دشنام طرازی اور پراپیگنڈے کے باوجود کسی کی دھونس دھاندلی میں نہیں آئیں گے، چیئرمین نیب

طالب فریدی  بدھ 20 جنوری 2021
جن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا جاتا تھا نیب نے ان سے وصولیاں کرائی ہیں، جاوید اقبال فوٹو: فائل

جن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا جاتا تھا نیب نے ان سے وصولیاں کرائی ہیں، جاوید اقبال فوٹو: فائل

 لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ دشنام طرازی اور مذموم پراپیگینڈے کے باوجود کسی کی دھونس دھاندلی میں نہیں آئیں گے۔

لاہور میں تقریب سے خطاب کے دوران جاوید اقبال نے کہا کہ نیب کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ قانون کی حکمرانی پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ نیب کا مقصود کسی عمل کی تشہیر نہیں بلکہ متاثرین کے نقصان کا فوری ازالہ ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ پلی بارگین قانون کے تحت 2 سال کے کم ترین عرصہ میں ڈھائی ارب کی خطیر رقم ملزمان سے برآمد کروا کر ہزاروں متاثرین میں تقسیم کی گئی ہے۔ نیب میں ہر کسی کے عزتِ نفس کا مکمل طور پر خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ نیب کا نصب العین خدمتِ خلق ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کے خلاف دشنام طرازی کی گئی، مذموم پراپیگنڈا بھی کیا گیا لیکن نیب کسی بھی دھونس و دہاندلی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ پر کام جاری رکھے گا۔ نیب پر تنقید ضرور کی جائے مگر تنقید تعمیری ہونی چاہیے، محض الزام تراشیوں پر مبنی نہ ہو۔

جاوید اقبال نے کہا کہ نیب کی اکاؤنٹیبلٹی سب سے زیادہ ہے۔ کسی ملزم کو گرفتاری کے بعد فوری طور پر معزز عدالتوں کے روبرو پیش کیا جاتا ہے جہاں شواہد کو مدِ نظر رکھ کر ہی ملزمان کا ریمانڈ فراہم کیا جاتا ہے۔ وائٹ کالر کرائم کے مقدمات میں ملزمان کا 90 روزہ ریمانڈ اکٹھا نہیں دے دیا جاتا بلکہ شواہد کی فراہمی پر ہی ریمانڈ فراہم کیا جاتا ہے، جہاں عدالت کو مطمئن کرنا پڑتا ہے اور بادی النظر میں کیس ثابت بھی کرنا پڑتا۔ نیب کے معاملات میں حقائق سے مکمل آگاہی اور قانون کا علم ہونا ضروری ہے صرف تنقید کرنا مناسب نہیں۔

جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ماضی میں جن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا نیب نے ان سے باقاعدہ وصولیاں کی ہیں۔ سفارش اور دھمکی نیب کے دروازے کے باہر ہی ختم ہو جاتی ہے، ہم جس راستہ پر چل رہے ہیں وہ ملک و قوم کی بے لوث خدمت کا راستہ ہے اور اس کی واضح مثال یہ ہے کہ لوگوں کو 2 سال کے قلیل ترین عرصے میں ڈھائی ارب روپے واپس لوٹائے گئے ہیں۔

کاروباری طبقے کی مبینہ شکایات کے حوالہ سے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ آج تک پاکستان کے کسی بزنس مین کو نیب کی وجہ سے کوئی مشکل درپیش نہیں رہی۔ اگر بزنس کمیونٹی کو نیب سے کوئی مشکلات کا سامنا ہوتا تو کیا اسٹاک ایکسچینج ترقی کررہا ہوتا؟ نیب اور عدالتی تحویل کے فرق کو سمجھا جائے، موت کا وقت متعین ہے اور طبعی موت کہیں بھی آسکتی ہے لیکن نیب کی حراست میں مبینہ اموات کا پراپیگنڈا بھی کیا جاتا رہا ہے۔ کرپشن کے خلاف بلا امتیاز اقدامات کئے ہیں اور یہ اقدامات جاری رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔