عزتیں لوٹنے والے

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  جمعـء 22 جنوری 2021

سوال یہ نہیں ہے کہ 5 سالہ مروی کا قاتل جیل میں کیوں روٹیاں توڑرہا ہے؟سوال یہ بھی نہیں ہے کہ ایسے سفاک چوپایوںکو ’’نامرد‘‘ بنانے کے دعوے کرنے والے باعزت مردکہاں گئے؟کیونکہ وہ تو موسمی بیانات دینے والے ایک وزیر تھے، سکندر اعظم کی طرح (ترمیم کے ساتھ) آئے، مناظر دیکھے اور بیان دے کر چلے گئے… سوال یہ ہے کہ میری سوہنی دھرتی پر شہوانی آب شاروں سے بے حیائی کا اشنان کرنے والے یہ انسان نما شیطان کب تک اپیلوں کی آڑ لے کر اپنی غلیظ زندگی کو طول دیتے رہیں گے…

نام کا پہلا حصہ مقدس ہے، اس لیے نہیں لکھوں گا، دوسرا فیض ہے لکھ دیتا ہوں کہ اُس بدبخت نے عدالت میں اعتراف کیا کہ اس نے عمرصادق کی 5 سالہ بیٹی مروی کو اغوا کیا، دو دن تک اس کی (اب کیا عزت لکھوں وہ تو بچی تھی عزت، ذلت نہیں ٹافی اور چاکلیٹ جانتی تھی) پروان چڑھتی عصمت کو تار تارکیا اور پھرکوڑے کے ڈھیر میں زندہ جلا دیا، عدالت میں درد بھری خاموشی تھی مگر عدالتی نظام کی مجبوریوں کے سامنے اپیل کا حق ایسے حیوانی صفت انسانوں کو بھی مل جاتا ہے۔

ممتاز قادری کو پھانسی دینے کی سب ہی کو جلدی تھی، کیا این جی اوز،کیا بلاگرز اورکیا مغرب کو خوش کرنے والی سیاسی جماعتیں؟ سب ہی مفاد کے ٹریفک میں پھنسی ہوئی تھیں، ہائی پروفائل کیس تھا ، درست ! مگر مروی تو عیسی نگری میں بونیر سے آئی وہ معصوم کلی تھی جو ابوکے بنا نہیں رہ سکتی تھی جیسے کہ مریم نواز ابو ابوکہتی رہتی ہیں، عمر صادق کراچی روزگارکی تلاش میں آیا تھا اورگھرکی کلکاری ہی گنوا بیٹھا…

نہ بنائیے نامرد، نہ کیجیے قانون سازی، نہ دیجیے بڑے بڑے بیانات، نہ دلائیے قوم کو امیدیں اور نہ کیجیے جھوٹے وعدے بس اتنا کیجیے کہ موجودہ عدالتی نظام کے بحثیت سرکار جلد سماعت کی اپیل کرکے دنیا سے ایک بدبوداروجود کو صاف کیجیے… نہ دیجیے سرعام پھانسی ، چھپ کر ہی دیجیے مگر دے دیجیے پھانسی… سچے پاکستانیوں کا گلا یہ حقیقتیں جان کرگھٹتا ہے، عدالتی نظام اور تاخیر پر سوال اٹھتے ہیں… بھولیے گا نہیں مروی اب پاکستانی عدالتوں سے بہت اوپر اﷲ کی عدالت میں انصاف کے لیے پہنچ چکی ہے اور وہاں مجرم کو نہیں ’’ مجرموں‘‘ کو سزا دی جاتی ہے… وقت آنے پر اپنے اپنے نام پکارے جانے سے قبل ذمے داریوں کو ادا کر دیجیے،آپ کیا سی سی ٹی وی کیمرے لگائیں گے۔

آپ کے پورے وجود میں خون کے ساتھ HDR ریکارڈنگ کیمرے روز حشر ہاتھ، آنکھ، منہ، پاؤں اور دیگر اعضائے جسمانی سے گواہی دیں گے، اُس عدالت میں گواہ مانگے جاتے ہیں نہ ثبوت صرف فیصلے سنائے جاتے ہیں ، جو پرندوں کو بھی بن مانگے رزق دیتا ہے، وہ مروی کی دہائی کیسے ردکردے گا؟سب خدا بنے بیٹھے ہیں اور یہ تماشا خدا دیکھ رہا ہے،کسی نے کہا تھا کہ اچھے تو سب ہی ہوتے ہیں لیکن پہچان تو برے وقت ہی میں ہوتی ہے کیونکہ سینہ بھرا ہے ، زخموں سے دھوکا ملا ہے اپنوں سے !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔