پنجاب میں جنگلی حیات کے فروغ کی راہ میں بیوروکریسی رکاوٹ

آصف محمود  جمعرات 21 جنوری 2021
پنجاب وائلڈلائف کو 16 پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ کا کوٹہ دیا ہے فوٹو: فائل

پنجاب وائلڈلائف کو 16 پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ کا کوٹہ دیا ہے فوٹو: فائل

 لاہور: وزارت موسمیاتی تبدیلی کی طرف سے کوٹہ ملنے کے بعد پنجاب وائلڈلائف نے پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے دوسری طرف پرائیویٹ گیم ریزرو کے قیام کی اجازت نہیں دی جارہی۔

دنیا بھر میں جنگلی حیات کی بقا اور تحفظ کے لئے غیرقانونی شکار کی روک تھام اورقانونی شکار کو فروغ دیا جاتا ہے۔ نایاب نسل کے ایسے جانور جو بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں ان کے شکارکے لئے ٹرافی ہنٹنگ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی کئی جانوروں جن میں ہمالین آئی بیکس، مارخور، پنجاب اڑیال اورکچھ دیگر جانور شامل ہیں ان کی ٹرافی ہنٹنگ کروائی جاتی ہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اس سال ٹرافی ہنٹنگ کا فیصلہ ڈیڑھ ماہ کی تاخیرسے کیاہے۔ پنجاب وائلڈ لائف کو 16 پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ کا کوٹہ دیا ہے، محکمے نے ٹرافی ہنٹنگ میں حصہ لینے والے غیرملکی شکاریوں سے 15 جنوری تک درخواستیں طلب کی تھیں اس دوران صرد 2 درخواستیں موصول ہوئیں تھین جس کے بعد تاریخ میں 19 جنوری تک کی توسیع کی گئی لیکن کوئی نئی درخواست نہیں آئی ہے، گزشتہ سال پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ کی ریزور فیس 18 ہزار امریکی ڈالر تھی جس میں اس سال اضافے کاامکان ہے۔

پنجاب وائلڈلائف ذرائع کے مطابق غیر ملکی شکاریوں کو ابھی ٹرافی ہنٹنگ کے لئے پرمٹ جاری نہیں کئے گئے ہیں کیونکہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ انہیں کس علاقے میں پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ کروائی جائے گی۔

دوسری طرف پنجاب وائلڈلائف کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیر نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ قانونی طریقے سے شکار کا ایک بہترین ذریعہ ہے جو دنیا بھر میں عام ہے۔  یہ تاثرغلط ہے کہ ٹرافی ہنٹنگ سے نایاب نسل کے جانوروں کی نسل ختم ہورہی ہے اس کے برعکس پاکستان میں سال 2001 میں مارخورکی مجموعی تعداد کا تخمینہ پندرہ سوسے دوہزارکے قریب تھا جواب بڑھ کرساڑھے تین سے چارہزارتک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح پنجاب اڑیال جن کی تعداد چندسال پہلے چار،پانچ سو کے قریب تھی اب چار ہزار سے تجاوزکرچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ کے لئے صرف ایسے جانوروں کی اجازت دی جاتی ہے جو اپنی طبعی عمرپورےکرنے کے قریب اوربوڑھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونیوالی آمدن کا 80 فیصد کمیونٹی بیسیڈ آرگنائزیشنز(سی بی اوز) کودیاجاتا ہے جو جنگلی حیات کی ان پرجاتیوں کی افزائش اورتحفظ کے لئے مقامی سطح پرکام کررہی ہیں۔

ایکسپریس ٹربیون کی تحقیقات کے مطابق پنجاب میں جنگلی حیات کے تحفظ اورافزائش کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کی راہ میں مختلف طریقوں سے رکاوٹیں پیداکی جاتی ہیں جبکہ محکمہ خود بھی جنگلی حیات کے تحفظ اور بقا کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھارہا ہے۔ پنجاب وائلڈلائف مینجمنٹ بورڈ نے چندماہ قبل ہونیوالے اجلاس میں پنجاب کے اندر6 پرائیویٹ گیم ریزورزکے قیام کی عمومی منظوری دی تھی تاہم بیوروکریسی نے ابھی تک ان کے قیام کی اجازت نہیں دی ہے۔ پرائیویٹ گیم ریزورکے قیام کے لئے دو درخواستیں چکوال،دواٹک اورایک اوکاڑہ سے دی گئی ہے۔ پرائیویٹ گیم ریزورسے مرادیہ ہے کہ ایک یاایک سے زائد شہری اپنی ذاتی زمین پر مختلف انواع کی جنگلی حیات کی افزائش کریں گے۔ ان کی اجازت کے بغیر ان کی ملیکتی گیم ریزورمیں شکارنہیں کیاجاسکے گاجبکہ وہ خود بھی پنجاب وائلڈلائف کے شیڈول اورایس اوپیزکے مطابق ہی شکار کرنے کے مجازہوں گے۔

یہ بھی معلوم ہواہے کہ پنجاب میں گزشتہ دس سال کے دوران صرف ایک سی بی اوکے قیام کے منظوری دی گئی ہے اوراب کئی درخواستیں التواکاشکارہیں۔ پنجاب میں سال 2006 میں پہلی سی بی اوبنی تھی اوراب پندرہ سال بعد ان کی تعداد صرف پانچ ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان میں سی بی اوزکی تعداد 65 تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی سی بی اوز کی تعداد پنجاب کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

عالمی سطح پرمعروف وائلڈلائف کنزرویٹرعاشق احمد خان کہتے ہیں کہ سی بی اوز جنگلی حیات کی بقا ،ان کی افزائش اور نشوونما کا بہترین ماڈل ہے۔ مقامی لوگوں کوکچھ فائدہ دیکرجنگلی حیات کوتحفظ دیاجاسکتا ہے، ٹرافی ہنٹنگ سے جو رقم حاصل ہوتی ہے اس کا کچھ حصہ مقامی کمیونٹی کودیاجاتا ہے۔ انہوں نے تجویزدی کہ معدومی کاشکارجنگلی حیات کے تحفظ اورافزائش میں اضافہ سی بی اوز کے ذریعے ہی ممکن ہے ،حکومت کوچاہیئے کہ تمام صوبوں میں زیادہ سے زیادہ سی بی اوز قائم کی جائیں اور ان کی کارکردگی کومانیٹربھی کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔