کہاں سے آئے صدا… (آخری قسط )

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 20 جنوری 2021
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

آزادی کے نام پر عورت کی جس قدر تذلیل کی جا رہی ہے، عورت ہونے کے ناتے محترمہ عامرہ احسان اس پر بہت ملول اور دل گرفتہ ہیں۔ اپنی کتاب ’’کہاں سے آئے صدا‘‘ میں وہ بڑے دردِ دل کے ساتھ بار بار اس کا اظہار کرتی ہیں۔

ایک جگہ لکھتی ہیں ’’ ذلّت کے عمیق گڑھوں سے مغرب کی عورت نکلی بھی تو دوسری انتہاپر رگیدی گئی۔ مساوات اور آزادی کے نام پر وہ ایک کھلونا بن کر رہ گئی،پرسکون گھر اور عافیت کدے سے محروم۔

مصنفہ احساسِ کمتری کاشکار ہونے والے نوجوانوں سے مخاطب ہوتی ہیں کہ قومیں عروج وزوال کا شکار ہوتی رہتی ہیں، جس طرح آج انگریزی زبان پر عبور وجہ تفاخر ہے اور یورپی لباس برتری کی علامت سمجھا جاتا ہے، اسی طرح چند صدیاں قبل عربی پر عبور اورجبہ ودستار ترقی و برتر ی کی علامات تھیں۔

اس ضمن میں مصنفہ نے ایک پادری الوارد کا خط شیئر کیاہے، جو لکھتا ہے،’’ہمارے مہذب عیسائی نوجوان اپنے لباس، وضع قطع اور چال ڈھال میں عربوں کی نقالی کرتے ہیں اور ان کی ثقافت سے مرعوب ہیں۔وہ عربی زبان کی بلاغت کے قائل ہیں۔مسلمانوں کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور ان کے دقیق امور زیرِ بحث لاتے ہیں۔ وہ اپنی زبان پر توجہ نہیں دیتے۔ صدحیف ! سو میں سے شاید ایک ہو جو لاطینی میںاپنے دوست کی خیریّت معلوم کرنے کو خط لکھ سکے‘‘۔

افسوس کہ مسلمان اپنی اس عظیم میراث (علم اورتحقیق )کی حفاظت نہ کر سکے تو اسے یورپ لے اُڑا ،جس پراقبالؒ نے دل گرفتگی میں کہا،

لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل

خشتِ بنیادِ کلیسابن گئی خاکِ جحاز

صدیوں پہلے کلیسا کا نظام بّرِ صغیر میں آجکل نظر آنے والی جہالت اور جعلی پیروں کے ٹونے ٹوٹکے کے کاروبار ہی کی طرح تھا،وہاں بھی اُسی طرح پادری مذہب کا ٹھیکیدار بن گیاتھا جس طرح یہاں مُلّا اورپیرہے۔ نبی کریم ﷺ نے یہ مذہبی استحصال اور اجارہ داری ختم کی اور خالق و مخلوق کے درمیان  پردوں کو گرادیا ۔

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے۔  پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھادو۔

خالق نے خوشخبری سنا دی کہ ’’ اے نبیﷺ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادو کہ میں ان کے قریب ہی ہوں ، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔‘‘ مزید کہاکہ’’ تم خواہ چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے وہ تو دلوں کے حال تک جانتا ہے‘‘۔مصنفہ نے تاریخی واقعات کا غیر جذباتی انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے صحیح لکھاہے کہ چرچ کے جبراور استحصال نے  شدید ردِّ عمل پیدا دیا۔یورپ میں علمی اور سائنسی ترقی کے دلدادہ طبقے میں پاپائیت کے خلاف شدید نفرت پیدا کردی۔ وہ اس حد تک آگے نکل گئے کہ خدا، غیب، انبیاء اور آخرت سے بھی انکار کر بیٹھے ۔ تحریکِ اصلاحِ مذہب بالآخر انکارِ مذہب پر منتح ہوئی۔ گویا سردرد کا علاج کرتے کرتے سرہی اڑادیا۔

ڈاکٹر اقبالؒ نے آج سے سو سال پہلے ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘میں ابلیس کے منہ سے اس کے دل کی (اور آج کے عالمی چوہدریوں کے دل بھی) آواز نکلوادی تھی کہ اُنکا اصل حریف کمیونزم نہیں اسلام ہے۔

مزدکیت فتنہء فردا نہیں اسلام ہے

آج شرارِ بولہبی کے وارثوں نے مسلمانوں کو خدائی تعلیمات کا باغی بنانے کے لیے لبرل ازم اور سیکولرازم کی اصطلاحات ایجاد کیں۔

مصنفہ نے درست لکھا ہے کہ ’’ہمارے ہاں 9/11کے بعد مغرب کی نظریاتی یلغار کے آگے پرویز مشرفّ فوراً ہی ڈھیر ہوگیا۔ اُس نے روشن خیالی، اعتدال پسندی اور صوفی اسلام جیسی دل لبھانے والی اصطلاحیں بیچنے کی کوشش کی مگر یہ سَودا نہ بک سکا اور مسلم دانشوروں نے ان اصطلاحوں کے پیچھے چھپے ہوئے اصل ایجنڈے کوبھانپ لیا‘‘۔ اصل ایجنڈکیا تھا؟ یہ ہے کہ مسلمان Divine Guidance ماننے سے انکار کردیں۔

وہ اپنے خالق اور مالک کے احکامات کو حرفِ آخر کے طور پر قبول نہ کریں، بلکہ ہمارے تجویز کردہ طرزِ حیات کی پیروی کریں ۔مسلمان نماز ، روزے ،اور حج تک محدود رہیں اور اسلام کو نظامِ حیات کے طورپرنافذ کرنے کا خیال دل سے نکال دیں۔ مسلم نوجوان مغربی تہذیب کو اپنا لیں، اسکے لیے انھوں نے اپنا نظریہء حیات (Code of Life)اپنے پٹّھو حکمرانوں کے ذریعے نافذکرایا۔ مخلوط رقص کی محفلوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ بلاخوف سُود اور سُور کھائیں اور عیش کریں ۔ مسلم تہذیب اور کلچر کو حقیر سمجھ کر اس سے منہ موڑ لیں اور اسلام کے نام لیواؤں کو دقیانوسی سمجھ کران سے دور رہیں۔ اسکے لیے انھوںنے وطنِ عزیز میں حیاء کے قلعے پر بھرپور حملہ کر کے اسکے کافی حصوں کو مسمار کر دیا ہے۔

حیا شکن آپریشن کے لیے ٹی وی اسکرین کو استعمال کیا گیا اور ان کے ذریعے اپنا کلچرلوگوں کے بیڈرومز تک پہنچادیا گیا۔ مسلمانوں کا احساسِ تفاخر ختم کرنے کے لیے نصاب میں سے ہر وہ موادنکال دیاگیا جسے پڑھ کر مسلم نوجوان فخر کر سکیں۔لڑکیوں کی تعلیمی سرگرمیوں میںبرائیڈل شوز، فیشن شوز کیٹ واک اور مردانہ کھیل شامل کرائے گئے، کھیلوں میں عورتوں کے لیے مخصوص لباس پہننا لازم قرار دیا گیا ۔ ا س کا مقصد کھیلوں کے فروغ یا عورتوں کی جسمانی صحت وغیرہ سے ہرگز نہیں تھابلکہ اس کا مقصد عورتوں کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔

مصنفہ نے صحیح لکھّا ہے کہ مسلمانوں کو سیکولرازم کے سبق پڑھانے والے اور مذہب کو ریاستی امور سے بیدخل کرنے کی تلقین کرنے والے اندر سے کٹرّ مذہبی ہیں۔ اس بات کی تصدیق ہمارے امریکا میں مقیم دوست بھی کرتے ہیں اور بتاتے ہیںکہ بُش جونیئر کی تقریریں سنکر لگتا تھا کہ کوئی پادری تقریر کر رہا ہے ۔ وائٹ ہاؤس میں دفتری معمولات کا آغاز تلاوتِ انجیل سے ہوتا رہااورعراق اور افغانستان کی جنگ میں موبائل چرچ ساتھ رہا۔

ہمارے ہاں بھی کچھ مذہبی انتہاپسندوں کی متشدّد کاروائیوں سے متنفّر ہو کرکئی لوگ بھولپن میں سیکولرازم  کی بات کر جاتے ہیں، مگر وہ اس کی معنویّت سے پوری طرح آگاہ نہیںہوتے۔ سیکولرازم کا مطلب ہے کہ خالق اور مالک کی ہر با ت ماننے کی ضرورت نہیں، کبھی موڈ بنا تو نماز پڑھ لی نہ بنا تو نہ پڑھی، لبر لزم کا مطلب ہے، نظامِ حکومت چلانے کے لیے اور اپنا سیاسی معاشی عدالتی اور تعلیمی نظام تشکیل دینے کے لیے اﷲ اور رسولﷺ کے احکامات کی پیروی کے بجائے گوروں سے ہدایا ت لی جائیں۔

جب کہ مسلمان ہونے کا تو مطلب  ہی خود سپردگی ہے مگر سیکولرازم یا لبرل ازم اﷲ کی غلامی قبول کرنے اور اس کے سامنے مکمل surrender کرنے کی نفی کرتا ہے اور خدا کی خدائی سے انکار اور بغاوت کی تعلیم دیتا ہے۔

اﷲ سبحانہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں:انسان اپنی آزادی اﷲ کے ہاتھ بیچ کر مسلمان ہوتا ہے۔ (سورہ توبہ)

مسلمانوں کی نئی نسل کو ورغلانے کے لیے حیا باختہ کلچر کوفروغ دینے اور بے سمت کر دینے والی تعلیم کی اشد ضرورت تھی ، جس کا انتظام بخوبی کردیا گیاہے۔

علامّہ اقبالؒ نے ’پس چہ بایدکرد‘ میں ’ حکمتِ فرعونی‘ کے عنوان تلے اپنے کرب کا اظہار کیا ہے کہ اہلِ یورپ کی حکمت و دانائی مکرو فریب کے سوا کچھ نہیں، جس سے صرف جسم کے تقاضے پورے ہوتے ہیں مگر روح مردہ ہو جاتی ہے اور معاشرہ حیاء کے زیور سے محروم ہو جاتا ہے۔

محترمہ عامرہ احسان نے کیا خوب لکھا ہے کہ عفت، عصمت اور راحت تین بہنیں ہیں، عفت وعصمت رخصت ہو جائیں تو راحت بھی ساتھ ہی چلی جاتی ہے، پیچھے صرف اضطراب ،وحشت پر اگندگی اور دیوانگی بچتی ہے۔ اسی دیوانگی کے باعث عورت نے اپنے آپ کواتنا ارزاں کردیا ہے کہ اس کی ساری کشش جاتی رہی ہے۔ ادھر خالق کائنات اورا س کے دین نے عورت کوتحفظ دیا اورتکریم عطا کی۔ یہاں تک کہ جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی۔

کتاب کی مصنفہ نے یورپی مفکّر وں کے علاوہ فرائیڈ اور ڈارون کے نظریات پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے اور انتہائی منطقی دلائل سے ان کی ہوائی تھیوریوںکے پرخچے اڑا دیے ہیں۔

اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ (یونس:66)

(وہ صرف وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں)

اقبالؒ کہتے ہیں   ؎

عقل بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں

مغرب کے لیے صرف ایسا اسلام قابلِ قبول ہے جو بے جان ہو ، جہاد اور اسلامی حکومت کے تصور سے خالی ہواور اﷲ کے بجائے ہرطاقت کے آگے سرتسلیم خم کرنے والا ہو۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک میںبڑا کام ہورہا ہے۔کتاب کاآخری باب ’نسوانیت کی موت‘ایک شاہکار تحریر ہے ۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جو ایک روشن ضمیر اور صاحبِ بصیرت خاتون نے ابتری، بے چینی، بے قراری ،احساسِ کمتری اور نفسیاتی عوارض میں مبتلا آج کی ماڈرن عورت کو دکھایا ہے۔

ارضِ پاکستان کی ہرپڑھی لکھی ماں اور تعلیم یافتہ بیٹی کومحترمہ عامرہ احسان کی اس پکار کو حرزِ جاں بنانا ہوگا۔ تبھی ایک ایسی نسل تیار ہوگی اور اعلیٰ اخلاق وکردار کی حامل ہوگی جو رزقِ حلال کھائے گی ، جو ہرقسم کی کرپشن سے پاک ہوگی اور انصاف کی علمبردار ہوگی۔

’کہاں سے آئے صدا‘ ملک کے ہر تعلیمی ادارے کی لائبریری کی زینت بننی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔