سندھ میں 18جنوری کوہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر ناگزیر

سید اشرف علی  بدھ 1 جنوری 2014
عدالتی فیصلے نے قانونی معاملات بدل دیے،الیکشن کمیشن کے نئے حکم نامے پر عمل کرینگے، حکام۔ فوٹو: فائل

عدالتی فیصلے نے قانونی معاملات بدل دیے،الیکشن کمیشن کے نئے حکم نامے پر عمل کرینگے، حکام۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ ہائی کورٹ کے بلدیاتی حلقہ بندیوں اور طریقہ انتخاب کے حوالے سے فیصلے نے18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے کئی سوالات پیدا کردیے ہیں اور اس فیصلے سے انتخابات مارچ تک کرانے کی پیپلزپارٹی کی تجویزاورکوششوں کوبلواسطہ فائدہ پہنچے گا۔

اگرچہ پیپلزپارٹی اپنی اس خوشی کا اظہارکرنے کے بجائے یہ تاثردے رہی ہے کہ اب جوکچھ ہورہا ہے اور وہ عدلیہ کے حکم سے ہورہا تاہم سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی قوانین میں غیرمعمولی سقم رکھنے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ اس بنیاد پرالیکشن کوملتوی کرنے یا اس کی تاریخ کوآگے بڑھانے کیلیے مخالفین کوجواز پیش کردیاجائے سانپ بھی مرگیا اورلاٹھی بھی نہیں ٹوٹی کے مصداق عدالت سے مخالفانہ فیصلے آنے سے الیکشن کی تاریخ آگے بڑھ جانے کے غیرمعمولی امکانات کے باعث پیپلزپارٹی کوبظاہراور فی الحال کامیابی ہوگئی ہے تاہم اس بلدیاتی ترامیم سے ایم کیو ایم کواپنا میئرلانے کیلیے ناکوں میں جوچنے چبانے پڑتے ایم کیوایم اب اس سے محفوظ نظر آتی ہے تاہم اس بارے میں کوئی حتمی رائے یا تجزیہ پیپلزپارٹی کے سپریم کورٹ میں جانے کے بعد وہاں سے آنیوالے فیصلے کی بنیاد پرہی کیا جاسکتا ہے دوسری طرف الیکشن کمیشن کے ذرائع کاکہنا ہے کہ ہائیکورٹ کی جانب سے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں ترامیم کوکالعدم قرار دیے جانے کے بعد سندھ میں انتخابی شیڈول میں تبدیلی اور18جنوری کو ہونے والے انتخابات میں کا انعقاد ناممکن نظرآتا ہے اوراس میں تاخیر ناگزیرمعلوم ہوتی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی ہائیکورٹ کے فیصلے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیدیا ہے، پینل امیدواروں کی شرط کے قانون کے کالعدم کے بعد اب چیئرمین و وائس چیئرمین کے کاغذات نامزدگی دوبارہ پرکیے جانا لازمی ہوگئے ہیں ، قائم مقام ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن شیرافگن نے کہا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں رپورٹ آج( منگل) اعلیٰ حکام کو بھیج دی جائے گی، الیکشن کمیشن کے نئے حکم نامے کے مطابق عمل کیاجائیگا جب تک صوبائی الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کے مطابق کارروائی کرے گی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کیلیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے امیدواروں کے نام ودیگر تفصیلات انتخابی شیڈول کے تحت پیرکوالیکشن کمیشن کے دفاترکے نوٹس بورڈ پرآویزاںکردیے گئے ہیں جبکہ اپیلیں منگل کودائرکرائی جائیں گی،الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق ہائیکورٹ کی جانب سے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی تینوں ترامیم کوکالعدم قراردیے جانے کے باعث قانونی امور مکمل طور پر تبدیل ہوچکے ہیں جس کے تحت اب موجودہ انتخابی شیڈول کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔

عدالت عالیہ کے حکم کے تحت سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کے تحت تشکیل پانے والی بلدیاتی حلقہ بندیاں، پینل کی لازمی شرط کالعدم قراردیے جانے کے بعد انتخابی قوانین تبدیل ہوچکے ہیں ، اس فیصلے کے بعد انتخابی شیڈول میں تبدیلی اور18جنوری کوہونے والی پولنگ میں تاخیرناگزیرہے، سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم سے قبل 4 کونسلرز، خواتین، لیبر/کسان اور اقلیت کی ایک نشست، چیئرمین وائس چیئرمین نے27نومبر کو ہونے والے انتخابات کیلیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، موجودہ انتخابی شیڈول کے تحت6کونسلرز، خواتین، لیبر/کسان اور اقلیت کی ایک نشست پر امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، چیئرمین وائس چیئرمین کیلیے براہ راست انتخابات کی شرط ختم کردی گئی تھی تاہم عدالت عالیہ کے حکم کی روشنی میں اگر الیکشن کا انعقادکرایا جاتا ہے تو چیئرمین و وائس چیئرمین کیلیے کاغذات نامزدگیاں جمع کرانا ہونگی،2 کونسلرزکی تعدادکم کرنا ہوگی۔

پرانے انتخابی شیڈول کو بھی بحال کیے جانے کا امکان ہے تاہم حلقہ بندیوں کو قانونی طور پردرست کرکے نئے امیدواروں کیلیے کاغذات نا مزدگی جمع کرانے کیلیے مہلت دینی ہوگی، ذرائع نے کہاکہ2001کے تحت حلقہ بندیوں میں الیکشن کی صورت میں یونین کمیٹیز و یونین کونسلوں کی تعداد میں کمی کرنی ہوگی، قانونی معاملات میں یکسر تبدیلی آچکی ہے اور کئی ابہام بھی پیدا ہوچکے ہیں، ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن شیر افگن نے کہا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم نامے کا مشاہدہ کیا جارہا ہے، ہائی کورٹ کے فیصلے نے قانونی معاملات بالکل بدل دیے ہیں، اس فیصلے کی روشنی پر مبنی رپورٹ منگل کوتیارکرکے الیکشن کمیشن کے اعلیٰ حکام کو بھجوادی جائے گی،الیکشن کمیشن کے اعلیٰ حکام جوحکم جاری کریں گے اس پر عملدرآمدکیا جائے گا جب تک سندھ الیکشن کمیشن موجودہ انتخابی شیڈول کے تحت کارروائی انجام دیتی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔