لاپتہ افراد کیس؛ اعلی حکام کو ہرجانے، شوکاز نوٹسز اور توہین عدالت کے فیصلے معطل

ویب ڈیسک  جمعرات 21 جنوری 2021
حکومت نے اپنی ذمہ داری محسوس کی ہے اس سے بہتری کی امید کی جا سکتی ہے، عدالت۔ فوٹو:فائل

حکومت نے اپنی ذمہ داری محسوس کی ہے اس سے بہتری کی امید کی جا سکتی ہے، عدالت۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں اعلی حکام کو ہرجانے، شوکاز نوٹسز اور توہین عدالت کی کارروائی کے فیصلے معطل کردیئے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں بیان دیا کہ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے ہم آگاہ ہیں کہ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے، ہم اس حوالے سے بہت کچھ کر رہے ہیں، کابینہ کی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، کابینہ کمیٹی نے جبری گمشدگی کی وجوہات کا بھی تعین کرنا ہے اور سفارشات بھی دینی ہے۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو نے اس کا نوٹس لیا ہے مزید وقت دیا جائے تاکہ اس کا حل پیش کریں، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی معطل کی جائے، جو سیکرٹری یا افسر ملوث ہو گا ثابت ہوا تو میں بھی سزا دینے کے حق میں ہوں۔ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ  ہمارا مقصد یہی ہے کہ جن کے پیارے لاپتہ ہوجاتے ہیں ان کو واپس لایا جائے۔

وکیل عمر گیلانی نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں چالیس سماعتیں ہوئیں لیکن لاپتہ شخص کو واپس نہیں لایا جا سکا، حکومت سنگل بنچ کے سامنے کہہ چکی کہ وہ لاپتہ شخص کی فیملی کو معاوضہ دینے کے لیے تیار ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر اس کیس میں معاوضہ دے دیا جاتا ہے تو ہر کیس میں یہی معاملہ ہو گا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کمیٹی کو سفارشات تیار کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ وقت طے نہیں کیا گیا لیکن ایک ماہ یا دو ماہ لگ سکتے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے اپنی ذمہ داری محسوس کی ہے اس سے بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

عدالت نے اعلی حکام کو ہرجانے، شوکاز نوٹسز اور توہین عدالت کی کارروائی کے فیصلے معطل کرتے ہوئے لاپتہ افراد سے متعلق کابینہ کمیٹی کی رپورٹ چھ ہفتے میں طلب کرلی، جب کہ عدالت نے کیس کی سماعت مارچ تک ملتوی کردی۔ عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے فیصلے معطل کئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔