اپنے دوستوں کے ان گروہوں کو ’ موائی ‘ کا نام دیتے ہیں۔

’ موائی ‘ کی اصطلاح ہزاروں سال پہلے اس وقت وجود میں آئی جب ’ اوکیناوا ‘  کے لوگوں نے معاشی امداد کے لیے گروہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان گروہوں کا مقصد علاقے کے فلاحی کاموں کے لیے وسائل مہیا کرنا تھا ۔ مختلف علاقوں میں صاحبان ثروت کے گروہ بنائے گئے تا کہ وہ اپنے علاقوں میں فلاح و بہبود کے کاموں کے لئے وسائل اکٹھے کریں ۔ ان گروہوں سے متاثر ہو کر ’ اوکیناوا ‘ کے کسانوں نے بھی خود کو گروہوں کی صورت منظم کیا تا کہ وہ باقاعدگی سے رابطے میں رہ سکیں اور فصلوں کی کاشت، دیکھ بھال اور انہیں پہنچنے والے نقصانات اور ان سے بچاؤ کی تدابیر سے ایک دوسرے کو بروقت آگاہ کر سکیں .

یوں ’ موائی‘ گروہوں کی اصطلاح ’ اوکیناوا ‘ میں عام ہوتی چلی گئی اور لوگوں نے اپنی دلچسپی کے مختلف گروہوں میں جمع ہونا شروع کیا۔ اس وقت ’ اوکیناوا ‘ کے آدھے سے زیادہ رہائشی مختلف موائی گروہوں کا حصہ ہیں اور بعض لوگ تو ایک سے بھی زیادہ موائی میں شمولیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔

یہ لوگ موائی کو تاحیات دوستوں کا ایسا گروہ قرار دیتے ہیں جو ہم مزاج لوگوں کو ایک جگہ جمع کرتا ہے اور سماجی، معاشی، روحانی دلچسپیوں کے حوالے سے مدد فراہم کرتا ہے ۔ لوگ ان گروہوں میں اس لیے اکٹھے ہوتے ہیں تا کہ وہ ایک دوسرے کے مسائل کے حل کے لیے تعاون کر سکیں ۔ وہ آپس میں ایک خاندان جیسا تعلق رکھتے ہیں جہاں کسی بھی فرد کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، چاہے وہ کسی بحران کا شکار ہو، بیماری میں مبتلا ہو ۔ باہم جذباتی ربط کے ذریعے اس کی تکلیف کی شدت کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

’ موائی‘ گروہ جاپان میں اس قدر مقبول ہیں کہ والدین بچوں کو کم عمری ہی میں ان گروہوں کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ روایتی طور پر پانچ کم عمر بچوں کا گروپ بنا دیا جاتا ہے اور وہ تاحیات ساتھ رہنے اور دوستی نبھانے کا عہد کرتے ہیں۔ موائی کو اپنا دوسرا خاندان سمجھتے ہوئے بچے باقاعدگی سے ملتے اور ساتھ کھیلتے ہیں،  یوں کم عمری سے ہی وہ مل جل کر رہنا اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا سیکھتے جاتے ہیں ۔

مسٹر ڈان بوٹنیر کی اس علاقے کے لوگوں کی طویل العمری کے اسباب کے تحقیقات جب منظرِ عام پر آئیں تو لوگوں کو موائی گروہوں کے دلچسپ تصور سے آگاہی ہوئی ۔ مسٹر بوٹنیر نے امریکا میں بھی موائی قائم کرنے کی صحت مند سرگرمی کا آغاز کیا ۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے :’’ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنی زندگی میں صحت مند سالوں کے اضافے کے لیے آپ کو اپنے سماجی تعلقات کے نظام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔  فیس بک یا دیگر سماجی روابط کے ذرائع پر ہزاروں لاکھوں فاصلاتی احباب کی بجائے حقیقی زندگی کے تین سے پانچ بہترین دوستوں پر انحصار کریں ۔

حقیقت میں آپ کو ایسے چند دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے ساتھ آپ اپنا اچھا اور برا وقت گزار سکیں۔ آپ کی حقیقی زندگی کے دوستوں کا گروہ کسی بھی سکون آور دوائی کی نسبت آپ کے اعصاب پر اچھا اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘۔

نیویارک شہر میں رہنے والے، ایک موائی کے رکن مسٹر کارل کے مطابق : ’’ خود کو مثبت لوگوں کی صحبت میں رکھنا آپ کے بہت سے غم بھلا دیتا ہے ۔ ’ موائی ‘ کی ایک رکن تیس سال کی عمر میں دو کم سن بچوں کے ساتھ بیوہ ہو گئیں ۔ اس مشکل وقت میں ان کی ’ موائی ‘ کے ارکان نے ہر طرح سے ان کا ساتھ دیا ، یوں وہ اپنے خاندان اور ان ساتھیوں کی مدد سے خود کو اور بچوں کو سنبھالنے اور زندگی میں واپس لوٹنے کے قابل ہوئیں۔

دنیا کے مختلف ممالک میں موائی گروہ بنانے کی سرگرمی عام ہو رہی ہے کیونکہ جدید تحقیق کے مطابق ہماری صحت، ہماری صحبت سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ ہم میں سے اکثریت اچھی صحت کے لیے متوازن خوراک اور ورزش پر انحصار کرتی ہے لیکن محققین کا کہنا ہے کہ اچھی جسمانی اور ذہنی صحت کے حصول کے لیے ہم مزاج لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا بھی بہت اہم ہے ۔ شخصی اور سماجی تعلقات ہماری خوشی، غم، پریشانی، دکھ سب کیفیات پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ایک نئی سماجی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک شخص کے روزمرہ کے معمولات پر اس کے سماجی تعلقات کے گہرے اور دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

’ اوکیناوا ‘ کی رہائشی 77 سالہ کلازکومانا اپنے موائی گروہ کی سب سے کم عمر رکن ہیں (ان کے موائی گروہ کی مجموعی عمر 450 سال سے زیادہ ہے)، کہتی ہیں کہ موائی لوگوں کا ایک ایسا گروہ ہے جو ہمیشہ آپ کی مدد کو موجود اور ہر پہلو سے آپ کی بھلائی کا خواہاں ہوتا ہے۔

اس نے زور دیا کہ یہ گروپ محض گپ شپ کے لیے نہیں ہیں، یہ گہری انسیت، وابستگی اور باہم عزت کے لیے بنائے جاتے ہیں ۔ ہر رکن جانتا ہے کہ اس کے دوست اس پر ویسا ہی اعتماد کرتے ہیں جیسا وہ ان پر یقین رکھتا ہے۔ اگر آپ بیمار پڑ جاتے ہیں، شریکِ حیات ساتھ چھوڑ جاتا ہے یا آپ معاشی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہماری موائی سے کوئی نہ کوئی ضرور مدد کو آئے گا۔ اس احساس کے ساتھ زندگی گزارنا بہت ہی فرحت آمیز ہے کہ آپ ایک مضبوط اور محفوظ حصار میں ہیں۔

’ اوکیناوا ‘ ہی کی  رہائشی گوزی شنڑا جو کہ 104 سال کی عمر میں بھی تروتازہ، پرجوش اور متحرک زندگی گزار رہی ہیں، خود کھانا بناتی اور پودوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ دن کے ابتدائی ٹھنڈے حصے میں وہ اپنے باغیچے میں کام کرتی ہیں، پھر دوپہر کو کھانا بناتی ہیں اور ساتھ صفائی کر لیتی ہیں۔ کھانے کے بعد وہ کتاب پڑھتی ہیں یا ٹی وی پر بیس بال کا میچ دیکھ لیتی ہیں اور پھر تھوڑی دیر کو قیلولہ ( دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ دیر کی نیند  یا آرام ) کرتی ہیں۔ ہر روز سہ پہر میں پڑوسی ان کے پاس آ جاتے ہیں اور ہفتے میں دو دن ان کی موائی کی چار سہیلیاں، جنہوں نے جوانی سے عمر بھر ایک دوسرے کے ساتھ کا عہد کیا تھا، چائے اور گفتگو کے لیے باقاعدگی سے آتی ہیں۔ گوزی کے شوہر کا چھیالیس برس کی عمر میں انتقال ہو گیا اور ان کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ کہتی ہے’’  اگر موائی کے دوست اس کا ساتھ نہ دیتے تو وہ کبھی اتنی مطمئن اور پرسکون زندگی نہ گزار رہی ہوتی‘‘۔

موائی گروہ بنانا راتوں رات واقع ہو جانے والا عمل نہیں ہے، اس کے لیے آپ کو دوسروں کو وقت دینا ہوتا ہے اور ان کا ساتھ نبھانے کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ ایک کامیاب موائی کا بنیادی اصول اہل جاپان کے نزدیک یہ ہے کہ اس کا آغاز ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر کیا جائے جن کی اقدار، دلچسپیاں اور ارادے مشترک ہوں، کیونکہ ان گروہوں کا مقصد محض گپ شپ لگانا یا نظریات کے تبادلے تک محدود رہنا نہیں ہے بلکہ عملاً مدد کرنا اور ہر مشکل اور آسانی میں ساتھ دینا ہے۔ سماجی ماہرین نے ’ اوکیناوا ‘ کے رہائشی لوگوں کے ان گروہوں سے منسلک ہونے کے حوالے سے مختلف فوائد بیان کیے ہیں جو انسان کی صحت اور عمر میں بہتری اور اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔

موائی سے منسلک لوگ دیگر لوگوں کی نسبت لمبی عمر پاتے ہیں، کیونکہ موائی گروہ سے آپ کو ایک صحت مند طرزِ زندگی کی ترغیب ملتی ہے۔ اگر موائی کے چند ارکان اچھی خوراک اور ورزش کے عادی ہیں تو ان کا یہ معمول باقی ساتھیوں کو بھی متوجہ کرے گا اور تمام گروپ جلد ہی اس عادت کو اختیار کر لے گا۔

موائی کے ارکان باقی لوگوں کی نسبت زیادہ خوش باش رہنے والے ہوتے ہیں۔ سماجی روابط خوشی کی بنیاد ہیں، اگر ہم کچھ لوگوں کے ساتھ جذباتی طور پر وابستہ ہیں تو ہماری محبت اور تعلق کی خواہش پوری ہو جاتی ہے ۔ خوش رہنے کے لیے ہمیں دوسروں کے ساتھ ربط کی ضرورت ہوتی ہے ۔

موائی کے ارکان کی آپس میں مضبوط وابستگی ہوتی ہے، ایک ساتھ یا کچھ فاصلے پر رہنے والے خاندانوں میں اس گروہ کے ذریعے تحفظ اور اپنائیت کا احساس رہتا ہے۔ یہ افراد کا ایسا گروہ ہے جو ہر وقت آپ کی مدد کو موجود ہوتا ہے۔

موائی سے وابستہ افراد دباؤ کا شکار کم ہوتے ہیں، ایک ٹیم کی طرح وہ باہم مسائل حل کر لیتے ہیں، چاہے وہ مسائل ملازمت کے ہوں یا بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق ہوں، وہ مل جل کر اس کا حل تلاش کر لیتے ہیں۔ کسی بھی بحران میں، موائی کے ارکان میں دباؤ تقسیم ہو جاتا ہے اور ہر ایک بساط بھر کوشش کرتا ہے کہ اس کا ساتھی کامیابی سے مسئلہ حل کر  لے ۔

انسان کو سماجی حیوان اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا ۔ تنہائی اسے کم زور اور بیمار کرتی ہے، اور اپنے ہم جنسوں اور ہم خیالوں کا ساتھ اسے مضبوطی عطا کرتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔