جواد احمد کا ’’کسانا‘‘

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 17 جنوری 2021
advo786@yahoo.com

[email protected]

گلوکار جواد احمد کے گانے ’’کسانا‘‘ نے دھوم مچا کر رکھ دی ہے۔

جواد احمد عموماً اپنے گانے خود ہی لکھتے ہیں اور خود ہی کمپوز کرتے اور گاتے ہیں۔ انھوں نے اس گانے میں دنیا بھر کے کسانوں کو اپنے باہمی اختلافات پس پشت ڈال کر باہم متحد ہو کر اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کی ترغیب دی ہے انھیں ان کی اہمیت بتائی ہے اس گیت میں معاشرے میں کسان کے کردار اور اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ آپ جو کچھ کھاتے ہیں وہ سب کسان کی مرہون منت ہے۔ تین منٹ کا یہ گیت انتہائی پراثر ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بھارت میں کسانوں کی تحریک دیکھ کر انھوں نے یہ نغمہ بنایا ہے جو دنیا بھر کے کسانوں کے لیے ایک عالمی پیغام ہے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی کسانوں کی حالت زار قابل رحم ہے۔

ہندوستان کی مودی سرکار نے پچھلے سال تین کسان دشمن قوانین نافذ کیے تھے جن میں

  1. Formers Produce Trade of Commerce (Prevention of Facilitation Act, 2020)
  2. The Formers (Empowerment of Production) Agreement on Price Assurance and Formers Services Act 2020.
  3. The essential commodities Amendment Act 2020

شامل ہیں۔ ان قوانین کو کسان دشمن گردانتے ہوئے انڈیا کے کسانوں نے انھیں یکسر مسترد کردیا اور 26 نومبر سے ان کے خلاف باقاعدہ تحریک کا آغاز کردیا گیا۔ پورے ملک کے کسان سڑکوں پر ہیں جس سے نظام زندگی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ مودی سرکار نے ان مظاہروں کو روکنے، تحریک کو ختم کرنے کے لیے دھونس، دھمکی، لالچ اور مکر و فریب تمام حربے استعمال کرکے دیکھ لیے لیکن تحریک میں روزافزوں شدت آتی جا رہی ہے۔ معاملات حکومت کے قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں ملک کے تمام طبقات کی ہمدردیاں اور حمایت کسان تحریک کے ساتھ ہیں۔

گزشتہ دنوں انڈیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران مذکورہ قوانین کے اطلاق کے خلاف حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ زندگی و موت کے معاملات ہیں۔ ہمیں حکومتی قوانین سے متعلق تشویش ہے اور احتجاج سے متاثرہ افراد کے جان و مال سے متعلق بھی تشویش ہے۔ ہم اس مسئلے کو فوری حل کرنا چاہتے ہیں۔

بحران کے خاتمے کے لیے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں، لیکن اب احتجاج کرنے والے کسان سپریم کورٹ کی کارروائی پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔ گلوکار جواد احمد ایک پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھنے والے قلم کار، ہدایت کار اور گلوکار ہیں خود بھی انجینئرنگ کی ڈگری کے حامل ہیں۔ حساس طبیعت اور درد دل رکھنے کی وجہ سے اپنے اردگرد رونما ہونے والے حالات و واقعات کو محسوس کرتے ہیں تو اس میں اپنا حق ادا کرنے کے لیے کمربستہ بھی رہتے ہیں۔

ملک کے پسماندہ، ناخواندہ، حقوق سے محروم زیادتیوں کے شکار طبقات ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتے ہیں۔ انھوں نے ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ مہم چلائی، ناخواندگی کے خلاف مہم کے تحت پسماندہ علاقوں میں درجنوں اسکول کھولے، پولیو مہم میں حصہ لیا، منشیات کے استعمال کے مضمرات سے آگہی کے لیے کام کیا اس سلسلے میں انھیں وزارت صحت اور یونیسیف کی جانب سے ایمبیسڈر بھی مقرر کیا گیا تھا۔

2012 میں کراچی کی بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے سانحے پر بھی وہ دہل کر رہ گئے تھے جس میں تین سو کے قریب انسانی زندگیاں تلف ہوئی تھیں وہ فوری طور پر کراچی آکر لواحقین کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوئے۔

سائٹ ایریا میں Pakistan Institute of Labour of Research (PILOR) اور مزدور رہنماؤں کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی، اس موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں مزدوروں کا استحصال اور ان کے ساتھ ناقابل برداشت زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ حکمران بھول چکے ہیں کہ اگر مزدور اکٹھے ہوگئے تو انقلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ پاکستان میں مزدوروں کو انسان نہیں مشینی پرزہ سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے اس موقع پر کہا تھا کہ میں نے آج فیصلہ کیا ہے کہ اب میں گلوکاری کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی جنگ ان کے شانہ بہ شانہ لڑوں گا۔ بلدیہ فیکٹری میں مزدوروں کے ساتھ رونما ہونے والے سانحے کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا میں ان مزدوروں کی آواز ایوانوں تک پہنچاؤں گا۔ میں نے مزدوروں کے لیے گیت تیار کیا ہے جو حادثے کا شکار ہونے والے ہر فرد کی آواز ہوگا۔ جو ان کے ساتھ عقیدت و محبت اور ہمدردی اور اس دعا کے ساتھ ہوگا کہ مستقبل میں ایسا نہ ہو۔

جواد نے کہا تھا کہ انھیں متاثرین کے لیے چندہ یا امداد جمع کرنے کے لیے کنسرٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن میں اس کے خلاف ہوں اور چاہتا ہوں کہ مزدور جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ امداد اور چندے کے منتظر نہ رہیں۔ انھوں نے بلدیہ فیکٹری کے سانحے کو اجاگر کرنے اور مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کے لیے کراچی کے علاوہ دیگر بڑے شہروں میں سانحہ کی تصویری نمائش اور کنسرٹ کا انعقاد کیا تھا۔

سانحات کے مواقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ سیاسی، سماجی، شوبز اور فقہ تصویریا سے تعلق رکھنے والی شخصیات، وقتی، علامتی یا جذباتی طور پر بہت دعوے اور اعلانات کردیتی ہیں لیکن ان پر عمل پیرا نہیں ہوتیں۔ مگر سانحہ بلدیہ فیکٹری کے موقع پر مزدوروں و مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کرنے والے جواد احمد بلدیہ سانحہ پر ’’میں بھی تو انسان ہوں‘‘ سے لے کر کسان تحریک کے ’’کسانا‘‘ تک مزدوروں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں وہ طب، تعلیم اور معاشی انصاف اور مساوات کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں ہمیں ایسے افراد کی ستائش اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔