زندگی تو گزر ہی جاتی ہے

عابد محمود عزام  جمعـء 22 جنوری 2021

زندگی کیا ہے؟اس گنجلک سوال سے متعلق ہرکوئی سوچتا ہے، مگر اس کا کوئی ایک آسان اور مختصر سا جواب حاصل نہیں ہوتا۔ ہر شخص کے لیے اس کا جواب مختلف ہے۔ ہرشخص زندگی میں جن حالات سے نبرد آزما ہے،اس کے لیے زندگی صرف وہی ہے، وہی اس سوال کا جواب ہے۔

زندگی کو جس زاویے سے بھی دیکھا جائے وہ اپنی سچائی کی گواہی دیتا نظر آتا ہے،کیونکہ زندگی ہر انسان کی اپنی سوچ کا نام ہے۔ زندگی ایک چیلنج ہے جسے ہرکسی کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ زندگی ایک پر پیچ کہانی ہے جو بظاہر دشوار راستوں سے گزرتی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ نہ آغاز انسان کی منشا سے لکھا جاتا ہے اور نہ ہی اختتام اس کی مرضی سے پوچھ کرکیا جاتا ہے۔

زندگی ایک ایسا فریب ہے جس کی حقیقت موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انسان کو دنیا میں آتے ہی مختلف احساسات اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں جہاں بے شمار خوشیاں اور مسرتیں ملتی ہیں، وہیں سنگین حالات سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی انسان کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے اورکبھی ناکامیاں اس کا مقدر بنتی ہیں۔

انسان کتنا ہی طاقتور اور با اثر بن جائے، حقیقت مگر پھر بھی یہ ہے کہ زندگی کے اسٹیج پر اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی سی ہے۔ تقدیر میں لکھا اسکرپٹ اسے خواہ کتنا ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو، اس پر عمل کرنا ہی ہوتا ہے، وہ جتنی بھی تگ ودد کرلے اسے نہ تو وہ کامیاب کرا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے منہ پھیر سکتا ہے، اگرکوئی مجھ سے پوچھے زندگی کیا ہے؟

میرے خیال میں اس سوال کا بہترین جواب یہ ہے کہ انسانیت کی فلاح کے لیے ہو تو زندگی ایک مقدس فریضہ اورکامیابی کا راز ہے اور اگر محض اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہو تو یہ سسکی سے شروع ہوکر ہچکی پر ختم ہوجانے والے محدود و متعین وقت اور ہر پل اک نئے امتحان کا نام ہے۔

زندگی بہت ہلکی پھلکی ہوتی ہے، انسان اس پر اپنی بے لگام خواہشات کا بوجھ لاد کر اسے بوجھل بنا دیتا ہے۔ انسان کی خواہشات کی کڑواہٹ زندگی کی مٹھاس اور چاشنی چھین لیتی ہے۔ زندگی کی تمام آسائشوں اور بہت سے مال و متاع کا حصول بیشتر افراد کی خواہش ہوتی ہے۔ ان کے حصول کے لیے انسان کو بے پناہ محنت کرنا پڑتی ہے، اعصاب شکن محنت اور دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد بھی ان کے حاصل ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اگر انسان اپنی من پسند تمام آسائشیں حاصل کر بھی لیتا ہے تو بھی یہ سب کچھ دائمی نہیں ہوتا، ایک محدود مدت کے لیے ہوتا ہے۔

آخر ایک دن اسے مرنا ہوتا ہے اور موت کا تو ایک لمحے کا بھی بھروسہ نہیں کہ کب آن دبوچے۔ موت کی تلوار ہر آن انسان پر لٹکتی رہتی ہے۔ موت آتی ہے تو تمام منصوبے دھرے رہ جاتے ہیں۔زندگی بھر دولت کے انبار لگانے والا اور ایک مفلس انسان دونوں یکساں طور پر دنیا سے خالی ہاتھ جاتے ہیں۔

عقل مندی تو یہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کے مقصد کا علم ہو۔ اسے اس بات کا مکمل شعور ہوکہ اس کی تخلیق کیوں کی گئی؟ وہ کیوں پیدا ہوا؟ اسے دنیا میں کیوں بھیجا گیا؟ اسے زندگی کیوں دی گئی؟ زندگی کا کوئی اہم مقصد تو نہیں؟ہماری بدنصیبی ہے ہم اپنے وجود کے اصلی جواز سے بے خبر ہیں۔ ہم سب سے بہترین مذہب رکھنے کے باوجود عملی طور پر دین سے غافل ہو گئے ہیں اور زندگی جو ہمیں امانت کے طور پر عطاء کی گئی ہے، اس کے حقوق ہم نے بھلا دیے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کی زندگی ایک امتحان ہے۔ اصل زندگی آخرت کی ہے۔ انسان اپنے مقصدِ حیات کو یکسر بھول بیٹھا اور وسائل کو مقاصد کا درجہ دے کر اس کے پیچھے زندگی کھپا رہا ہے۔اسے صرف دولت اور شہرت حاصل کرنے اور اپنی دولت وثروت کے ذریعے معاشرہ میں مصنوعی عزت حاصل کرنے کی فکر ہے۔ اس کے لیے وہ غلط راستہ اختیار کرنے سے بھی نہیں کتراتا۔ ظلم، زیادتی، دھوکا، بدعنوانی اور ہر قسم کی برائی کا بلاخوف ارتکاب کرتا ہے۔

انسان اتنی بے فکری سے زندگی بسر کر رہا ہے، جیسے مرنا ہی نہیں ہے اور مرنے کے بعد کوئی حساب وکتاب نہیں ہوگا۔ اچھائیوں کی جزاء نہیں ملے گی اور برائیوں پر سزا نہیں ملے گی۔ انسان کو غوروفکرکرنا چاہیے کہ اس کی تخلیق کا صرف یہی مقصد تو نہیں ہوسکتا کہ وہ دنیا میں غلط صحیح راستے پر چلتے ہوئے حلال حرام کی تمیزکیے بغیر کمائے کھائے، پرعیش زندگی گزارے، موج ومستی کرے اور خوب مزے اڑائے۔ اس کے بعد کچھ نہیں ہوگا؟

موت کا ذائقہ ہر ایک ذی روح کو چکھنا ہے۔اس سے مفر ممکن نہیں ہے۔ بعد از موت بھی حیات ہے۔اس حیات کے اچھے برے ہونے کا دارومدار بھی ہماری اس عارضی زندگی کے اعمال و افعال پر ہے۔اس کی کامیابی کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس پر سوچنے اور عمل کرنے کا وقت آج ہے، آج عمل کا دن ہے۔

سب سے پہلے فرائض کا اہتمام کریں۔اس کے بعد پوری توجہ حقوق العباد کے پورا کرنے پر صرف کریں۔زندگی میں ہم طرح طرح کے منصوبے بناتے ہیں۔ زندگی کی بہت سی نعمتیں اورآسانیاں حاصل کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں، یہ منصوبے بنانا اور ان نعمتوں کا حصول بری بات نہیں، لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایک ہدف ایسا بھی ہونا چاہیے جو دوسروں کی بھلائی کے لیے ہو۔ اپنے نفع کے حصول کے لیے تو ہر کوئی زندگی گزارتا ہے، لیکن زندگی کی اصل چاشنی دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے،ان کو نفع پہنچانے اور ان کی تکلیف کو دور کرنے میں پوشیدہ ہے۔

زندگی تو سب کی گزر ہی جاتی ہے، لیکن کامیاب زندگی یہ ہے کہ ایسا کام کر جائیں کہ بعد میں بھی اچھے الفاظ سے یاد کیے جائیں۔ کسی کو تعلیم میں مدد دینا،کسی کو غربت سے نکالنا،کسی ضرورت مند کی مدد کرنا، سماجی بھلائی کے کاموں میں حصہ ڈالنا اور اسی طرح کے بے شمار اہداف ہیں، جو ہم دوسروں کی بھلائی کے لیے منتخب کر سکتے ہیں۔

کسی دکھی اداس دل کو خوش کرنا کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ انسان کے اندر سب سے خوب صورت احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کی زندگی کی توانائی سے کسی اورکی زندگی کو حرارت ملتی ہے اور وہ کسی کے لیے مددگار اور ہمدرد ثابت ہوتا ہے۔ انسانیت کا رشتہ لوگوں کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھنے، ان کے دکھوں کا مداوا کرنے اور ان کے کام آنے میں پنہاں ہے، ہمیں اپنے کاموں کی ترجیحات طے کرنی چاہیے۔ ہم منفی عادتوں کو چھوڑکر مثبت عادتیں اپنا سکتے ہیں۔ مثبت سوچ ہماری زندگی کے منظر نامے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اپنی زندگی کو رب کی طرف سے ایک عظیم الشان اور انمول خزانہ سمجھیں اور اس خزانے کو مثبت کاموں پر خرچ کریں۔ زندگی ہمارے سامنے ایک خالی کینوس کی طرح ہے، اس کینوس پر کیسے رنگ بھرنا ہے اورکیا تصویر بنانی ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے۔ زندگی کا مفہوم وہ چیز ہے جو ہم خود اپنے اعمال اور افکار کے ساتھ ہرروز پیدا کرتے ہیں۔ زندگی کوکس شکل میں دکھانا ہے، یہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔