سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 17 جنوری 2021
اے میرے پیارے قائد۔۔۔ میں آپ کو محبت میں سرشار ہو کر یہ خط لکھ رہا ہوں۔۔۔ ذرا یاد کرتا ہوں۔

اے میرے پیارے قائد۔۔۔ میں آپ کو محبت میں سرشار ہو کر یہ خط لکھ رہا ہوں۔۔۔ ذرا یاد کرتا ہوں۔

آپ کے کھانا
کھاتے ہوئے اگر۔۔۔

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

گذشتہ دنوں ہمارے ثمر بھائی نے دسترخوان پر ایک نہایت کریہہ موضوع چھیڑ دیا۔۔۔ ہم نے انھیں سمجھایا کہ کھانے کے آداب یہ ہیں کہ ایسی کسی بھی گفتگو سے پرہیز کیا جائے، جس سے کھانا کھانے والے افراد کراہیت یا گھن محسوس کریں۔۔۔ ادب سے زیادہ یہ تو عقل کی بات ہے۔۔۔ اب کیا یہ بات بھی کسی انسان کو سکھانے کی ضرورت ہوگی کہ شکم پُری کرتے ہوئے ایسے موضوعات اور چیزوں کا ذکر نہ کرے، جو گندگی سے کوئی تعلق یا علاقہ رکھتی ہیں۔ بس یہ بات ثمر بھائی کو کچھ سمجھ میں تو آگئی۔

لیکن ساتھ ہی انھوں نے اپنی کمپنی کی کینٹین کا قصہ سنا ڈالا، جسے وہ ’لال بیگوں والی کینٹین‘ کا نام دیتے ہیں۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے لال بیگوں کا عالم یہ ہے کہ کھانے کی میز پر جا بہ جا ڈولتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ اگر کھانے کے دوران آپ کی نگاہ ذرا سی بھی چُوکی، تو سمجھیے کہ جانے کتنے ’لال بیگ‘ آپ کی روٹی پر سے ٹہلتے ہوئے گزر بھی گئے، آپ کو پتا بھی نہیں چلا یا آپ کے سالن کو چکھتے ہوئے رکابی میں ’’جاں بحق‘‘ ہو کر آپ ہی کا لقمہ بھی بن گئے۔۔۔۔!!

بس اتنا سننا تھا کہ ہم نے بہ مشکل ضبط کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے انھیں مزید لب کشائی سے روک دیا۔۔۔ وہ دسترخوان پر تو چُپکے ہو رہے، لیکن کھانے کے کچھ دیر بعد اجازت لے کر انھیں یہ ادھورا قصہ پورا کر کے ہی چین آیا۔۔۔ یہ باتیں کرنے کی تو نہیں، لیکن متعلقہ حکام کی کارگزاری پر روشنی ڈالنے کے لیے انھیں ہم اپنے قارئین کے گوش گزار کرانا ضروری سمجھتے ہیں۔۔۔

اُن کی دیگر تفصیلات کے مطابق کینٹین کے پانی کے ’ڈسپینسر‘ سے پانی کی بوتل بھرنا بھی ایک وبال ہے، پانی بھرنے کے بعد پانی بوتل کے اندر جھانک کر دیکھنا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی لال بیگ اندر تو نہیں تیر گیا۔۔۔! کیوں کہ گہرے رنگ کے ’ڈسپینسر‘ پر بھی لاتعداد لال بیگ مٹر گشت کر رہے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ کینٹین کی دیواروں پر کونے کھدروں میں بہ یک وقت درجن بھر تک چھوٹے چھوٹے لال بیگ چمٹے ہوئے بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔۔۔ یہ ہم سبھی کو دکھائی دیتے ہیں، لیکن جو صفائی کرانے کے ذمہ داران ہیں، وہ یہ سب ’دیکھنے‘ سے بالکل عاری ہیں۔۔۔

کئی بار شکایت کی گئی کہ اللہ کے بندو۔۔۔! تمھیں اگر کم پڑ رہا ہے، تو 10، 20 روپے ہم سب لوگوں کے کھاتے سے کاٹ لو، لیکن یہ صفائی تو کرادو، تاکہ ہمارا کھانا کھانا تو دوبھر نہ ہو۔۔۔ یا اگر یہ بھی نہیں کر سکتے، تو پھر ہمیں اپنے دفتر کے اندر ہی بیٹھ کر پیٹ پوجا کی اجازت دے دو۔۔۔ اور پھر تم جانو اور تمھاری لال بیگوں والی کینٹین۔۔۔!

ہم نے ثمر بھائی کو آنکھیں کھول کر کھانا کھانے کی تاکید کر کے بات سمیٹنا چاہی، تو وہ بولے کہ اب بات آنکھیں کھولے رکھنے سے بھی آگے بڑھ چکی ہے۔ آپ لاکھ اپنے دیدے پھاڑ کے رکھیں، کیا آپ انھیں درودیوار سے ’پرواز‘ کر کے آپ کے کھانے کی رکابیوں پر اترنے سے روک سکتے ہیں۔۔۔ اور ایسے کسی غلیظ ’حادثے‘ کے بعد کیا وہ کھانا کھانے کی کوئی حجت باقی رہ جاتی ہے۔۔۔؟ نہیں ناں! اب ’آنکھوں دیکھی مکھی کون نگلتا ہے‘ اس لیے میں نے بھی اب تہیہ کر لیا ہے کہ گھر سے ناشتے کے وقت ہی کھانا کھا کر کام پر جائو اور پھر گھر لوٹ کر رات کا کھانا۔۔۔ کمپنی کی اس ’’عظیم الشان‘‘ اور ’’حفظان صحت‘‘ کے اصولوں کے مطابق کینٹین کا ’احسان‘ لو ہی نہیں۔۔۔ اب ہماری بلا سے پالتے رہو تم وہاں لال بیگ اور سارے حشرات الارض کو۔۔۔!

۔۔۔

ہمیں اتنا بھی تو ارزاں نہ کرو۔۔۔!
مولوی محمد سعید
پاکستان بننے کے ایک آدھ برس بعد پنجاب کے ایک جوان سال وزیر نے اپنے ایک اخباری دوست سے کہا: ’’بھئی! کبھی ہمارا بھی رابطہ عوام سے کرواؤ‘‘ چناں چہ وہ صحافی ایک روز وزیر صاحب کو لے کے موچی دروازے جا پہنچا۔ لوگوں نے جب اپنے درمیان یوں اچانک ایک وزیر کو دیکھا، تو چاروں طرف سے امڈ آئے۔ ہر شخص مصافحے کے لیے بے قرار تھا۔ کچھ من چلے تو معانقوں پر اتر آئے۔ وزیر صاحب کچھ دیر تو یہ رابطہ برداشت کرتے رہے اور پھر اپنے کرم فرما سے کہنے لگے: ’’یار، ہمیں اتنا بھی تو ارزاں نہ کرو!‘‘

جمہوریت کے اس حمام میں صرف ہمارے وزیر صاحب ہی ننگے نہیں پائے گئے تھے۔ امریکا کے ایک سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ کے بارے میں ان کے ایک دوست لکھتے ہیں کہ جب وہ رابطے کی مہم سے لوٹتے تو سیدھے اپنے محل کے غسل خانے میں جاتے اور صابن سے ہاتھ دھوتے، تاکہ مصافحوں کا میل اتر جائے۔

(خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ سے منتخب کیا گیا)

۔۔۔

ایوب خان کی لندن میں کوریج
آصف جیلانی
جنوری 1966ء کے آخر میں ایوب خان تاشقند سمجھوتے کے بعد لندن کے راستے امریکا جا رہے تھے۔ وہ اتوار کے دن لندن سے گزرنے والے تھے۔ ’بی بی سی‘ کے ڈین صاحب نے ہفتے کی شام کو مجھے بلا کر کہا کہ تم اپنے اخبار کے لیے ایوب خان کی پریس کانفرنس کور کرنے لندن ایئرپورٹ جائو گے، مجھے خوشی ہوگی کہ تم اس بارے میں ایک رپورٹ ہمارے لیے بھی نشر کر دینا۔ مجھے تعجب ہوا کہ ڈین صاحب نے مجھ پر اتنا اعتماد کیا، کیوں کہ میں نے اس سے پہلے صرف تین چار بار ہی پروگرام میں حصہ لیا تھا۔

بہرحال میں نے لندن ایئرپورٹ سے بش ہائوس آکر ایوب خان کی پریس کانفرنس کی رپورٹ نشر کی، کسی نے نشر ہونے سے پہلے نہ یہ رپورٹ دیکھی اور نہ اس کی جانچ پڑتال کی۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ دوسرے روز ڈین صاحب نے میری رپورٹ کی تعریف کی۔

۔۔۔

’محسن کشی‘ دراصل قوموں کی تذلیل ہوتی ہے

کائنات فاروق، کراچی
ماؤزے تنگ چین کے عظیم راہ نما تھے، انھوں نے نہ صرف اپنی قوم کی تقدیر بدل دی، بلکہ اس قوم پر طویل عرصے تک مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت بھی کی۔ بہت سے تاریخ دانوں کے مطابق ’ماؤ تاریخ کی ایک انتہائی متنازع شخصیت ہیں۔‘ یعنی تصویر کے دوسرے رخ پر چین کو عظیم ملک بنانے والے ماؤ ایک متنازع شخصیت بھی مانے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے لاکھوں چینیوں کی جانیں بھی گئیں۔۔۔ ماؤ کو تاریخ کا ایک غیراعلانیہ آمر بھی قرار دیا جاتا ہے، جو چار کروڑ افراد کی ہلاکت کے ذمہ دار تھے۔‘ برطانوی محقق مائیکل وڈ اپنی مشہور زمانہ دستاویز فلم ’دی اسٹوری آف چائنا‘ میں کہتے ہیں کہ جو واقعات ماؤ کے اقتدار میں ہوئے، وہ تاریخ کے عظیم حادثات میں شامل تھے۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں چینی تاریخ اور سیاست کی ماہر ایلیزبتھ پیری کہتی ہیں کہ ’انقلاب کے آغاز میں جب 1921ء میں ’چائینز کمیونسٹ پارٹی‘ کا قیام عمل میں آیا، تو نوجوان دانش وَر ماؤ اپنے ملک کو مضبوط بنانے کے لیے راستے تلاش کر رہے تھے۔‘ تاریخ میں درج ہے کہ ماؤ سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئیں، لیکن ماؤ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ ماؤ سے پہلے چینیوں کو پوری دنیا میں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ اور ماؤ نے چینی قوم پر یہ احسان کیا ہے کہ انھیں ایک مقام اور عزت دلوائی۔

چینی قوم نے اس احسان کو آج تک فراموش نہیں کیا، قوم کو ماؤ کی شخصیت سے متعلق جب کہیں کسی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر جب کوئی انھیں ماؤ کے تلخ ماضی کو یاد دلاتا ہے، تو چینی پھر بھی اپنے قائد کا دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ماؤزے تنگ 70 فی صد صحیح تھے اور 30 فی صد غلط۔‘‘

اسی طرح عظیم روس پر 1920ء کی دہائی سے لے کر 1953ء میں اپنی موت تک حکم رانی کرنے والے ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن کی بات کی جائے تو انھوں نے جرمنی کے فاشسٹ ایڈولف ہٹلر کو بھی شکست دی۔

انھوں نے روس کے اکتوبر 1917ء کے انقلاب اور اس کے بعد روس کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 21 جنوری 1924ء کو لینن کی موت کے بعد اسٹالن نے مسند اقتدار سنبھالی، اب ان کے مدمقابل اپنے

وقت کی سپرپاور برطانوی سلطنت تھی، جس کا انھوں نے 21 برس تک مقابلہ کیا، جب کہ 1945ء میں ابھرنے والی سپرپاور امریکا کا آٹھ برس تک سامنا کیا۔ البتہ 1942ء میں سرمایہ داروں کی حمایت پا کر جرمن

آمر ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا، جس کا سوویت یونین کے محنت کشوں کی سرخ فوج نے تین برس تک مقابلہ کیا اور بالآخر سرخ فوج کو فتح نصیب ہوئی۔ اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اسٹالن نے اپنے عوام پر

بے حد مظالم بھی ڈھائے، لاکھوں لوگوں کو ’غدار‘ قرار دے کر پھانسی پر چڑھایا، لیکن ہٹلر کو شکست دینا ان کا ایک ایسا کارنامہ تھا، جس نے اسٹالن کو روسی عوام کی نظر میں ہمیشہ کے لیے ہیرو بنا دیا۔ اسٹالن

کے بعد میخائل گورباچوف روسی حکم راں بنے، ان کا خاندان بھی اسٹالن کے مظالم کا شکار ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس وجہ نے ان کی اسٹالن سے نفرت کو مزید شدت بخشی تھی۔ وہ اسٹالن پر کھلے عام تنقید

کرتے اور کہتے کہ ’’اسٹالن کے گناہ ناقابلِ معافی ہیں!‘‘ پھر عظیم روس کے حصے بخرے ہوئے، اور گورباچوف بھی تاریخ ہوگئے۔۔۔

آج روسی عوام ’سوویت یونین‘ کے بانی ولادیمر لینن اور جوزف اسٹالن کو اپنا ہیرو مانتی ہے۔ 2019ء میں ایک سروے میں روسی عوام جس راہ نما کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں، وہ شخصیت ’جوزف اسٹالن‘ کی

تھی۔ ماؤزے تنگ اور جوزف اسٹالن اور ان سے متعلق ان کی قوموں کے رویوں کا جائزہ لیا جائے، تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جو راہ نما اپنی قوموں پر احسان کر جائیں، ان کی قومیں انھیں کبھی فراموش نہیں

کرتیں۔ بطور انسان یا کسی اور مجبوری یا بشری تقاضے کے سبب ان سے کوئی غلطی بھی ہوجائے، تو قوموں کا ظرف اپنے قائد کا احسان بلند تر رکھتا ہے۔ سمجھ دار قومیں اس بات کو بہ خوبی سمجھتی ہیں کہ قوم کے محسنوں کی کردارکشی دراصل قوم کی ہی تذلیل ہوتی ہے۔

۔۔۔

قائداعظم محمد علی جناح کی نذر

ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی
اے میرے پیارے قائد۔۔۔ میں آپ کو محبت میں سرشار ہو کر یہ خط لکھ رہا ہوں۔۔۔ ذرا یاد کرتا ہوں، تو میں نے آپ کا نام پہلی مرتبہ الہ آباد میں اس وقت سنا، جب میں بہت چھوٹا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سب لوگ گھر کی بیٹھک میں جمع تھے اور میز پر رکھے ہوئے بڑے سے ریڈیو کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ ریڈیو کی آواز میں گڑگڑاہٹ تھی، مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا گیا، اتنے میں ایک گرج دار آواز ریڈیو سے ابھری۔۔۔

کوئی انگریزی میں تقریر کر رہا تھا، سب لوگ خاموشی اور دل چسپی سے تقریر سن رہے تھے، تقریر کے آخر میں مقرر نے بلند آواز اور یقین محکم کے ساتھ ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کے ساتھ ہی کمرے میں موجود سب لوگوں نے جذبات سے بے قابو ہو کر بہت زور دار طریقے سے ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ بلند کیا۔۔۔ ساتھ ہی میں نے اپنے ابا اور چچا کو اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے دیکھا۔

قائد، یہ 3جون 1947ء کا دن تھا اور یہ آپ کی جرأت تھی کہ آپ نے پورے جوش اور ولولے کے ساتھ انگریز سرکار کے ریڈیو یعنی ’آل انڈیا ریڈیو‘ پر تقریر کے آخر میں یہ نعرہ بلند کیا۔۔۔ اس وقت میرے پوچھنے پر

ابا نے بتایا تھا کہ بیٹا یہ ہمارے قائداعظم محمد علی جناح ہیں اور یہ جو تم گلی گلی بچوں کے ساتھ نعرہ لگاتے ہو کہ ’بن کے رہے گا پاکستان، لے کر رہیں گے پاکستان‘ تو یہ وہی پاکستان ہے، جس کے لیے قائد اعظم

نے اپنی تقریر میں نعرہ لگایا ہے۔۔۔

قائد، آپ کی جدوجہد آپ کا خلوص آپ کا یقین رنگ لایا اور ہمارا پیارا وطن پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔۔۔ یہ آپ کی شانِ بے نیازی تھی کہ آپ نے کہا کہ پاکستان تو اسی دن بن گیا تھا، جب ہندوستان میں پہلا ہندو

مسلمان ہو ا تھا۔ میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں، جنھوں نے اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھا۔ یہ 18 اگست 1947ء، عید کا مبارک دن تھا کہ جب مجھے آپ کا دیدار نصیب ہوا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں سفید

پاجامہ، ہری اچکن اور سر پر چاند تارے والی ٹوپی پہن کر اپنے ابا کے ساتھ ’عید گاہ‘ بندر روڈ پہنچا۔ ابا نے مجھے بتایا کہ ’جناح صاحب بھی نماز عید کے لیے آئے ہوئے ہیں، نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں نے اپنے قائد کو والہانہ محبت مین گھیر لیا تھا، ابا نے مجھے اپنے کاندھوں پر بٹھا لیا اور یوں میں نے اے قائد آپ کو نظر بھر دیکھا، دبلے پتلے جسم پر شیروانی اور سر پر جناح کیپ آپ کی شخصیت کا سَحر آپ کے چہرے سے عیاں تھا، اس پہلی عید کے موقع پر آپ نے قوم سے خطاب بھی کیا تھا۔

آج پاکستان کو عالم وجود میں آئے ہوئے سات دہائیاں بیت چکی ہیں، ملک کے دولخت ہونے کا دل دوز گھائو کھانے کے بعد پاکستان نے بہت سی مشکلات کا کام یابی سے سامنا بھی کیا ہے۔۔۔ اے قائد، ان واقعات پر ہم آپ سے شرمندہ بھی ہیں، ابھی ہم جیسے پاکستان کو بنتا ہوا دیکھنے والے لوگ موجود ہیں، جو نوجوانوں میں اس دیس کی ترقی کے لیے جذبہ روشن کر رہے ہیں۔ بقول فیض احمد فیض کہ ’دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے‘

والسلام، آپ کا پرستار ایک پاکستانی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔