معاشی اعشاریئے بہتر تو پھر مہنگائی کا طوفان کیوں؟ عوام پریشان

ارشاد انصاری  بدھ 20 جنوری 2021
بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ندیم افضل چن کا استعفیٰ مستقبل کے سیاسی متوقع سیاسی منظر نامے کا نکتہ آغاز ہے۔فوٹو : فائل

بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ندیم افضل چن کا استعفیٰ مستقبل کے سیاسی متوقع سیاسی منظر نامے کا نکتہ آغاز ہے۔فوٹو : فائل

 اسلام آباد: حسب روایت بہت سے سیاسی موسمی پرندے پی ٹی آئی کے جزیرے سے اڑان بھرنے کو تیار ہیں انکا اگلا پڑاو کہاں ہوگا بس یہ طے ہونا باقی ہے۔

ان کا پڑاؤ ہی یہ طے کرے گا کہ اقتدار کا ہما اب کس کے سر بیٹھنے  والا ہے۔ ملک میں اقتدار کے لئے  جاری اس کھیل میں اپوزیشن  حکومت کو گرانے کیلئے سڑکوں پر ہے اور دوسری طرف حکومت بھی اس صورتحال کا کمال مہارت سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور عوام کا دھیان  ادھر لگا کر اپنا کام دکھائے جا رہی ہے اور خاموشی سے آئی ایم ایف کی شرطیں پوری کرنے میں لگی ہوئی ہے جس کی قیمت آگے چل کر عوام کو مہنگائی کی صورت ادا کرنا پڑے گی۔

پٹرول کی قیمتوں میں یکے بعد دیگرے اضافہ کرنے کے بعد آئی ایم ایف سے پروگرام بحال کروانے کیلئے بجلی مہنگی کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جس کیلئے  پاور ڈویژن اپنی سفارشات بھی دے چکی اور پاور ڈویژن  کی سفارش ماننے کی صورت میں بجلی کی قیمت 15 روپے 35 پیسے ہو جائے گی، ساتھ ہی حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان بجلی کی قیمت میں کمی کیلئے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ حکومتی حلقوں کا ماننا ہے کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کیلئے مختلف تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔

نیپرا کی جانب سے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 3 روپے 30 پیسے اضافے کی سفارش کی گئی تھی جبکہ حکومت بجلی کے ٹیرف میں 2 روپے سے کچھ زائد اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس حوالے سے غور و فکر کیا جا رہا تھا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ آئندہ چند روز کے دوران حکومت کی جانب سے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔

یہاں واضح رہے کہ کچھ روز قبل ہی ذرائع کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام شروع کرنے سے قبل بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سبسڈی کم کر کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھی کچھ روز قبل ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے عندیہ دیا گیا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر اپوزیشن  ان عوامی مسائل کو اپنی تحریک کا محور بنائے اور عوام کی آواز بنیں تو حکومت کو گر بھجوانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔

بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ندیم افضل چن کا استعفیٰ مستقبل کے سیاسی متوقع سیاسی منظر نامے کا نکتہ آغاز ہے اور نہ صرف داخلی سطح پر پہلے بدلتے خارجی حالات کے تناظر میں اگلے ڈیڑھ دو ماہ انتہائی اہم ہیں اور ملک کے سیاسی مستقبل بارے بھی جو کچھ ہونا ہے وہ فروری میں ہی ہونا ہے اس کے بعد معاملات میں ٹھہراو آجائے گا کیونکہ داخلی و خارجی سطح پر پاکستان تحریک انصاف کو درپیش چییلنجز ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں  اور یوں لگ رہا ہے کہ حکومت بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔

خارجی سطح پر پاکستان کیلئے یکے بعد دیگرے بری خبریں آرہی ہیں، براڈ شیٹ کیس میں برطانوی عدالت کے فیصلے کی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ لیز پر لئے گئے طیاروں کی قسط کی عدم ادائیگی پر ملائشیاء میں پی آئی اے کا طیارہ روک لیا گیا جس سے نہ صرف ملک کا امیج بری طرح متاثر ہوا بلکہ حکومتی کارکردگی پر بھی مزید سوالات اٹھنا شروع ہوگئے کیونکہ جس بے خبری کا حکومتی حلقوں کی جانب سے اظہار کیا جا رہا ہے کوئی ذی شعور اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ اچانک سے کسی ملک میں پی آئی اے کے طیارے کو روک لیا جائے اس کیلئے ضابطے کی کاروائی کا پورا ہونا لازم ہے اس لئے یہ ہونہیں سکتا کہ حکومتی حلقے اس سے بے خبر ہوں اور اگر  بے خبر رہے ہیں تو یہ اور بھی تشویشناک بات ہے۔

خارجی سطح پر ابھی ایک اور فیصلہ پاکستان کے خلاف آیا ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیلئے بین الاقوامی قانونی فورم پر ایک اور دھچکا ہے۔ ڈبلیو ٹی او ڈسپیوٹ سسٹم پینل نے اینٹی ڈمپنگ کے کیس میں پاکستان کے خلاف فیصلہ دیدیا ہے جبکہ فیصلے میں  پاکستان کو یو اے ای سے آنے والی پی او پی پی فلم کیلئے عائد کردہ اینٹی ڈمپنگ اقدامات واپس لینے اور پہلے اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کی مد میں پہلے سے وصول کردہ رقم ریفنڈ کرنے سمیت دیگر سفارشات پر عملدآمد کا بھی کہا گیا ہے لیکن ان مشکل ترین حالات میں بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی جانب سے اچھی خبر بھی سامنے آئی ہے جو اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔

موڈیز نے پاکستان کوخوشخبری سنائی ہے کہ2021 میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 1.5فیصدرہنے کی توقع ہے اور مہنگائی کی شرح بھی 8 فیصد سے کم ہونے کی توقع ہے، نجی شعبوں کو قرضوں کی فراہمی 5سے 7فیصد رہنے کا امکان ہے، جبکہ 2022  میں معاشی شرح نمو4.4 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔

پاکستان میں شرح نمو طویل المدتی مستحکم ہو جائے گی اور2021 میں بزنس انڈیکس بھی بہتر ہوگیا ہے ، پاکستان کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کیلئے دنیا کے چند اہم ممالک میں شمار ہوگیا ہے، پاکستان ورلڈ بینک کی رینکنگ میں 136سے 108ویں نمبر پر آگیا ہے کاروبار اگر شروع کرنا ہے تو پاکستان اس میں بھی بہترین ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔

اس میں 58 نکات کی بہتری آئی ہے دوسری جانب اقتصادی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگرچہ یہ اقتصادی اعشاریئے  خطے کے دوسرے ممالک کے  مقابلہ میں زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہیں لیکن جس سیاسی عدم استحکام و غیر یقینی صورتحال جیسے مسائل کا شکار چلے آرہے ہیں ایسے میں یہ بھی نوید کی ایک کرن ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان و وفاقی ادارہ شماریات سمیت دیگر اداروں کی حالیہ رپورٹس کے مطابق ملکی سطح پر بھی کچھ اقتصادی اعشاریوں میں کچھ بہتری آئی ہے۔

اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے ثمرات کو دیر پا بنانے اور اقتصادی ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے ضروری ہے ملک کو درپیش سیاسی عدم استحکام و غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کیا جائے لیکن جو حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں اس میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ تھوڑی بہت اقتصادی بہتری کے آثار پیدا ہونے جا رہے تھے وہ بھی سیاسی عدم استحکام کی نذر ہونے جا رہا ہے کیونکہ اس وقت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیاسی میدان سجا ہوا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور الیکشن کمیشن کے سامنے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اپنائے جانے والے موقف کو اپوزیشن کی جانب سے اعتراف جرم قراردیا جا رہا ہے اور اسی کو لے کر اپوزیشن جماعتوں کا حکومت مخالف اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)وفاقی دارالحکومت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرکزی دفتر کے سامنے احتجاجی مارچ  کئے ہوئے ہے اور اس کیس کو نمٹانے کیلئے دباو بڑھا رہا ہے یہ کیس نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بلکہ خود وزیراعظم عمران خان و ان کی جماعت کے سیاسی مستقبل کیلئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے اور قانونی و سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کا بچ نکلنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا جو شواہد سامنے آئے ہیں اور اسٹیٹ بینک آٖف پاکستان کی جانب سے جن بینک اکاونٹس کی نشاندہی کی گئی ہے  اس سے تو کپتان اور اسکی جماعت کا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے ۔

کیونکہ اگر اس کیس میں عمران خان اور انکی جماعت کے خلاف فیصلہ آجاتا ہے تو اس سے صرف پی ٹی آئی کی حکومت ہی ختم نہیں ہوجائے گی بلکہ پارٹی بھی ختم ہونے کے امکانات ہیں اسی لئے اپوزیشن نے بھی اپنی احتجاجی سیاست کا رخ  پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کی جانب موڑ دیا ہے اور یہی خوف کپتان کو پریشان کئے ہوئے ہیں جس کے باعث تاخیری حربے اختیار کئے جا رہے ہیں اور پچھلے چھ سال سے یہ معاملہ لٹکائے ہوئے ہے اسی بات کو لے کر مخالفتین کی جانب سے کپتان عمران خان پرسب سے زیادہ تنقید ہو  رہی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔