پیر غائب

عرفان احمد بیگ  اتوار 17 جنوری 2021
وادی ء کوئٹہ کا خوبصورت مقام جو برصغیر میں اولین تبلیغ اسلام کا گواہ ہے۔

وادی ء کوئٹہ کا خوبصورت مقام جو برصغیر میں اولین تبلیغ اسلام کا گواہ ہے۔

پاکستان کی سینکڑوں کلو میٹر طویل سرحد مغرب میں صوبہ بلو چستان میں ایران سے ملتی ہے، شمال میں سینکڑوں کلو میٹر سرحد بلوچستان میں افغانستان سے بھی ملتی ہے جب کہ جنوب میں بحیرہ عرب پر پا کستا ن کے ساحل کی مجموعی لمبائی 1000 کلو میٹر ہے جس میں سے 770 کلومیٹر ساحل بلو چستان کے جنوب میں واقع ہے۔

بلوچستا ن میں واقع 770 کلو میٹر ساحل صوبے کے دو اضلا ع میں ہے، 170 کلو میٹر ساحل ضلع لسبیلہ میں ہے جو کر اچی کے نزدیک ہے جب کہ 600 کلو میٹر ساحل ضلع گوادر میں ہے۔ شمال کی جانب جو پشتون بیلٹ کہلا تا ہے یہاں سے افغانستان اور پا کستان کی سرحد کے دونوں اطراف پشتون اکثریت آباد ہے اور یہاں سے برصغیر خصوصاً پا کستان کے مذہبی ، تاریخی ، ثقافتی ، تمدنی اور تہذیبی رشتے صدیوں پرانے اور سنٹرل ایشیا تک مربوط ہیں۔

اگر چہ افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے آنے والے اکثر فاتحین خیبر پختوانخوا کے راستے ہند و ستان آئے لیکن احمد شاہ ابدالی نے بلو چستان کو بھی گزر گاہ بنایا اور یہاں سے بلو چ قبائل کی حمایت اور امداد کے ساتھ ہندوستان کو مرہٹہ ظلم و ستم سے نجات دلائی۔ اِ ن سے قبل شہنشاہ ہمایوں بھی شیر شاہ سوری سے شکست کھا نے کے بعد بلو چستان کے راستے ہی ایران فرار ہو اتھا اور پھر شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد ایران سے بلو چستان ہو تا ہوا ہندوستان آیا اور اپنی کھو ئی ہو ئی سلطنت دوبارہ حاصل کی تھی۔

پھر جس طرح افغانستان کے ساتھ ہمارے تاریخی رشتے سنٹرل ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں، اسی طرح بلو چستان کی سرحد جو ایران سے ملتی ہے تو اس سرحد کی دوسری جانب ایرانی بلو چستا ن اور سیستان کے علاقوں میں بھی بلوچ اکثریت آباد ہے اور اس سے آگے ایک جانب عراق اور دیگر عرب ممالک ہیںتو دوسری جانب ایران کے پار ترکی ہے۔

بلوچ تاریخ یہ بتا تی ہے کہ آج سے تقریباً تیرا ساڑھے تیرا سو سال قبل بلو چ قبائل حلب شام سے ہجر ت کر کے پہلے ایران اور پھر مکران آئے تھے۔ لیکن اس سے قبل بلو چستان کو بھی سند ھ کی طرح یہ اعزاز حاصل ہے کہ برصغیر میں سب سے پہلے اسلام اس علاقے میں آیا۔ بلکہ بہت سے محققین کا موقف یہ ہے کہ بلوچستان میں اسلام سندھ سے بھی پہلے آیا۔

بعض حقائق کے مطابق اسلام کے اولین دور میں ہی مکران کے علاقے میں عرب مسلمانوں کا ایک گروہ آیا تھا۔ اُس و قت یہ علاقہ بہت غیر آباد تھا اس لیے وہ لشکر یا گروہ واپس چلا گیا۔ برصغیر کی قدیم تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس دور کی تقریباً ڈھائی صدیاں ایسی تھیں جب یہاں مہاتما بدھ یا گوتم بدھ،سائرس اعظم ، سکندر اعظم اشوک اعظم نے اہم کردار ادا کیا۔

سائرس اعظم کا دور600 قبل مسیح سے530 ق م تک، گوتم بدھ کا دور 563 سے483 قبل مسیح، سکندراعظم کا دور356 قبل مسیح سے 323 قبل مسیح اور اشوک اعظم کا زمانہ304 قبل مسیح سے232 قبل مسیح کا ہے۔ اِن ڈھائی صدیوں میںاِن شخصیات کے اثرات تاریخ عالم پر اتنے گہرے تھے کہ آج تک علاقے اور دنیا کے مختلف خطوں میں مو جود ہیں۔

بد ھ مت کی آمد کے بعد ہندوستان میں یہ مذہب مہاتما بدمت کی زندگی میں نہیں پھیل سکا مگر جب اُس زمانے کے ہندوستان کے بادشاہ اشوک اعظم نے ’جس کا پایہ تخت آج کا ٹیکسلا تھا‘  جنگِ کلنگاKalinga War  لڑی جس میں اُس نے ایک لاکھ افراد کو مار ڈالا، اُس زمانے میں میدانِ جنگ میں اتنی انسانی لاشیں دیکھ کر اُسے شدید دکھ ہوا تو اُس نے اپنی رعایا کے ساتھ ہند و مت کو ترک کر کے بدھ مت اختیار کر لیا تھا۔

مگر اشوک اعظم کی وفات کے کچھ عرصے بعد یہاں دوبار ہندو مت نے زور دکھا یا اور بد ھ مت کے ماننے والوں کو تقریباً ختم کر دیا گیا اور پھر یہ مذہب چین ، جاپان ،تھائی لینڈ اور اس خطے کے دوسرے کئی ممالک میں پھیلا۔ اسی طرح تقریبا اسی دور میں ایران میں زرشت کا مذہب یعنی آتش پر ستی کامذہب چھا گیا اور اس کے اثرات ایران ،آذربائجان اور سنٹرل ایشیا کے دیگر علاقوں میں اُس وقت زیادہ پھیلے جب سائرس اعظم ایران کا بادشاہ بنا۔

سائرس اعظم نے پورے سنٹرل ایشیا ، عراق ، شام ،مصر اور فلسطین کو فتح کیا اور دوسری جانب سند ھ اور بلوچستان کے علاقوں تک سلطنت کو پھیلا دیا لیکن اُس زمانے میں ایرانی قوم پرستی نے اس مذہب کو بھی یہودیوں کی طرح شجرہ نسب اور اپنی نسل سے جوڑ دیا کہ جس طرح وہ یہودی نہیں ہو سکتا جو پیدائشی یہودی نہ ہو اسی طرح پارسی یا آتش پرست وہی ہوتا ہے جو پیدائشی آتش پر ست ہو یوں ایک ہزار سال تک یعنی اسلام کی آمد تک تو پارسیوں کی تعداد کافی تھی مگر جب اسلام آیا اور خصوصاً جب مسلمانوں نے ایران فتح کر لیا تو تھوڑے ہی عرصے میں 90% پارسیوں نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے بعد پارسیوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی رہی اس وقت پوری دنیا میں پارسی تقریباً دولاکھ کی تعداد میں ہیں اور کہا جا تا ہے آئندہ پچاس سال میں پارسی دنیا سے با لکل ختم ہو جا ئیں گے۔

اِن دولاکھ پارسیوں میں سے سب سے بڑی تعداد ممبئی میں آباد ہے اس کے بعد کینیڈااور پھر کراچی پاکستان میںپارسی مناسب تعداد مو جود ہیں 1960 تک بلو چستان کے صوبائی دارالحکومت کو ئٹہ میں بھی اِن کی تعداد شہر کی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے 2% کے قریب تھی جب کو ئٹہ شہر کی آبادی پچاس ہزار ہوا کرتی تھی۔

سائرس اعظم کے بعد اوراسلام کی آمد تک ایران اور آذربائجان میں اِن آتش پرستوں کی واضح اکثریت تھی اور ایران کی سلطنت جس میں آذربائجان سمیت سنٹرل ایشیا کے کئی علاقے شامل تھے یہ سلطنت اسلام آمد کی تک ایک مضبوط ،طاقتور اور دنیا کی بڑی سلطنت تھی جو اُس وقت رومی سلطنت کے مقابلے کی تھی اُس وقت ایران اور روم کی سلطنتیں ایسی ہی تھیں جیسے آج کے زمانے میں امریکہ اور روس یا چین اور امریکہ۔ واضح رہے کہ نبی کریم ْﷺنے جن بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دی تھی اِن میں ایران بھی شامل تھا جس نے بہت تکبر سے نبیﷺ کے خط کو پھاڑ دیا تھا۔

تقریباً  اسی دور سے متعلق بلوچستان میں مسلمان بزرگوں کے چند مزارات ملتے ہیں اور روایت کے مطابق اُن بز رگوں نے یہاں غالباً اُسی وقت اسلام کی تبلیغ اسلام شروع کردی تھی جب نبی کریم نے ایران کے بادشاہ کو خط لکھا تھا اِن مزارات میں سب سے اہم درِبولان میں واقع یہ مقامات اور مزارات ہیں جو بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 50 سے60 کلو میٹر دور واقع ہیں۔

روایت کے مطابق یہ دونوں بہن بھائی تھے اور وادی بولان میں اسلام کی تبلیغ کرتے تھے اور ان کی تبلیغ سے مقامی آبادی میں سے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو اُس وقت کے آتش پرست حکمرانوں کو اِن کے بارے میں اطلاعات ملیں تو اُنہوں نے اِن کے خلاف ایک آتش پر ست فوج بھیجی اب جہاںتک تعلق بہن کا ہے تو اُن کا مزار کوئٹہ سبی شاہراہ پر کوئٹہ سے سبی جاتے ہوئے مچ شہر کے ساتھ پل کے قریب واقع ہے اور بی بی نانی کا مزار کہلا تا ہے۔

روایت یہ کہ جب اِن دونوں بہن بھائی کے تعاقب میں آتش پرستوں کی ایک فوج آ ئی تو اُس وقت یہاں اُس فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے کو ئی مقامی طاقت یامسلح گروہ نہیں تھا اور دونوں بہن بھائی اس فوج سے جان بچانے کے لیے بھاگے بہن المعرف بی بی نانی،، اور بھائی پیر غائب چند میل کے بعد ایک دوسرے سے بچھڑ گئے اور فوج پیر غائب کے تعاقب میں رہی اور پیر غائب آگے بڑھتے رہے۔

یہاں تک کے وادی میں اس مقام پر پہنچے جہاں سامنے بلند پہاڑی چٹان بالکل سیدھی کھڑی تھی اورآگے جا نے کا رستہ نہیں تھا اور پیچھے فوج تھی روایت کے مطابق اُس وقت پیر غائب نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے اِن آتش پرستوں کی فوج سے بچاتو سامنے کی چٹان شق ہو گئی اور پیر غائب اُس میں داخل ہو گئے تو چٹان واپس اپنی پہلے والی حالت میں آگئی یوں اس روایت کے مطابق اُس وقت سے یہ مقا م پیر غائب کہلا یا اس روایت کی روشنی میں اگر زمانے کاتعین کیا جائے تو یوںہے کہ جب حضور نبی کریمﷺ کی ولادت ہوئی تو ایران کے مرکزی اور سب سے بڑے آتش کدے میں ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے مسلسل جلنے والی آگ اچانک بجھ گئی تھی اور اس واقعے کے چالیس سال بعد نبی کریم ﷺ کو نبوت ملی تو روم اور ایران اُس وقت کی سپر پاور تھیں فتح مکہ سے چند برس پہلے سے یہ دونوں سپر پاور اللہ کے سچے دین اسلام اور نبی کریم ﷺکی آمد سے نہ صرف واقف تھیں بلکہ خائف بھی تھیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران ہی سے حضرت محمد ﷺ کے عاشق اور قریبی صحابی حضرت سلمان فارسیؓ حق کی تلاش میں ایران سے نکلے اور شام میں آکر اُس وقت کے بڑے عیسائی پیشوا کے ہاتھوں عیسائی ہوئے اور تلاش حق کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادات میںمصروف ہو ئے لیکن یہ بڑا عیسائی پیشوا مکار اور عیاش انسان تھا جب کہ اُس کا نائب سچا عیسائی تھا جب نائب عیسائی پیشوا نے حضرت سلمان فارسیؓ کی تلاش حق کی تڑپ دیکھی تو اُس سے نہ رہا گیا۔

اُس نے حضرت سلمان فارسیؓ کوبتایا کہ اللہ کے سچے نبیﷺ دنیا میں آچکے ہیں اور ساتھ ہی حضرت محمدﷺ سے متعلق تین نشانیاں بھی بتائیں کہ نمبر1 ۔ اللہ کے سچے نبیﷺ جہاں آباد ہیں وہاں کھجوروں کے گھنے باغات ہیں ( مدینہ میں کھجوروں کے گھنے باغات ہیں ) نمبر 2 وہ صد قہ خیرات نہیں لیتے  محبت سے دیا گیاتحفہٰ،(حدیہ) قبول کر لیتے ہیں نمبر3 اُن کی پست مبارک پر دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور پھر سلمان فارسیؓ غلام کی حیثیت سے مدینہ پہنچے اور پھر نبیﷺ کے ہو کے رہ گئے یہی سلمان فارسیؓ تھے جن کے مشورے پر غزوہِ خندق کے موقع پر خندق کھودی گئی تھی یہ بھی واضح رہے کہ ایران پر ابتدائی حملے حضرت محمدﷺ  کے وصال کے بعد اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دورِ خلافت میں شروع ہو گئے تھے اور ایران کی فتح حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی تھی تواس سے انداز ہو تا ہے کہ روایت کے مطابق آتش پرستوں کی جو فوج حضرت پیر غائب کے لیے بھیجی گئی ہو گئی۔

وہ فتح مکہ یا اس کے فوراً بعد کے زمانے میں بھیجی گئی ہو گی اور وادی بولان میں اُس وقت ایران کے بادشا ہ یا یہاں کسی مقامی آتش پرست حاکم کے حکم سے وہ فوج وادی بولان آئی ہو گی آج صدیوں گذرجانے کے بعد یہ روایت موجود ہے اور یہاں اس مقام کو پیر غائب کے نام سے دنیا جانتی ہے ماضی میں درہ بولان سندھ اور پنجاب ،بلکہ برصغیرکے تاجروں کے لیے ایران،عراق  شام ،مصر کے لیے اہم گزر گاہ تھی اور یہاں بولان میں اس مقام پر اکثر قافلوں کا پڑا ؤ ہوتا تھااسلام کی آمد کے بعد یہاں سے نہ صرف تجارتی قافلے ایران ،عراق،شام اور مصر وغیرہ جانے لگے بلکہ حاجیوں کے قا فلوں کا بھی یہی راستہ ہو ایوں پیر غائب کا مقام اِن قافلوں کے ٹھہراؤ کے لیے بہت ہی مناسب تھا یہاں پانی اور سبزا تھا اور یہ ایک اچھے نخلستان کی حیثیت رکھتا ہے اور اس مقام کے حوالے سے پیر غائب کی یہ روایتی داستان دور دور تک مشہور ہوئی اور عقیدت مند یہاں بڑی تعداد میں آنے لگے، انگریزوں نے بلوچستان میں 1839 میں قدم رکھا مگر اِن کو استحکام کافی عرصے بعد نصیب ہوا ۔

6 اکتوبر 1879 میں انگریزوں نے بلو چستان میں ریلوے لائن بچھانی شروع کی اور درِبولان سے کو ئٹہ تک ریلو ئے لائن 1897 تک مکمل کرلی گئی یوں سبی ، مچ اور کو ئٹہ کو اہمیت حاصل ہو ئی اور اب عقیدت مند پیر غائب بذریعہ ٹرین بھی آنے لگے جو اُ س دور میں سفر کی ایک بڑی سہو لت تھی واضح رہے کہ بلو چستان کا صوبائی دارالحکومت ایک سرد علاقہ ہے جو سطح سمندر سے 5500 فٹ بلند ہے اور یہاں موسم سرما میں درجہ حرارت منفی 18 سنیٹی گریڈ تک گر جا تا ہے، اور سبی دنیا کے گرم ترین علا قوں میں شمار ہو تا ہے جب کہ مچ اور پیر غائب کا علاقہ کو ئٹہ اور سبی کے بالکل درمیان میں واقع ہے اور قدرے گرم علاقہ ہے اِس لیے اِس کی اپنی خاص اہمیت ہے کہ پھر جہاں تک تعلق پیر غائب کے مقام کا ہے تو یہ قدرتی حسن کا شہکار ہے بہت خو ب صورت آبشا روں ہیں جو 50 سے 100 فٹ کی بلندی سے گرتی ہیں اور ایک بڑے تالاب یا چھوٹی جھیل کی طرح قدرے دائرے کی صورت پندرہ سے بیس فٹ گہری ہے اور پھر اس کا پانی یہاں قریبی علاقے کو سیراب کر تا ہے۔

یہ آبشاریں اور تالاب پہا ڑوں کے درمیان سخت چٹانوں میں ہیںاور ان کے چشمے یہاں چند کلو میٹر پہاڑوں میں واقع ہیں سخت پہاڑی چٹانوں کے درمیان واقع جھیل اور شیشے کی طرح شفاف پانی کی گزر گاہوں کو شاید ہزاروں سال سے اس پا نی نے خاص انداز سے تراشا ہے چاروں اطراف میں سر سبز سایہ دار درخت اور پھول ہیں بلکہ چشموں کا پانی اپنے بہاؤ اور پہاڑی کٹاؤ کے ساتھ چٹانوں کے درمیا ن درمیان کئی مر بع کلو میٹر تک بھورے سنگلاخ پہاڑوں میں درختوں اور سبزے کے پیوند لگا تا ہے یوں پیر غائب کا مقام قدرتی حسن کا منفرد شہکار ہے اور یہ بلو چستان کے خوبصورت ترین پکنک اسپاٹس میں شامل ہے۔

کو ئٹہ سمیت دیگر علاقوں سے یہاں روزانہ سینکڑوں لو گ پکنک کے لیے آتے ہیں پیر غائب کی اِن آبشاروں اوراس کی چھوٹی سی جھیل کا شفاف پانی سردیوں میں نیم گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا ہو تا ہے سردیوں میں کو ئٹہ کے مقابلے میں یہاں موسم معتدل اور خوشگوار ہوتا ہے اور کو ئٹہ سے سینکڑوں لوگ روزانہ یہاں سیر و تفریح کے لیے آتے ہیںاور یہاں اس مقام پر جہاں پیر غائب کا واقعہ رونما ہو اتھا وہاں قریب ہی اس کے پرانے مجاور ں کی قبریں بھی ہیں یوں یہاں جو آتے ہیں اور جن کو پیر غائب کی اس روایتی داستان کا علم ہے وہ تفریح کے ساتھ ساتھ یہاں پیر غائب کی اُس بلند اور عمودی چٹان کو بھی دیکھتے ہیں جہاں روایت کے مطابق پیر غائب چٹان کے شق ہو نے پر اس پہاڑ میں داخل ہو گئے تھے اور چٹان دوبارہ اپنی پہلی حالت میں آگئی تھی یہاں حاضری دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی مانگتے ہیں لیکن یہاں کے مقامی باشندے جو پیر غائب کی پوری روایت سے برسوں سے واقف ہیں وہ بہت عقیدت کے ساتھ یہاں با قاعدیگی سے آتے ہیں اِس مقام سے پیر غائب کی بہن بی بی نانی کا مقبرہ پون گھنٹے کی مسافت پر ہے یوں جو عقیدت مند یہاں آتے ہیں وہ یہاں آنے سے پہلے یا بعد میں بی بی نانی کے مزار پر بھی حاضری ضرور دیتے ہیں۔

چودہ سو سال قبل جب یہ بہن بھائی یہاں اسلام کی تبلیغ کرتے ہو نگے تو ظاہرہے  یہاں وہ اپنے ناموں سے پہچا نے جا تے ہو ں گے لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیر غائب کے حیرت انگیز واقعہ نے اِن کے اصل نام بھلادئیے اور واقعہ کی نسبت سے بی بی نانی کا لفظ جو بلو چی زبان میں بزرگ خواتین کے انتہائی احترام کے لیے استعمال کیا جا تا ہے اِس نام سے بی بی نانی کا مزار مشہورہوا اور پیر غائب کے مقام کے لحاظ سے پیر غائب کا نام دے دیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔