ایلنز کی حقیقت؟

سعد اللہ جان برق  جمعـء 22 جنوری 2021
barq@email.com

[email protected]

اپنی بحث کو مختصر رکھتے ہوئے مجھے واضح یہ کرنا ہے کہ اس کائنات میں ’’تقریباً‘‘ سوارب ضرب سو ارب ضرب آٹھ ایسے سیارے اوربھی ہوسکتے ہیں جن کا ماحول، محل وقوع اورنوعیت یاماہیت کرہ ارض جسے ہوں اوروہاں بھی ’’حیات‘‘ موجود ہو،جب یہ ہلدی کی گانٹھ فکشن فروشوں کے ہاتھ لگ گئی تو وہی سلسلہ شروع ہوگیا جہاں ’’جنات‘‘ کے باب میں ٹوٹا تھالیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ علت ومعلول پر مبنی اس خودکارکارخانے کا جسے کائنات کہتے ہیں، کچھ بنیادی اصول بھی ہیں اوران اصولوں سے انحراف کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔

کائنات کے چپے چپے پر اورذرے ذرے میں کارفرما اصولوں میں سے ایک ’’مادے‘‘ اور انرجی کا زوج بھی ہے اورسب سے زیادہ اہمیت فاصلوں اوردوریوں کی ہے؟ کوئی مخلوق کتنی ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوجائے اپنے مادی وجود کے ساتھ اتنے فاصلے طے نہیں کرسکتی ،اب تھوڑا سا پیچھے چل کردیکھتے ہیں کہ سورج اپنے خاندان کے ساتھ ’’ستارہ‘‘ ہونے کے باوجود کشش ثقل سے باہرنہیں ہے جس طرح چاند اس زمین کے گرد اورزمین یادوسرے سیارے اپنے سورج کی کشش میں ہیں، ٹھیک اسی طرح سورج اپنے خاندان سمیت کہکشاں کی کشش اورگرفت میں ہے چنانچہ طبیعات دانوں کے مطابق سورج اپنی کہکشاں کے گرد اپنا چکربیس ہزار سال میں مکمل کرتاہے اور موجودہ انسان ’’ہومیونٹین‘‘کی کل عمردس بارہ ہزار سال سے زیادہ نہیں۔

پچھلے دنوں ایک خبرآئی تھی کہ امریکا والوں نے ایک ایسا سیارہ دریافت کیاہے جس میں ’’پانی‘‘کاامکان ہوسکتاہے لیکن اس کا فاصلہ زمین سے ’’آٹھ ہزار نوری سال ‘‘ہے۔

حیات کی تعریف بھی بتادوں کہ اس کی بنیادی اکائی پروٹوپلازم ہے جو پانی ہی ہے، قرآن نے بھی بتایاہے کہ حیات پانی سے پیداہوئی ہے، بگ بینگ کے بارے میں بھی کہا جاتاہے کہ اولین ذرے ہائیڈروجن یعنی پانی کے وجود میں آئے تھے،اب اگر آٹھ ہزار نوری سال سے کم فاصلے پر کوئی ذی حیات مخلوق ممکن نہیں ہے تو ایلین یاجو بھی نام دیں،کہاں سے اورکیسے آتے ہیں یاآسکتے ہیں؟

اس آٹھ ہزار نوری سال کے فاصلے پرموجود ستارے یاسیارے میں پانی کی موجودگی کے علاوہ ایک اوربات یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ امریکا کے کسی ادارے شاید ناسا نے ایک پیغام کوڈ ورڈ میں بھیجاہواہے کہ اگر خلا میں کوئی اورسیارے میں کوئی مخلوق ہو تو اس جواب دے یالیکن بہرحال اس میں ضروری بات یہ ہے کہ وہ پیغام کم سے کم ڈھائی ہزارسال میں ان حدود تک پہنچے گا جہاں ’’حیات‘‘ یاکسی مخلوق کا امکان ہوسکتاہے اورپھر اس کااگر کوئی جواب ملے گا تو وہ بھی زمین تک پہنچنے میں ڈھائی ہزار سال لگائے گا۔ گویا کل پانچ ہزارسال ہوئے۔

انسانوں کی خیالی وتصوراتی دنیامیں یاعقائد کے استعارات میں تو سب کچھ ممکن ہے لیکن عملی اورحقیقی دنیا میں تو وہی ہوگا جواس کائنات کے اصولوں اورقوانین کے مطابق ہوگا۔ ویسے تو اڑن طشتریاں،خلائی مخلوقات کو دیکھنے کی باتیں اکثر میڈیا میں آتی رہتی ہیں، ان خیالی کرداروں کو فلموں اورڈراموں میں دکھایا جاتاہے اور اب تو ایک اسرائیلی بھوت دانشور کے مطابق امریکا کا ایلین مخلوق کے ساتھ معاہدہ بھی ہوچکاہے ۔

سیارہ مریخ میںامریکا اورایلین کاایک زیرزمین ٹریننگ سینٹر، کیمپ یا لیبارٹری بھی ہے، موجودہ انسانی نسل بھی زمین کی اصل مخلوق نہیں بلکہ خلائی مخلوق ہے، اہرام مصر بھی ایلین نے تعمیر کیے ہیں،لیکن حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اس کائنات کی بنیاد مادے اور انرجی کے زوج پر ہے اوران دونوں کو فاصلے کرنے کے لیے اشتراک کی ضرورت ہوتی ہے تو ایلین یا ان کی اڑن طشتریاں مادے اورتوانائی کی اس بنیاد سے باہرکیسے ہوسکتے ہیں۔ اتنی رفتار اوراتنے فاصلے کے باعث ان کو راکھ ہونا چاہے یااسٹیفن ہاکنگ کے مطابق مکان سے نکل کر زمان میں جانکلنا چاہیے یامذہبی اصطلاح میں دوسرے جہان میں پہنچنا چاہیے یا بلیک ہولز اوروائٹ ہول کی بنیادپر ایک ہول سے دوسرے ہول میں جا نکلنا چاہیے اوراگرایسا ہوتاہے تو پھران کی واپسی تو ممکن نہیں کہ زمان ومکان کے درمیان آمدورفت کسی بھی مخلوق کے لیے ممکن نہیں ہوسکتی۔

ایک مرتبہ پھرایلین پر آتے ہیں،اگر روایتوں، کہانیوں اورانسانی افسانوں کے مطابق ایسی کوئی مخلوق کسی سیارے یاستارے سے آتی جاتی ہے تو اس کاذریعہ مواصلات کیاہے؟ جو اڑن طشتریاں دکھائی جاتی ہیں وہ تو مادے کی بیان کی جاتی ہیں،کہانی والوں نے اڑن طشتری تو اپنے ہاں کی طشتری سے تصور لے کربنادی لیکن اگر وہ روشنی یا اس سے بھی زیادہ رفتار سے چلتی ہیں تو جل کیوںنہیں جاتیں ؟ اوران کے اندر کی مخلوق ،اگر واقعی مخلوق ہے، مادے اورتوانائی کامرکب تو وہ کیسے زندہ سلامت رہتی ہے،یہ سوال بہت اہم ہے اوربہت زیادہ غوروفکر کامتقاضی ہے۔

ایک مرتبہ پھر یاددلاناچاہتاہوں اس پوری کائنات اوراس کی ساخت میں یہی دوچیزیں موجود ہیں،مادہ اورانرجی اوریہ دونوں ایک دوسرے کے بغیرنامکمل ہیں،نہ تومادہ بغیر توانائی کے متحرک ہوسکتاہے اورنہ ہی توانائی مادے کی اشتراک یامدد کے بغیر پیداہوسکتی ہے یاقائم رہ سکتی ہے۔

اس کے لیے ہم آگ بجلی کی مثال لیتے ہیں جو توانائی ہیں لیکن یہ دونوں کسی نہ کسی طرح ’’مادے‘‘ کی پیداوارکی رہین منت ہوتی ہیں، ہمہ اقسام کی مشینوں اور انجنوں میں آگ جلتی ہے اوراس آگ کی توانائی سے متحرک ہوتی ہیں جسے ہم ایندھن کہتے ہیں اوریہ ایندھن ہمیشہ مادی ہوتا ہے،لکڑی کوئلہ تیل یاکچھ بھی اوراس کی پیدائش بھی مادی اشیاء کی رگڑ سے ہوتی ہے جب تک مادی ایندھن میسرہے تو آگ کی توانائی بھی موجود ہے جہاں ایندھن یامادہ ختم ہوا ،توانائی بھی ختم ۔ طبیعات کے مطابق اس کائنات میں بے شمار ایسے نجوم واجرام ہیں جو ہزاروں سال پہلے بجھ چکے ہیں اوران کے وجود کانام ونشان تک نہیں رہاہے لیکن ہم بدستور انھیں چمکتا ہوادیکھتے ہیں کیوں کہ ان کی روشنی ابھی راہ میں ہے اورمحوسفر ہے ،بجھ جانے کا مرحلہ ابھی ہم تک نہیں پہنچ سکاہے۔

اب سوال پھرایلین یا ایسی کسی مخلوق کاہے جو روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہو، تووہ پہلے تو ممکن نہیں لیکن اگرممکن ہوبھی جائے تو فاصلے توبہرحال رہیں گے اوران کافنا ہونا لازم ہے کیوں کہ ’’جسم‘‘ کوئی بھی ہو اس کائنات میں کہیں بھی ہو،مادے اورتوانائی کے اشتراک سے بناہوگا۔

اکثر لوگوں کاخیال بلکہ یقین یہی ہے جو ٹائم مشین والی فلموں یااسٹارٹریک وغیرہ کے فکشنوں سے اخذکیاہواہے لیکن عملی اورطبیعاتی طورپر یہ بھی ممکن نہیں ہے ،دراصل یہ سب کچھ انسان کاتخیل اورتصورتو ہوسکتاہے لیکن کائنات اورزمان ومکان کے بنیادی حقائق کی روشنی میں ممکن نہیں،بلکہ ایک اورسوال ان تمام سوالات سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آخر کس بنیاد پر کسی اورسیارے کی مخلوق علم اورٹیکنالوجی اتنی زیادہ آگے کیوں کر ہوگئی۔

بگ بینگ کے ذرے سے تو سب کچھ ایک ساتھ نکلاہے اورکائناتی اصول ارتقاء کی بنیاد پر سب کو ایک ہی مرحلے میں ہوناچاہیے کچھ معمولی انیس بیس کافرق جو دنیا کے ممالک میں ہے وہ تو ہوسکتالیکن یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کسی اورسیارے کی مخلوق کرہ ارض سے اتنی زیادہ آگے ہو،کہ بیس ہزار سال یااس سے بھی زیادہ پہلے یہاں پہنچنے کی استعداد حاصل کرچکی ہو،فکشن اورتصوراتی دنیا میں تویہ بھی کہا جاتاہے کہ مصر کے اہرام کسی خلائی مخلوق نے بنائے ہیں یاموجودہ انسانی نسل ہی کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی ہے۔

کیوں کہ یہ شواہد توہمارے پاس موجود ہیں کہ یک خلوی ابتداء مخلوق ستاون کروڑ سال سے اس زمین پرموجود ہے اور ارتقا کے ہر ہر مرحلے کے شواہد بھی موجود ہیں مثلاً ’’پوٹوہارمانس‘‘ دوکروڑ سال پہلے تھا تو کیاستاون کروڑ سال پہلے یادوچار کروڑسال پہلے اس مضروضہ سیارے کی  مخلوق اتنی ترقی یافتہ ہوگئی تھی یہ تو ثابت کرناپڑے گا کہ آخر وہ خلائی مخلوق یاحلیے موجودہ انسانی نسل کے آباواجداد کب اورکیسے یہاں پہنچی تھی اوراگر ان کی آمدورفت اتنی سہل ہے تو یہ سلسلہ جاری ہونا چاہیے اوراس کے شواہد بھی ہونے چاہیے تھے جیسا کہ براعظم امریکا یاآسٹریلیا وغیرہ کی دریافت کا ریکارڈموجود ہے کیاکروڑوں سال پہلے سے یہاں آنے جانے والی مخلوق اتنی ان پڑھ اورجاہل بھی ہے جتنی زیادہ سائنس وٹیکنالوجی میں آگے ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ ایلینزوغیرہ بھی محض تصوراتی بلکہ ان عقائد یاتوہمات کاایک متبادل ہے جوپہلے جنات اور دیوؤں پریوں کے بارے میں تھا،تصوروہی سپرنیچرل کاہے صرف رخ یاصورت بدلی ہوئی ہے اوریہ دونوں صرف تصورات ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔