ماضی کی ڈیلز اور این آر او کا خمیازہ عوام کو بھرنا پڑ رہا ہے، شہزاداکبر

ویب ڈیسک  پير 18 جنوری 2021
براڈ شیٹ کو 21 میں سے 20 ملین صرف شریف فیملی کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں، معاون خصوصی احتساب۔ فوٹو:فائل

براڈ شیٹ کو 21 میں سے 20 ملین صرف شریف فیملی کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں، معاون خصوصی احتساب۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: معاون خصوصی داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ براڈ شیٹ کیس سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ ماضی کی ڈیلز اور این آر او کا خمیازہ عوام کو بھرنا پڑ رہا ہے.

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کے معاملے پر ملک میں بڑی بحث ہو رہی ہے،  براڈ شیٹ کے وکلا سے تحریری طور پر وہ فیصلے پبلک کرنے کی اجازت لی جو پہلے پبلک نہیں تھی، وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے براڈ شیٹ کے وکلا سے اپنے وکلا کے ذریعے رابطہ کیا، اور اب حکومت براڈ شیٹ معاملےکےتمام حقائق سامنے لےآئی ہے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ نیب اوربراڈشیٹ کے درمیان معاہدہ جون 2000 میں ہوا، جولائی2000 میں انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری فرم سے ایک دوسرا معاہدہ ہوا، دسمبر 2000 میں نوازشریف ڈیل کرکے سعودی عرب چلے گئے تھے، 28  اکتوبر2003 میں نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ منسوخ کردیا۔  براڈشیٹ کےساتھ جنوری2016 میں لائیبلٹی کا کیس شروع ہوا، اگست2016کو اس لایبلیٹی کیس کی سماعت شروع ہوتی ہے، براڈ شیٹ کے معاملے پرہائیکورٹ فیصلے پر حکومت پاکستان نے جولائی 2019 کو اپیل فائل کی تھی، اس کا فیصلہ براڈشیٹ کے حق میں آیا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ عوام کو براڈشیٹ کیسز ماضی کی ڈیلیں اور این آراو کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہیں، 31 دسمبر2020کو براڈ شیٹ کو مکمل ادائیگی کردی گئی، 20 مئی 2008 میں براڈشیٹ کے ساتھ سیٹلمنٹ ہوئی اور 1.5 ملین ڈالرز کی ادائیگی ہوئی، 21 ملین کی ادائیگی میں شام گروپ کی مد میں 48740 ڈالر دینا پڑے، شیرپاؤ گروپ کے مد میں 2 لاکھ  ڈالر دینا پڑے، 21 میں سے 20 ملین ہمیں صرف شریف فیملی کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں، ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ ماضی کی ڈیلز اور این آر او کا خمیازہ عوام کو بھرنا پڑ رہا ہے، ہمیں  2007 کے این آراو کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی رہی ہے، نوازشریف کی ایون فیلڈ پراپرٹی کی تحقیق کا حصہ بھی براڈ شیٹ کو دینا پڑا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔