دو خاندانوں کی جمہوریت

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 16 جنوری 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

انسانی تاریخ میں کوئی دور ایسا نظر نہیں آتا جس میں عام آدمی حکمران رہا ہو اور اشرافیہ رعایا ہو۔

انسان کی معلوم تاریخ میں یہی کچھ ہوتا رہا کہ کسی نہ کسی بہانے یا حوالے سے اپنے دورکی اشرافیہ اقتدار پر قابض رہی اور عوام سیاسی اور معاشی غلام کے طور پر زندہ رہی۔ بلکہ انسان کے ساتھ المیہ یہ رہا کہ وہ کبھی اپنے لیے اپنے خاندان کے لیے زندہ نہیں رہا۔ اس کی زندگی کی مالک اشرافیہ رہی اور عوام پر حکومت کرنے کو اپنا حق سمجھتی رہی، یہ کام ماضی میں کھلے ڈلے طریقے پر ہوتا تھا۔ حال اور ماضی قریب میں یہ کام جمہوریت کے پردے میں ہو رہا ہے۔

ہمارے ملک کی آبادی 22 کروڑ ہے کیا اتنی بھاری آبادی میں سو پچاس لوگ ایسی اہلیت کے مالک نہیں جو کسی نظام حکومت کو چلا سکیں؟ ایسا نہیں ہے، اب ماضی کے مقابلے میں شہروں ہی کے نہیں بلکہ دیہی علاقوں کے عوام خصوصاً نوجوان تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں کہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر کام کو نہایت خوش اسلوبی سے چلا سکتے ہیں۔

دیہی علاقوں کے حوالے سے میں نے جن تعلیم یافتہ لوگوں یا نوجوانوں کا ذکرکیا ہے وہ اپنی انفرادی محنت سے تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں دیہی کو چھوڑیے شہری عوام کی ایک بھاری اکثریت تعلیم سے محروم ہے اور اپنی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود کلرکی کے پیچھے بھاگتی نظر آتی ہے جب کہ اشرافیہ کی اولاد مغربی ملکوں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت اس ناانصافی کو ختم نہیں کرسکتی تو اپوزیشن کو آگے بڑھ کر اس طبقاتی کلچر کی لائی ہوئی ناانصافیوں بلکہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا تحریک چلانا چاہیے۔ اپوزیشن کی اعلیٰ قیادت میڈیا کے مطابق ملک کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہے ، کیا جمہوریت کے چیمپیئنوں کو اس قسم کی اقربا پروری زیب دیتی ہے؟ ہر ملک میں اپوزیشن کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ بے زبان عوام کے مسائل کو اولیت دے، کیا ہماری اپوزیشن یہ کام کر رہی ہے؟

اپوزیشن مہنگائی کے خلاف بول رہی ہے یہ بڑی مثبت اور عوام دوست بات ہے لیکن اس حوالے سے حکومت کا موقف یہ ہے کہ اس مہنگائی سمیت جتنی برائیاں آج عوام کے سامنے ہیں وہ ہماری اپوزیشن کے دس سالہ دور کی مرہون منت ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ بات درست نہ ہو محض پروپیگنڈا ہو اس الزام کا جواب جوابی الزام نہیں بلکہ ایک جوڈیشل کمیشن کا قیام ہے جو پچھلے دس سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لے خاص طور پر دس سالوں کے دوران ہونے والی اربوں روپوں کی کرپشن کی تحقیق کرے اور اس کرپشن کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

ہماری جمہوری اپوزیشن کا دن رات ایک ہی مطالبہ ہے کہ موجودہ حکومت کو گرایا جائے اور اس نیک کام میں وہریاستی اداروں کی امداد کی بھی خواہش مند ہے ۔ ہماری اپوزیشن کی نمایندگی اشرافیہ کرتی رہی ہے۔ اس ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں، دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسانوں ہاریوں پر مشتمل ہے۔ کیا اپنے دور حکومت میں ہماری غریب نواز حکومت نے ساڑھے چھ کروڑ مزدوروں اور اس سے زیادہ کسانوں کو اپنی پارٹیوں میں نمایندگی دی انھیں الیکشن میں جتوا کر قانون ساز اداروں میں بھجوایا اپنے دور حکومت میں کوئی وزیر مزدوروں کسانوں میں سے لیا گیا؟

سابقہ اپوزیشن اور آج کی حکمران جماعت کا 11 جماعتی اتحاد سے مسلسل یہ سوال رہا ہے کہ آج کی اپوزیشن سابقہ کل کی حکمران جماعتوں نے کرپشن کی ہماری اپوزیشن کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے ان الزامات کا جمہوری انداز میں جواب دینے کے لیے اس الزام کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرے اور اپنی پوزیشن واضح کرے۔

نیب ایک تحقیقاتی ادارہ ہے جو عموماً مختلف حوالوں سے سیاست دانوں پر لگائے گئے منی لانڈرنگ کے الزامات وغیرہ کی تحقیقات کرتا ہے۔ حال ہی میں نیب نے مسلم لیگ(ن) کے خواجہ آصف کو گرفتار کیا اور تحقیقات شروع کیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن)کے اکابرین ناراض ہیں اور چیئرمین نیب کو ان کے عہدے سے ہٹانے یا نیب قوانین میں مرضی کے مطابق ترمیم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان مطالبات سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

اپوزیشن ان مطالبات کے بجائے یہ مطالبہ کرتی کہ نیب کے بجائے خواجہ آصف صاحب کے کیس کی انکوائری جوڈیشری سے کرائی جائے تو اس موقف پر اپوزیشن کی عوام میں پذیرائی ہوتی لیکن یہ موقف نہیں اپنایا جس کی وجہ سے عوام میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے۔

پی ڈی ایم عمران خان کی ’’ڈکٹیٹرانہ حکومت‘‘ کو ہٹا کر جمہوری حکومت لانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام بہت ساری کمزوریوں کے باوجود حکومت کے حامی ہیں۔ عمران خان کی آمد سے پہلے ہماری جمہوریت چند پارٹیوں پر مشتمل ہوتی تھی اب یہ جمہوریت سکڑ کر صرف دو پارٹیوں پر مشتمل ہوگئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔