پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ڈیڈ لائن کے بعد کیا حکمت عملی اپنائے گی ؟

شاہد حمید  بدھ 20 جنوری 2021
پی ڈی ایم نے عمران خان حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی جو قریب آرہی ہے۔ فوٹو: فائل

پی ڈی ایم نے عمران خان حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی جو قریب آرہی ہے۔ فوٹو: فائل

 پشاور:  حکومت مخالف سیاسی اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ، عمران خان حکومت کے خلاف اعلان کردہ احتجاجی شیڈول کے دوسرے مرحلے کے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے احتجاج بھی ہو چکا ہوگا جس کے بعد اگلا مرحلہ کراچی میں اسرائیل کے خلاف ریلی کا انعقاد ہے جبکہ سرگودھا میں احتجاجی ریلی اور جلسہ کے ساتھ ہی دوسرا احتجاجی مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔

پی ڈی ایم نے عمران خان حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی جو قریب آرہی ہے تاہم جس کام کے لیے یہ ڈیڈ لائن دی گئی تھی وہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جس کے باعث یکم فروری کو منعقد ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اتحاد میں شامل جماعتوں کو تیسرے احتجاجی مرحلہ کے لیے نئی کہانی شروع کرنی پڑے گی، تاہم دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی ایک جانب تو ضمنی انتخابات کے حوالے سے انتخابی مہم میں تیزی آجائے گی اور دوسری جانب سینٹ آف پاکستان کے مارچ میں منعقد ہونے والے انتخابات کا شیڈول بھی جاری ہو جائے گا۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات کا انعقاد 19فروری کو ہو رہا ہے جس کے تحت خیبرپختونخوا میں جن دو نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے ان میں اورکزئی سے قومی اسمبلی کی نشست کی دعویدار جمعیت علماء اسلام ہے جس نے ملک محمدجمیل کو ٹکٹ جاری کیا ہے جو گزشتہ عام انتخابات میں جے یوآئی کے امیدوار کے خلاف الیکشن کر چکے ہیں لیکن بعد ازاں جے یوآئی میں شمولیت کے بعد اب وہ جے یو آئی کے امیدوار ہیں کیونکہ جے یوآئی والوں کا کہنا ہے کہ اسی نشست پر عام انتخابات میں منتخب ہونے والے رکن اسمبلی منیر اورکزئی کے بیٹوں نے الیکشن میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

ان کے ایک بھائی کی جانب سے الیکشن میں دلچسپی کا اظہار تو سامنے آیا لیکن شاید وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر میدان میں اترنے کے خواہش مند تھے تاہم ایسا نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی شاید میدان سے باہر ہونگے البتہ جے یوآئی کے امیدوار کے مقابلے میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے بعض امیدوار میدان میں ضرور ہیں جنھیں مقابلے سے دستبردار کرانے کی کوششیں جاری ہیں اور پی کے 63 نوشہرہ کا احوال یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام نے تو مسلم لیگ ن کے امیدواراختیار ولی خان کی حمایت کردی ہے لیکن اے این پی سمیت بعض دیگرامیدوار تاحال میدان میں موجود ہیں جنھیں دستبردارکرانے کے لیے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔

تاکہ اختیار ولی کو پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار کے طور پر سامنے لایا جا سکے جن کے لیے اگلے ماہ فروری میں مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نوشہرہ میں جلسہ بھی کرنے جا رہی ہیں جس میں ممکنہ طور پر پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے قائدین کی شرکت بھی متوقع ہے تاکہ اس جلسہ کو نہ صرف انتخابی جلسہ بنایا جائے بلکہ حکومت مخالف شو بھی بنایا جا سکے تاہم اس بارے میں فیصلہ پی ڈی ایم کی پالیسی کے مطابق ہی کیا جائے گا البتہ اورکزئی ہو یا نوشہرہ، دونوں ہی حلقوں پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اچھا خاصا میدان لگے گا

سینٹ انتخابات کا حال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا سے اصل کھلاڑی پاکستان تحریک انصاف ہی ہوگی جو سینٹ کی 7جنرل میں سے پانچ اور خواتین وٹیکنوکریٹ کی دو، دو نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے جبکہ اقلیتی اکلوتی نشست تو ویسے ہی پی ٹی آئی کے حصہ میں آنی ہے ، سینٹ کی جو پانچ جنرل نشستیں پی ٹی آئی کے حصے میں آنی ہیں ان پر ایک جانب اگر پارٹی ورکروں کو ایڈجیسٹ کرنے کے لیے تیاریاں جاری ہیں تو ساتھ ہی ایسے امیدواروں کو بھی تلاش کیا جا رہا ہے کہ جو 2023ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پارٹی اور پارٹی امیدواروں کو سپورٹ کر سکیں۔

شنید ہے کہ جنرل نشستوں پر وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر شبلی فراز تو امیدوار ہوں گے ہی ان کے علاوہ سینیٹر محسن عزیز اور سینیٹر نعمان وزیر کے بھی دوبارہ سینیٹر بننے کا امکان ہے جبکہ دیگر دو امیدواروں کی بھی تلاش کا سلسلہ جاری ہے اور اس سلسلے میں وزیراعلیٰ محمودخان کے علاوہ گورنر شاہ فرمان ،وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو ٹاسک حوالے ہونا ہے تاکہ وہ امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دے سکیں ۔

خیبرپختونخوا سے خواتین کی دو نشستوں کے لیے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشترکو میدان میں اتارا جائے گا تاکہ وہ سینیٹر بن کر ایوان کے اندر بھی حکومتی پالیسیوں اور پروگراموں کا دفاع کر سکیں جبکہ اس کے علاوہ بھی پی ٹی آئی کی ٹاپ قیادت انھیں ایوان کے اندر دیکھنے کی خواہاں ہے جبکہ ان کے ساتھ خواتین کی دوسری نشست کے لیے صوبہ کی ایک اہم شخصیت کی اہلیہ کا نام لیا جا رہا ہے حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک خود اس شخصیت کا نام بھی اس سلسلے میں زیر بحث تھا تاہم جن فرائض کی انجام دہی ان کے سر ہے ان کی وجہ سے ان کا اس موقع پر سینیٹر بننے کے لیے میدان میں آنا ممکن نہیں تھا اس لیے اب خواتین کی نشست کے لیے ان کی اہلیہ کے نام قرعہ نکلنے کا امکان ہے ۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال یہ ہے کہ اگر پی ڈی ایم مشترکہ حکمت عملی بناتی ہے تو اس صورت میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن میں موجود دو بڑی جماعتوں میں سے ایک تو جمعیت علماء اسلام ہے کہ جس کے ارکان کی تعداد چودہ ہے جبکہ ساتھ ہی اے این پی ہے جو گیارہ ارکان رکھتی ہے۔

اگر پی ڈی ایم میں شامل دیگر دوجماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اتفاق کرتی ہیں تو اس صورت میں دو جنرل نشستوں میں سے ایک جے یوآئی اور دوسری اے این پی کو مل سکتی ہے جبکہ  ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے حصے میں ٹیکنوکریٹ اور خواتین نشستوں میں سے ایک، ایک نشست آسکتی ہے جس کے لیے اگر تمام جماعتیں مشترکہ طور پر ووٹ ڈالیں تو ان کو کامیابی مل بھی سکتی ہے تاہم اس کے لیے ان میں اتفاق ہونا ضروری ہے جبکہ اس موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اور مسلم لیگ ق کے ایک رکن کے علاوہ چار آزاد ارکان کے ووٹ بھی انتہائی قیمتی ہونگے۔ رہی بات جماعت اسلامی کی تو جماعت اسلامی اپنے تین ووٹ اے این پی کی جھولی میں ڈالتے ہوئے احسان کا بدلہ اتار سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔