حق مغفرت کرے عجیب ’’مردہ مرد‘‘ تھا

سعد اللہ جان برق  بدھ 20 جنوری 2021
barq@email.com

[email protected]

ہمیں تو ڈر لگلنے لگا ہے، وہ بھی کچھ کم نہیں بہت زیادہ ڈر لگ رہاہے، وہ بھی کسی اور جانب سے نہیں خود اپنے آپ سے۔اس جہاں سے اور اس حضرت انسان سے۔کسی باہر کی مخلوق سے تو ہم نہیں ڈرتے کہ وہ آکر ہم سے کیا لے جائے گی۔خود ’’اپنوں‘‘نے ہمارے پاس کچھ چھوڑا ہو تو وہ لے جائیں گے۔بقول قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کووئڈ نائنٹین،خالی میدان سے آندھی کیا لے جائے گی بلکہ بقول مرشد

نہ لٹتا دن کو تو کیوں رات کو یوں بے خبر سوتا

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو میں

اب تک کوئی کھٹکا نہیں تھا لیکن اب ہے اور بہت ہے، جب سے ہم نے اس کورونا عرف کووئڈ نائنٹین کو دیکھا ہے کہ لوگ کس طرح اس آفت سے بھی اپنے لیے ’’یافت‘‘نکال رہے ہیں بلکہ لگتاہے کہ ظالم بے دردوں سنگدلوںکے لیے ایک’’نعمت‘‘آسمان سے اتری ہو۔یا جب سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ لیڈران کرام اور رہزن عظام کتنی بے دردی اور ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایک ادبی ’’حقیقہ‘‘ یاد آیا ۔کسی تقریب میں ایک ہندی ادیب کو انگریزی بولتے دیکھ کر منیرنیازی نے کہا، یہ تو اتنے فرفر سے انگریزی بول رہاہے جسے فلاں صاحب فرفر جھوٹ بولتا ہے۔

فلاں صاحب نے یہ بات سن لی اور منیر نیازی کو بے نقط سنانے لگا۔منیرنیازی نے ہنستے ہوئے کہا، دیکھا میں ٹھیک کہہ رہاتھا نا۔ ہم کسی کا نام نہیں لیں گے کیونکہ نام لینے کے لیے کمپیوٹر کا دماغ اور کیلکولیٹر جیسی محنت چاہیے، صرف اتنا بتادینا کافی ہے کہ سترسال سے آج تک کم ازکم سیاسی اور سرکاری پلیٹ فارم سے تو سچ بولنے کی غلطی نہیں ہوئی ہے۔ خیر اس فرفر اور کروفرسے جھوٹ بولنے کو بھی گولی ماریے بولنے والوں سمیت۔ہمارے ڈر کا تازہ ترین سبب انسان کی اتنی تیزرفتارترقی اور ایجادات ہیں کہ

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں

روز اک طرز نئی موت کی ایجاد کرے

ریڈیو سے لے کر موجودہ بلائے عظیم موبائل اور انٹرنیٹ تک کی تیزرفتار ترقی تو ہمارے سامنے ہوئی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ ایک دو خوبیوں میں چھپا کر کتنی ’’برائیوں‘‘کو لے کر آتی رہی ہے اور معمولی سا لولی پاپ دے کر ہم سے کیا کیا کچھ چھینتی رہی ہے بلکہ یوں کہیے کہ زہرہلاہل کو شوگر کوٹڈ کر کے دیتی رہی ہے۔اگر حقیقی آرام وسکون کی بات کی جائے تو انسان ترقی کے سفر میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے پھسلتا رہاہے۔پتھر کے دور کے انسان کے پاس یہ تمام لگژریاں نہیں تھیں لیکن اس کے پا س یہ انسان کو تباہ کرنے والے ہتھیار بھی نہ تھے، صرف پتھر تھا۔ انواع واقسام کی خوراکیں اور پوشاکیں نہیں تھیں لیکن تاجر لیڈر اور رہنما بھی نہ تھے، دوائیں نہیں تھیں لیکن بیماریاں بھی نہیں تھیں بلکہ ’’بیماریاں‘‘اس لیے نہیں تھیں کہ دوائیں نہیں تھیں۔خیر اس ترقی معکوس کا سلسلہ نہ صرف دراز تر ہے بلکہ رلانے والا بھی ہے اور ڈر جو ہمیں ہے وہ یہ کہ کہیں ایجادات کرتے کرتے وہ دن نہ آجائے کہ صرف ایجادات رہ جائیں اور یہ خود کہیں ان میں گم ہوجائے۔صفر ہوجائے، نفی ہوجائے۔

تم چلے آؤ تو آہٹ بھی نہ پاؤں اپنی

درمیاں ہم بھی نہ ہو یوں تجھے ملنا چاہیں

پہلے اس نے کبوتر قاصد اور نامہ بر کا خاتمہ کر دیا۔  پھر اس’’گھڑی‘‘کو مار ڈالا جس کی ریت کی بوتل سے ابتدا ہوئی تھی اور دنیا بھر میں اس کے چرچے عام تھے بلکہ انسان اور اس کا سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا لیکن اس گھڑی کی بساط اس نے یوں لپیٹ دی جسے کبھی تھی ہی نہیں۔ پھر مارکونی کو کون مارگیا؟ اس کے بعد اس سکندر نے فتوحات پر فتوحات حاصل ک لیکن آج انسان بغیر جنگ کے روز بروز مفتوح ہوتا جارہاہے اور شاید بہت جلد وہ دن آجائے جس سے ہم ڈرنے لگے ہیں اور بہت ڈرنے لگیں ہیں۔کیونکہ انسان کے بھی ہاتھ، پاؤں ،کان ، ناک اور منہ بندھ چکے ہیں۔

ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے

انسان کے پاس جو سامان اور مال ومتاع تھا جو اس نے بڑی محنت اور جانکاہیوں سے کمایا تھا۔ آرام، اخلاق،سکون،اطیمنان اور چین کی نیند، وہ سب کچھ چھن چکا ہے، یہاں تک انسان کی وہ واحد جائے پناہ بھی نہیں رہی جسے خلوت اور تخلیہ کہا جاتا تھا

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا

بجتے رہے ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا

ہمیں تو لگتا ہے کہ شاید مستقبل سے ان کو ختم کرنے کے لیے کوئی’’ٹرمینٹر‘‘ بھی روانہ ہوچکا ہے جس کے آثار دکھائی بھی دینے لگے ہیں اور اب اس ’’تناور درخت‘‘انسان یا خلیفہ کی جڑیں کاٹی جارہی ہیں کیونکہ کسی بڑے اور مضبوط پیڑ کو اکھاڑنے کے لیے پہلے اس کی جڑیں نکالنا ضروری ہوتااور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔انسان نے سفر کی ابتدا ’’فرد‘‘کے مرحلے سے کی، جس طرح حیوان ہوتے ہیں۔ پھر اس نے خاندان بنایا، خاندان سے قبیلہ بنا، قبیلے سے یونین،پھر قوم، پھر ریاست اور انسانیت یا جدید اصطلاح میں گلوبل ویلج۔ اب ظاہر ہے کہ واپسی کا سفر بھی ایسے ہی مرحلہ وار ہوگا جس کی ابتدا ہوچکی ہے۔

باقی سب کچھ تو پہلے ہی سے مٹ چکا ہے۔ آخر میں ’’خاندان‘‘ بھی ’’شخصی آزادی‘‘ کی قربان گاہ پر چڑھادیا گیا۔ ساری جڑیں اور رشتے ناتے کاٹے جاچکے ہیں۔ بچوں کے کمرے والدین سے الگ کیے جاچکے ہیں۔ بیوی اور شوہر الگ الگ جگہوں پرکام کررہے ہیں۔گویا ’’فرد‘‘ مکمل طور پر آزاد ہوچکا ہے۔یا یوں کہیے کہ سب کچھ ہو چکا ہے لیکن ابھی اعلان نہیں ہوا ہے، انسان مرچکا ہے لیکن ابھی ’’دفن‘‘ نہیں ہوا ہے بلکہ جسمانی طور پر ’’جنت‘‘اور روحانی طور پر دوزخ میں بھی داخل ہوچکا ہے۔

نہ تو دوستی نے مارا،نہ ہی دشمنی نے مارا

گلہ موت سے نہیں ہے، مجھے زندگی نے مارا

خدا بخشے یا نہ بخشے بہت ہی’’خامیاں‘‘تھیں مرنے والے میں، جنھیں وہ خوبیاں سمجھ بیٹھا تھا اور ان ہی خوبیوں نے اس کا کریا کرم کر ڈالا۔

یہ لاش بے کفن اسد بشرجان کی ہے

حق مغفرت کرے عجیب’’مردہ مرد‘‘تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔